الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

شمائل ترمذي کل احادیث 417 :حدیث نمبر
شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ الطَّعَامِ وَبَعْدَمَا يَفْرُغُ مِنْهُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانا کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں
کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے
حدیث نمبر: 187
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة قال: حدثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن ابي حبيب، عن راشد بن جندل اليافعي، عن حبيب بن اوس، عن ابي ايوب الانصاري قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم يوما، فقرب طعاما، فلم ار طعاما كان اعظم بركة منه، اول ما اكلنا، ولا اقل بركة في آخره، فقلنا: يا رسول الله، كيف هذا؟ قال: «إنا ذكرنا اسم الله حين اكلنا، ثم قعد من اكل ولم يسم الله تعالى فاكل معه الشيطان» حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ جَنْدَلٍ الْيَافِعِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَرَّبَ طَعَامًا، فَلَمْ أَرَ طَعَامًا كَانَ أَعْظَمَ بَرَكَةً مِنْهُ، أَوَّلَ مَا أَكَلْنَا، وَلَا أَقَلَّ بَرَكَةً فِي آخِرِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ هَذَا؟ قَالَ: «إِنَّا ذَكَرْنَا اسْمَ اللَّهِ حِينَ أَكَلْنَا، ثُمَّ قَعَدَ مَنْ أَكَلَ وَلَمْ يُسَمِّ اللَّهَ تَعَالَى فَأَكَلَ مَعَهُ الشَّيْطَانُ»
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ آپ کے حضور کھانا پیش کیا گیا۔ کھانے کے آغاز میں جو برکت تھی از روئے برکت کے ایسا کھانا میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور اسی کھانے کے آخر میں جو بےبرکتی تھی وہ بھی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا کیفیت ہے؟ ارشاد فرمایا: جس وقت ہم نے کھانا شروع کیا تھا تو ہم نے اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک لیا تھا، پھر ایک شخص کھانے کے لیے بیٹھا اور اس نے اللہ تعالیٰ کا اسم پاک نہیں لیا، پس اس شخص کے ساتھ شیطان نے بھی کھانا کھایا۔

تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» :
«شرح السنة للبغوي (275/11 ح 2824) من طريق الترمذي به. مسند احمد (415/5. 416 ح 23522). اضواء المصابيح (4201)»
اس روایت کی سند میں وجہ ضعف دو ہیں:
➊ ابن لہیعہ اختلاط کی وجہ سے ضعیف، نیز مدلس تھے اور اس سند میں تصریحِ سماع نہیں ہے۔
➋ حبیب بن اوس کو میرے علم کے مطابق صرف ابن حبان نے ثقہ قرار دیا، یعنی یہ راوی مجہول الحال ہے اور مجہول الحال راوی کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.