یحیٰی بن یعمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی کہ اے ابو عبدالرحمٰن، کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ تقدیر (کوئی چیز) نہیں۔ انہوں نے پوچھا، کیا ہمارے ہاں (اس دور میں) ان لوگوں میں سے کوئی موجود ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں (موجود ہیں)۔ انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان سے ملو تو میری طرف سے انہیں یہ پیغام دینا کہ ابن عمر اللہ تعالیٰ کی طرف تم سے بیزاری اور قطع تعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور تم ان سے بیزار ہو۔ پھر فرمایا کہ مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس اثنا میں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو اچانک ایک آدمی آیا۔ اس پر سفر کے آثار تھے اور شہر کا رہنے والا نہیں تھا۔ وہ تیز تیز چلتا ہوا آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ تو اس نے پوچھا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسلام کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، تو نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، بیت اللہ کا حج کرے، عمرہ ادا کرے، غسل جنابت کرے، اور یہ کہ تو مکمل وضو کرے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے۔“ اس نے کہا کہ جب میں یہ (فرائض) ادا کر لو ں تو میں مسلمان ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں (تم یہ فرائض ادا کر کے مسلمان بن جاؤ گے)“ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ انہوں نے ایمان، احسان اور قیامت کے بارے میں سوال کے متعلق مکمل حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الايمان، رقم الحديث: 8۔ سنن ترمذي، حديث: 2030۔ والنسائي فى سننه الكبري 97/8، رقم: 5883، ابوداود: 4695، سنن ابن ماجه: 62۔ مسند احمد، ابن حبان: 1731۔ الدار قطني 207۔ البيهيقي فى سننه الكبرى: 8537»
حمران بن ابان رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور بلاط (پتھریلی زمین) پر وضو کیا۔ پھر فرمایا، میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث سناتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”جس شخص نے بہترین وضو کیا اور نماز ادا کی تو اس کے اس نماز اور دوسری نماز کے درمیان ہونے والے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الوضوء، باب المضمضة فى الوضوء، حديث: 159، مسلم: كتاب الطهارة، باب فضل الوضوء والصلاة 227، سنن نسائي، حديث: 87، سنن ابي داود: 32، سنن ابن ماجه، حديث: 332، احمد 57/1، من طريق يحيى بن سعيد رقم: 400، موطا مالك رقم: 58»
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حمران سے روایت ہے کہ ایک سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پانی منگوا کر وضو کیا تو اپنے ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا، اور ناک (میں پانی ڈال کر اسے) جھاڑا، پھر اپنے چہرے کو تین بار دھویا، پھر اپنے دائیں ہاتھ کو کہنی سمیت تین بار دھویا، پھر اپنا بایاں ہاتھ تین بار دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پاؤں ٹخنوں سمیت تین بار دھویا، پھر اس طرح (تین بار) اپنا بایاں پاؤں دھویا، پھر فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے میرے اس وضو جیسا وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت (نفل نماز) ادا کی ان میں اپنے نفس کے ساتھ بات چیت بھی نہیں کرتا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“ ابن شہاب کہتے ہیں کہ ہمارے علمائے کرام فرمایا کرتے تھے، یہ وہ مکمل وضو ہے جسے کوئی شخص نماز کے لیے کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، حديث 159، صحيح مسلم، الطهارة باب صفة الوضوء وكماله رقم: 226، سنن نسائي، رقم: 84، سنن ابي داود: 106»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا ہے، اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو پانی یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جنہیں اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ پھر جب اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اُس کے ہاتھوں سے وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جنہیں اُس کے ہاتھوں نے کیا تھا۔ پھر جب اپنے پاؤں دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ نکل جاتے ہیں جن کی طرف اُس کے قدم چل کر گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم كتاب الطهارة، باب خروج الخطايا مع ماء الوضوء رقم: 244، سنن ترمذي، رقم: 2، موطا امام مالك: 60، سنن دارمي، رقم: 718، ابن حبان رقم: 1040، من طريق احمد بن ابي بكر، البيهقى رقم: 386، من طريق ابن وهب»
5. مشقت اور تکلیف کے باوجود مکمل وضو کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے، جنت میں درجات کی بلندی اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنے والے کو جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کے برابر ثواب دیے جانے کا بیان
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، (ضرور فرمائیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مشقّت اور تکلیف کے باوجود مکمل وضو کرنا، مساجد کی طرف زیادہ قدم چل کر جانا (یعنی مسجد دور ہونے کے باوجود نماز کے لیے مسجد آنا) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، یہی تمہارا جہاد ہے، یہی تمہارا جہاد ہے۔“ دونوں مرتبہ، «فَذَالِكُم’الرِّبَاطَ» ”یہی تمہارا جہاد ہے“ فرمایا۔ (حدیث کے راوی) علی بن حجر کی روایت میں «فَذَالِكُم’الرِّبَاطَ» ایک مرتبہ ہے۔ یونس بن عبد الاعلیٰ کی روایت میں «الا ادلكم» کی بجائے «اخبركم» ، ”میں تمہیں ایسے عمل کی خبر نہ دوں“ کے الفاظ ہیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی «بلىٰ» ”کیوں نہیں“، (ضرور بیان فرمائیں) کے الفاظ نہیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب فضل اسباغ الوضوء على المكاره، رقم: 251، سنن ترمذي، رقم: 51، سنن نسائي، رقم: 143، فى الكبرى 89/1، 138، مسند احمد، رقم: 6911، موطا امام مالك رقم: 348، ابن ماجه رقم: 428»
6. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت، جسے اللہ تعالیٰ نے بہترین امت بنایا اور انہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کیا ہے، کی نشانی قیامت کے روز آثار وضو ہو گی جس سے وہ پہچانے جائیں گے
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک روز) قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں مدفون لوگوں کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: ”(اے) مومن قوم کے گھروالو تم پر سلام ہو، اور بیشک ہم بھی، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا، تم سے ملنے والے ہیں۔ میری آرزو اور تمنّا ہے کہ ہم ا پنے بھائیوں کو دیکھیں۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میرے صحابہ ہو، میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے اور میں تم سے پہلے کوثر پر ہوں گا“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اُمّتی ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں کیسے پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے، اگر کسی آدمی کے سفید پیشانی اور چمکدار پاؤں والے گھوڑے سیاہ فام گھوڑوں میں ملے ہوئے ہوں، تو کیا وہ اپنے گھوڑے پہچان نہیں لے گا؟“ صحابہ نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (وہ ضرورپہچان لے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ آئیں گے تو ان کے چہرے اور ہاتھ پاؤں وضو کے اثر سے چمک رہے ہوں گے، میں حوض کوثر پر ان کا پیش خیمہ ہوں گا، خبردار، میرے حوض سے کچھ لوگوں کو اس طرح دھتکار دیا جاے گا جس طرح گم راہ (بھٹکا ہوا) اُونٹ دھتکار دیا جاتا ہے میں انہیں پکاروں گا، آجاؤ، تو کہا جائے گا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (دین میں) نئے نئے کام ایجاد کر لیے تھے۔ تو میں کہوں گا، (اللہ کی رحمت سے) دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ۔“ یہ ابن علیہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب استحباب اطالة الغرة والتحجيل فى الوضوء، رقم: 249، سنن نسائي، رقم: 150، سنن ابي داود: 3237، سنن ابن ماجه، رقم: 4306، موطا امام مالك، رقم: 57، احمد 300/2»
7. وضو میں «عَضُدَين» (کندھے اور کہنی کے درمیان کے حصے تک بازو) دھو کر تجیل کو لمبا کرنا مستحب ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم (پر عمل کرنے) کی وجہ سے قیامت کے روز (مؤمن کا) زیور وضو کے مقامات تک پہنچے گا
ابوحازم رحمہ اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو وہ وضو کے پانی کو اپنی بغلوں تک پہنچا رہے تھے۔ میں نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”بلاشبہ (مومن) کا زیور وضو کے مقامات تک پہنچے گا۔“(اس لیے میں پانی کو بغلوں تک پہنچا رہا ہوں۔)
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة باب تبلغ الحلية حيث يبلغ الوضوء، رقم: 250، سنن نسائي، رقم: 149، مسند احمد، رقم: 371/2، ابن حبان رقم: 1045 - من طريق على بن مسهر»
مصعب بن سعد رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابن عامر بیمار ہو گئے، تو لوگ ان کی تعریف کرنے لگے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خاموش رہے۔ پھر اُنہوں نے فرمایا کہ سنو، میں ان سے زیادہ دھوکہ دینے والا نہیں ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ طہارت (وضو) کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا اور نہ خیانت (کے مال) سے صدقہ قبول کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة، رقم: 224، مسند احمد، رقم: 4700، سنن ابن ماجه: 272، احمد 20/2، 51، 27 -73/3»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ خیانت سے صدقہ قبول ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة للصلاة، رقم: 325، سنن ترمذي، رقم: 1، سنن ابن ماجه: 272، مسند احمد: 4470»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ وضو کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا اور نہ خیانت (کے مال) سے صدقہ قبول کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح، ارواه الغليل: 120، صحيح سنن ابي داود: 53، سنن ابي داود، كتاب الطهارة، باب فرض الوضوء، رقم: 59، سنن نسائي: رقم 139، سنن الدارمي، رقم: 683»