الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
83. باب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَمَا جَاءَ فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ
باب: قیام رمضان (تراویح پڑھنے) کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 808
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرغب في قيام رمضان من غير ان يامرهم بعزيمة، ويقول: " من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه "، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والامر على ذلك. ثم كان الامر كذلك في خلافة ابي بكر وصدرا من خلافة عمر على ذلك. وفي الباب عن عائشة، وقد روي هذا الحديث ايضا عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، وَيَقُولُ: " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ. ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے قیام (تہجد پڑھنے) کی ترغیب دلاتے، بغیر اس کے کہ انہیں تاکیدی حکم دیں اور فرماتے: جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور معاملہ اسی پر قائم رہا، پھر ابوبکر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں اور عمر رضی الله عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی پر رہا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی سے حدیث آئی ہے،
۳- یہ حدیث بطریق: «الزهري عن عروة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 25 (759)، سنن ابی داود/ الصلاة 318 (1371)، (تحفة الأشراف: 15270)، وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الإیمان 27 (37)، والصوم 6 (1898)، والتراویح 1 (2009)، و سنن ابی داود/ الصلاة 318 (1371)، وسنن النسائی/قیام اللیل 3 (1603)، والصیام 39 (2198-2201، 2203-2204، 2212)، والإیمان 21 (5027- 5029)، و22 (5030) من غیر ھذا الطریق (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابوبکر رضی الله عنہ کے عہد میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بغیر عزیمت و تاکید کے اکیلے اکیلے ہی تراویح پڑھنے کا معاملہ رہا، پھر عمر فاروق رضی الله عنہ نے ابی بن کعب رضی الله عنہ کی امامت میں باضابطہٰ گیارہ رکعت تراویح باجماعت کا نظم قائم کر دیا۔ اس ضمن میں مؤطا امام میں صحیح حدیث موجود ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1241)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.