الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
The Book on Traveling
39. باب مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ فِي السَّفَرِ
39. باب: سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 544
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عبد الحكم الوراق البغدادي، حدثنا يحيى بن سليم، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: سافرت مع النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر، وعثمان " فكانوا يصلون الظهر والعصر ركعتين ركعتين لا يصلون قبلها ولا بعدها ". وقال عبد الله: لو كنت مصليا قبلها او بعدها لاتممتها، قال: وفي الباب عن عمر، وعلي، وابن عباس، وانس، وعمران بن حصين، وعائشة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن غريب. لا نعرفه إلا من حديث يحيى بن سليم مثل هذا. قال محمد بن إسماعيل: وقد روي هذا الحديث عن عبيد الله بن عمر، عن رجل من آل سراقة، عن عبد الله بن عمر. قال ابو عيسى: وقد روي عن عطية العوفي، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يتطوع في السفر قبل الصلاة وبعدها " وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان " يقصر في السفر " وابو بكر، وعمر، وعثمان صدرا من خلافته، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وقد روي عن عائشة " انها كانت تتم الصلاة في السفر " والعمل على ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه. وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق. إلا ان الشافعي يقول: التقصير رخصة له في السفر فإن اتم الصلاة اجزا عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ " فَكَانُوا يُصَلُّونَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ لَا يُصَلُّونَ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا ". وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَهَا أَوْ بَعْدَهَا لَأَتْمَمْتُهَا، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ مِثْلَ هَذَا. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَبَعْدَهَا " وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ " يَقْصُرُ فِي السَّفَرِ " وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ صَدْرًا مِنْ خِلَافَتِهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ " وَالْعَمَلُ عَلَى مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. إِلَّا أَنَّ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: التَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَهُ فِي السَّفَرِ فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ أَجْزَأَ عَنْهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس طرح یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث بطریق: «عن عبيد الله بن عمر عن رجل من آل سراقة عن عبد الله بن عمر» بھی مروی ہے،
۳- اور عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں نماز سے پہلے اور اس کے بعد نفل پڑھتے تھے ۱؎،
۴- اس باب میں عمر، علی، ابن عباس، انس، عمران بن حصین اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۵- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہم سفر میں قصر کرتے تھے اور عثمان رضی الله عنہ بھی اپنی خلافت کے شروع میں قصر کرتے تھے،
۶- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے،
۷- اور عائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں نماز پوری پڑھتی تھیں ۲؎،
۸- اور عمل اسی پر ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے مروی ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، البتہ شافعی کہتے ہیں کہ سفر میں قصر کرنا رخصت ہے، اگر کوئی پوری نماز پڑھ لے تو جائز ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8223) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث ۵۵۱ پر مولف کے یہاں آ رہی ہے، اور ضعیف و منکر ہے۔
۲؎: یہ صحیح بخاری کی روایت ہے، اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے، گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے، اور یہی راجح قول ہے۔ رخصت کے اختیار میں سنت پر عمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1071)
حدیث نمبر: 545
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا علي بن زيد بن جدعان القرشي، عن ابي نضرة، قال: سئل عمران بن حصين عن صلاة المسافر، فقال: " حججت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ركعتين، وحججت مع ابي بكر فصلى ركعتين، ومع عمر فصلى ركعتين، ومع عثمان ست سنين من خلافته او ثماني ثماني فصلى ركعتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ، فَقَالَ: " حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُثْمَانَ سِتَّ سِنِينَ مِنْ خِلَافَتِهِ أَوْ ثَمَانِيَ ثَمَانِي فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی الله عنہ سے مسافر کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور میں نے ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عمر رضی الله عنہ کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں، اور عثمان رضی الله عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یا آٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دو ہی رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق، وأخرج أبوداود (الصلاة 279/رقم1229) بہذا السند أیضا لکنہ بسیاق آخر (تحفة الأشراف: 10862) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله
حدیث نمبر: 546
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن محمد بن المنكدر، وإبراهيم بن ميسرة، سمعا انس بن مالك، قال: صلينا مع النبي صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة اربعا وبذي الحليفة العصر ركعتين. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، سمعا أنس بن مالك، قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 5 (1089)، والحج 24 (1556)، و25 (1548)، و119 (1714)، والجہاد 104 (2951)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (690)، سنن ابی داود/ الصلاة 271 (1202)، والحج 21 (1773)، سنن النسائی/الصلاة 11 (470)، و17 (478)، (تحفة الأشراف: 1573166)، مسند احمد (3/110، 111، 177، 186، 237، 268، 378)، سنن الدارمی/الصلاة 179 (1548) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی، جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔
۲؎: ذوالحلیفہ: مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلو میٹر پر واقع ہے، یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1085)
حدیث نمبر: 547
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا هشيم، عن منصور بن زاذان، عن ابن سيرين، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " خرج من المدينة إلى مكة لا يخاف إلا الله رب العالمين فصلى ركعتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " خَرَجَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔ (اس کے باوجود) آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1436)، (تحفة الأشراف: 6436)، مسند احمد (1/215، 236، 245، 262) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفر میں قصر خوف کی وجہ سے نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، سفر خواہ کیسا بھی پرامن ہو اس میں قصر رخصت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (3 / 6)
40. باب مَا جَاءَ فِي كَمْ تُقْصَرُ الصَّلاَةُ
40. باب: کتنے دنوں تک قصر کرنا درست ہے؟
حدیث نمبر: 548
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يحيى بن ابي إسحاق الحضرمي، حدثنا انس بن مالك، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين. قال: قلت لانس: كم اقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة؟ قال: عشرا. قال: وفي الباب عن ابن عباس، وجابر. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح. وقد روي عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه " اقام في بعض اسفاره تسع عشرة يصلي ركعتين " قال ابن عباس: فنحن إذا اقمنا ما بيننا وبين تسع عشرة صلينا ركعتين، وإن زدنا على ذلك اتممنا الصلاة، وروي عن علي، انه قال: من اقام عشرة ايام اتم الصلاة. وروي عن ابن عمر، انه قال: من اقام خمسة عشر يوما اتم الصلاة، وقد روي عنه ثنتي عشرة، وروي عن سعيد بن المسيب، انه قال: إذا اقام اربعا صلى اربعا، وروى عنه ذلك قتادة، وعطاء الخراساني، وروى عنه داود بن ابي هند خلاف هذا، واختلف اهل العلم بعد في ذلك، فاما سفيان الثوري واهل الكوفة فذهبوا إلى توقيت خمس عشرة، وقالوا: إذا اجمع على إقامة خمس عشرة اتم الصلاة. وقال الاوزاعي: إذا اجمع على إقامة ثنتي عشرة اتم الصلاة، وقال مالك بن انس، والشافعي، واحمد: إذا اجمع على إقامة اربعة اتم الصلاة. واما إسحاق فراى اقوى المذاهب فيه حديث ابن عباس، قال: لانه روى عن النبي صلى الله عليه وسلم، ثم تاوله بعد النبي صلى الله عليه وسلم إذا اجمع على إقامة تسع عشرة اتم الصلاة، ثم اجمع اهل العلم على ان المسافر يقصر ما لم يجمع إقامة وإن اتى عليه سنون.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاق الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ. قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: كَمْ أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ؟ قَالَ: عَشْرًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ " أَقَامَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ تِسْعَ عَشْرَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ " قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَنَحْنُ إِذَا أَقَمْنَا مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ، وَإِنْ زِدْنَا عَلَى ذَلِكَ أَتْمَمْنَا الصَّلَاةَ، وَرُوِي عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَقَامَ عَشْرَةَ أَيَّامٍ أَتَمَّ الصَّلَاةَ. وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَقَامَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَتَمَّ الصَّلَاةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ، وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: إِذَا أَقَامَ أَرْبَعًا صَلَّى أَرْبَعًا، وَرَوَى عَنْهُ ذَلِكَ قَتَادَةُ، وَعَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، وَرَوَى عَنْهُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ خِلَافَ هَذَا، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدُ فِي ذَلِكَ، فَأَمَّا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ فَذَهَبُوا إِلَى تَوْقِيتِ خَمْسَ عَشْرَةَ، وَقَالُوا: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ. وقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ أَرْبَعَةٍ أَتَمَّ الصَّلَاةَ. وَأَمَّا إِسْحَاق فَرَأَى أَقْوَى الْمَذَاهِبِ فِيهِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لِأَنَّهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَأَوَّلَهُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ تِسْعَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمُسَافِرَ يَقْصُرُ مَا لَمْ يُجْمِعْ إِقَامَةً وَإِنْ أَتَى عَلَيْهِ سِنُونَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کتنے دن رہے، انہوں نے کہا دس دن ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور ابن عباس رضی الله عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے سفر میں انیس دن ٹھہرے اور دو رکعتیں ادا کرتے رہے۔ ابن عباس کہتے ہیں، چنانچہ جب ہم انیس دن یا اس سے کم ٹھہرتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرتے تو پوری پڑھتے،
۴- علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو دس دن ٹھہرے وہ پوری نماز پڑھے،
۵- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو پندرہ دن قیام کرے وہ پوری نماز پڑھے۔ اور ان سے بارہ دن کا قول بھی مروی ہے،
۶- سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب چار دن قیام کرے تو چار رکعت پڑھے۔ ان سے اسے قتادہ اور عطا خراسانی نے روایت کیا ہے، اور داود بن ابی ہند نے ان سے اس کے خلاف روایت کیا ہے،
۷- اس کے بعد اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہو گیا۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ پندرہ دن کی تحدید کی طرف گئے اور ان لوگوں نے کہا کہ جب وہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کر لے تو پوری نماز پڑھے،
۸- اوزاعی کہتے ہیں: جب وہ بارہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے،
۹- مالک بن انس، شافعی، اور احمد کہتے ہیں: جب چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز پوری پڑھے،
۱۰- اور اسحاق بن راہویہ کی رائے ہے کہ سب سے قوی مذہب ابن عباس کی حدیث ہے، اس لیے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، پھر یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اس پر عمل پیرا رہے جب وہ انیس دن ٹھہرتے تو نماز پوری پڑھتے۔ پھر اہل علم کا اجماع اس بات پر ہو گیا کہ مسافر جب تک قیام کی نیت نہ کرے وہ قصر کرتا رہے، اگرچہ اس پر کئی سال گزر جائیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 1 (1081)، والمغازي 52 (4299)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (693)، سنن ابی داود/ الصلاة 279 (1233)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1439)، و4 (1453)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1077)، (تحفة الأشراف: 1652)، مسند احمد (3/181، 190)، سنن الدارمی/الصلاة 180، 1550) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حجۃ الوداع کے موقع کی بات ہے، آپ اس موقع سے ۴ ذی الحجہ کی صبح مکہ میں داخل ہوئے، ۸ کو منی کو نکل گئے، پھر ۱۴ کو طواف وداع کے بعد مدینہ روانہ ہوئے یہ کل دس دن ہوئے، مگر ان دس دنوں میں مستقل طور پر آپ صرف ۴ دن مکہ میں رہے، باقی دنوں میں ادھر ادھر منتقل ہی ہوتے رہے، اس لیے امام شافعی وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے جب ۴ دنوں کی اقامت کی نیت کر لے تب پوری نماز پڑھے۔
۲؎: حجۃ الوداع، فتح مکہ، یا جنگ پرموک میں یہی ہوا تھا، اس لیے آپ نے ۱۷، ۱۸ دنوں یا دس دنوں تک قصر کیا، اس لیے امام شافعی وغیرہ کا خیال ہی راجح ہے کہ ۴ دنوں سے زیادہ اقامت کی اگر نیت بن جائے تو قصر نہ کرے، مہاجرین کو عمرہ میں تین دنوں سے زیادہ نہ ٹھہرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ وہ چوتھے دن مقیم ہو جاتے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1077)
حدیث نمبر: 549
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري، حدثنا ابو معاوية، عن عاصم الاحول، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " سافر رسول الله صلى الله عليه وسلم سفرا فصلى تسعة عشر يوما ركعتين ركعتين ". قال ابن عباس: فنحن نصلي فيما بيننا وبين تسع عشرة ركعتين ركعتين، فإذا اقمنا اكثر من ذلك صلينا اربعا. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفَرًا فَصَلَّى تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَنَحْنُ نُصَلِّي فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا أَقَمْنَا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ صَلَّيْنَا أَرْبَعًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا، تو آپ نے انیس دن تک دو دو رکعتیں پڑھیں ۱؎، ابن عباس کہتے ہیں: تو ہم لوگ بھی انیس یا اس سے کم دنوں (کے سفر) میں دو دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور جب ہم اس سے زیادہ قیام کرتے تو چار رکعت پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 1 (1080)، والمغازی 52 (4298)، سنن ابی داود/ الصلاة 279 (1230)، (بلفظ ”سبعة عشر“ وشاذ)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1075)، (تحفة الأشراف: 6134) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے، اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کتنے دن قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بخاری کی روایت میں انیس دن کا ذکر ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں اٹھارہ اور دوسری میں سترہ دن کا ذکر ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اور خروج کے دنوں کو شمار نہیں کیا اس نے سترہ کی روایت کی ہے، جس نے دخول کا شمار کیا خروج کا نہیں یا خروج کا شمار کیا اور دخول کا نہیں اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے، رہی پندرہ دن والی روایت تو یہ شاذ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ۱۷ دن پھر اس میں سے دخول اور خروج کو خارج کر کے ۱۵ دن کی روایت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1075)
41. باب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
41. باب: سفر میں نفل پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 550
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث بن سعد، عن صفوان بن سليم، عن ابي بسرة الغفاري، عن البراء بن عازب، قال: " صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانية عشر شهرا فما رايته ترك الركعتين إذا زاغت الشمس قبل الظهر ". قال: وفي الباب عن ابن عمر. قال ابو عيسى: حديث البراء حديث غريب، قال: وسالت محمدا عنه فلم يعرفه إلا من حديث الليث بن سعد، ولم يعرف اسم ابي بسرة الغفاري ورآه حسنا، وروي عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " لا يتطوع في السفر قبل الصلاة ولا بعدها " وروي عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان " يتطوع في السفر " ثم اختلف اهل العلم بعد النبي صلى الله عليه وسلم، فراى بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ان يتطوع الرجل في السفر، وبه يقول: احمد، وإسحاق، ولم تر طائفة من اهل العلم ان يصلى قبلها ولا بعدها، ومعنى من لم يتطوع في السفر قبول الرخصة ومن تطوع فله في ذلك فضل كثير، وهو قول اكثر اهل العلم يختارون التطوع في السفر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرَا فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَرَآهُ حَسَنًا، وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " لَا يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا " وَرُوِيَ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ " يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ " ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَى بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَطَوَّعَ الرَّجُلُ فِي السَّفَرِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَلَمْ تَرَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلَّى قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، وَمَعْنَى مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ قَبُولُ الرُّخْصَةِ وَمَنْ تَطَوَّعَ فَلَهُ فِي ذَلِكَ فَضْلٌ كَثِيرٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔ لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- براء رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف لیث بن سعد ہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اسے حسن جانا ۱؎،
۳- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۴- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں نہ نماز سے پہلے نفل پڑھتے تھے اور نہ اس کے بعد ۲؎،
۵- اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے ۳؎،
۶- پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اہل علم میں اختلاف ہو گیا، بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۷- اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ نماز سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ نماز کے بعد۔ سفر میں جو لوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کا مقصود رخصت کو قبول کرنا ہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفر میں نفل پڑھنے کو پسند کرتے ہیں ۴؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 276 (1222) (تحفة الأشراف: 1924) (ضعیف) (اس کے راوی ”ابوبُسرہ الغفاری“ لین الحدیث ہیں)»

وضاحت:
۱؎: دیگر سارے لوگوں نے ان کو مجہول قرار دیا ہے، اور مجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
۲؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔
۳؎: اس بابت سب سے صحیح اور واضح حدیث ابن عمر کی ہے، جو رقم ۵۴۴ پر گزری، ابن عمر رضی الله عنہما کی دلیل نقلی بھی ہے اور عقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے، دوسرے اگر سنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا، اگر سنت راتبہ پڑھنی ہو تو فرائض میں کمی کا کیا معنی؟ رہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔
۴؎: عام نوافل پڑھنے کے تو سب قائل ہیں مگر سنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزور ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (222) // عندنا برقم (263 / 1222) //
حدیث نمبر: 551
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا حفص بن غياث، عن الحجاج، عن عطية، عن ابن عمر، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم الظهر في السفر ركعتين وبعدها ركعتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد رواه ابن ابي ليلى، عن عطية، ونافع، عن ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعںیی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابن ابی لیلیٰ نے یہ حدیث عطیہ اور نافع سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7336) (ضعیف الإسناد، منکر المتن، لمخالفة حدیث رقم: 544) (اس کے راوی ”عطیہ عوفی“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد - منكر المتن لمخالفته لحديثه المتقدم (542) وغيره //
حدیث نمبر: 552
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد المحاربي يعني الكوفي، حدثنا علي بن هاشم، عن ابن ابي ليلى، عن عطية، ونافع، عن ابن عمر، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر والسفر، فصليت معه في الحضر الظهر اربعا وبعدها ركعتين، وصليت معه في السفر الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين والعصر ركعتين ولم يصل بعدها شيئا، والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلاث ركعات لا تنقص في الحضر ولا في السفر هي وتر النهار وبعدها ركعتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن. سمعت محمدا، يقول: ما روى ابن ابي ليلى حديثا اعجب إلي من هذا، ولا اروي عنه شيئا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ يَعْنِي الْكُوفِيَّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا، وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَا تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ هِيَ وِتْرُ النَّهَارِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: مَا رَوَى ابْنُ أَبِي لَيْلَى حَدِيثًا أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْ هَذَا، وَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفر دونوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور سفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں، اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر و حضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔ نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں، یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابن ابی لیلیٰ نے کوئی ایسی حدیث روایت نہیں کی جو میرے نزدیک اس سے زیادہ تعجب خیز ہو، میں ان کی کوئی روایت نہیں لیتا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7337 و8428) (ضعیف الإسناد، منکر المتن) (اس کے راوی ”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ“ ضعیف ہیں، اور یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، منكر المتن انظر ما قبله (551)
42. باب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ
42. باب: دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 553
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث بن سعد، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الطفيل هو عامر بن واثلة، عن معاذ بن جبل، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس اخر الظهر إلى ان يجمعها إلى العصر فيصليهما جميعا، وإذا ارتحل بعد زيغ الشمس عجل العصر إلى الظهر وصلى الظهر والعصر جميعا ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب اخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب ". قال: وفي الباب عن علي، وابن عمر، وانس، وعبد الله بن عمرو، وعائشة، وابن عباس، واسامة بن زيد، وجابر بن عبد الله. قال ابو عيسى: والصحيح عن اسامة، وروى علي بن المديني، عن احمد بن حنبل، عن قتيبة هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ هُوَ عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ زَيْغِ الشَّمْسِ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى أَنْ يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَهُمَا جَمِيعًا، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ عَجَّلَ الْعَصْرَ إِلَى الظُّهْرِ وَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ، وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ، وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلَّاهَا مَعَ الْمَغْرِبِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالصَّحِيحُ عَنْ أُسَامَةَ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، عَنْ قُتَيْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھتے، اور جب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کر کے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے۔ اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے، اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشاء کو پہلے کر کے مغرب کے ساتھ ملا کر پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اور صحیح یہ ہے کہ اسامہ سے مروی ہے،
۲- نیز یہ حدیث علی بن مدینی نے احمد بن حنبل سے اور احمد بن حنبل نے قتیبہ سے روایت کی ہے ۱؎،
۳- اس باب میں علی، ابن عمر، انس، عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابن عباس، اسامہ بن زید اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (706)، سنن ابی داود/ الصلاة 274 (1206، 1220)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 74 (1070)، (تحفة الأشراف: 11320)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 1 (2)، مسند احمد (5/229، 230، 233، 236، 237، 241)، سنن الدارمی/الصلاة 182 (1556) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جو آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1106)، الإرواء (578)، التعليقات الجياد

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.