سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دین تو سراسر خیر خواہی کا نام ہے“، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کس کے لیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللّٰہ کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لئے اور عام مسلمانوں کے لیے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: قبل الحديث: 57 تعليقا ، م: 55
حدثنا حماد بن اسامة ، قال: اخبرنا هشام ، عن ابيه ، قال: خرج عمر على الناس يضربهم على السجدتين بعد العصر، حتى مر بتميم الداري ، فقال: لا ادعهما، صليتهما مع من هو خير منك رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال عمر: إن الناس لو كانوا كهيئتك لم اباليحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَرَجَ عُمَرُ عَلَى النَّاسِ يَضْرِبُهُمْ عَلَى السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، حَتَّى مَرَّ بِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ ، فَقَالَ: لَا أَدَعُهُمَا، صَلَّيْتُهُمَا مَعَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّاسَ لَوْ كَانُوا كَهَيْئَتِكَ لَمْ أُبَالي
عروہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نکلے اور نماز عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے پر انہیں مارنے لگے، اسی اثناء میں وہ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، تو وہ کہنے لگے کہ میں تو ان دو رکعتوں کو نہیں چھوڑوں گا، کیونکہ میں نے یہ دو رکعتیں اس ذات کے ساتھ پڑھی ہیں جو آپ سے بہتر تھی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اگر باقی لوگوں کی بھی تمہارے جیسی کیفیت ہوتی تو مجھے کچھ پرواہ نہ ہوتی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، عروة لم يسمع عمر ولا تميمة، غير أنه قد ثبت أن عمر نهي عن الصلاة بعدالعصر
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس کے ہاتھ پر کوئی شخص اسلام قبول کر لے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ زندگی اور موت میں دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ حقدار اور اس کے زیادہ قریب ہو گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عبدالله بن موهب لم يدرك تميمة، وتصريح عبدالله بن موهب بسماعه من تميم خطأ
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دین تو سراسر خیر خواہی کا نام ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول! کس لیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے لئے، اس کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لئے اور عام مسلمانوں کے لیے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: قبل الحديث: 57 تعليقا، م: 55
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دین تو سراسر خیر خواہی کا نام ہے“، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کس کے لئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کے لئے , اس کی کتاب کے لئے , اس کے رسول کے لئے، مسلمان کے حکمرانوں کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: قبل الحديث: 57 تعليقة، م: 55
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق پوچھا: جس کے ہاتھ پہ کوئی شخص اسلام قبول کر لے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ زندگی اور موت میں دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ حقدار اور اس کے قریب ہو گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عبدالله بن موهب لم يدرك تميمة ، وتصريح عبدالله بن موهب بسماعه من تميم خطأ
حدثنا حدثنا الحسن بن موسى ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، عن الازرق بن قيس ، عن يحيى بن يعمر ، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اول ما يحاسب به العبد يوم القيامة صلاته، فإن كان اتمها كتبت له تامة، وإن لم يكن اتمها، قال الله عز وجل: انظروا هل تجدون لعبدي من تطوع فتكملون بها فريضته، ثم الزكاة كذلك، ثم تؤخذ الاعمال على حساب ذلك .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ كَانَ أَتَمَّهَا كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَتَمَّهَا، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَتُكْمِلُونَ بِهَا فَرِيضَتَهُ، ثُمَّ الزَّكَاةُ كَذَلِكَ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى حِسَابِ ذَلِكَ .
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے پہلے جس چیز کا بندے سے حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہو گی، اگر اس نے اسے مکمل ادا کیا ہو گا تو وہ مکمل لکھ دی جائیں گی، ورنہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو! میرے بندے کے پاس کچھ نوافل ملتے ہیں؟ کہ ان کے زریعے فرائض کی تکمیل کر سکو، اسی طرح زکوۃ کے معاملے میں بھی ہو گا اور دیگر اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہو گا۔“