الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
زکوٰۃ کے مسائل
10. اس آدمی کو عطیہ دینا جس کے ایمان میں خطرہ ہو۔
حدیث نمبر: 511
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کیا یہ یا رسول اللہ! فلاں کو دیجئیے کہ وہ مومن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا وہ مسلمان ہے۔ میں نے تین بار یہی کہا کہ وہ مومن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی فرمایا کہ یا مسلمان ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک شخص کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرے کو اس سے زیادہ چاہتا ہوں اس ڈر سے (اس شخص کو دیتا ہوں) کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں نہ گرا دے۔
11. جن کے دل اسلام کی طرف راغب ہیں، ان کو دینا اور مضبوط ایمان والوں کو چھوڑ دینا۔
حدیث نمبر: 512
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حنین کا دن ہوا تو (قبیلہ) ہوازن اور غطفان اور دوسرے قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ (جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے) بھی، جن کو طلقاء کہتے ہیں۔ پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے گئے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آوازیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا، پہلے دائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہ انصار! تو انصار نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہ انصار! تو انہوں نے پھر جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن ایک سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں (مقام بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت انبیاء کے واسطے خاص ہے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ، اللہ کا بندہ ہونا اور اس کا رسول ہونا کتنی بڑی نعمت ہے) اور رسول ہوں۔ پس مشرک شکست کھا گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مہاجرین اور مکہ کے لوگوں میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ مشکل گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروں کو دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ہوئی تو آپ نے انہیں ایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا کہ اے گروہ انصار! یہ کیسی بات ہے جو مجھے تم لوگوں سے پہنچی ہے؟ تب وہ چپ ہو رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے گروہ انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں اور تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟ انہوں نے کہا کہ بیشک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم راضی ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں تو میں انصار کی گھاٹی کی راہ لوں گا۔ ہشام (سیدنا انس کے شاگرد) نے کہا کہ میں نے کہا کہ اے ابوحمزہ! تم اس وقت حاضر تھے؟ تو انہوں نے کہ کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟
حدیث نمبر: 513
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان، صفوان، عیینہ اور اقرع بن حابس کو سو سو اونٹ دئیے اور عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس کو کچھ کم دئیے تو عباس رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے: (ترجمہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عیینہ اور اقرع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے (یعنی مجھ سے) کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوں سے کچھ کم نہیں ہوں۔ اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہو گی۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سو اونٹ پورے کر دئیے۔
حدیث نمبر: 514
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے کچھ سونا ایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو (معلوم ہوا کہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھاور نہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی) سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، اور کہا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے (راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔
12. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت کے لئے صدقہ حلال نہیں۔
حدیث نمبر: 515
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) نے ایک صدقہ کی کھجور لیکر اپنے منہ میں ڈالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھو، تھو! اس کو پھینک دے کیا تو نہیں جانتا کہ ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔
13. صدقات کی وصولی پر آل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقرر کرنے کی کراہت۔
حدیث نمبر: 516
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث کہتے ہیں کہ ربیعہ رضی اللہ عنہ بن حارث اور عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب دونوں جمع ہوئے اور کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان دونوں لڑکوں (یعنی مجھے اور فضل بن عباس) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیں، اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو زکوٰۃ پر تحصیلدار بنا دیں۔ اور یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور ان کو کچھ مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے۔ غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بھی آ کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے تو ان دونوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں مت بھیجو، کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے۔ (اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں کو حرام ہے) پس ربیعہ بن حارث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم تم ہمارے ساتھ حسد سے ایسا کرتے ہو۔ اور اللہ کی قسم کہ تم نے جو شرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا ہم تو تم سے کچھ حسد نہیں کرتے۔ تب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان دونوں کو بھیج دو۔ تو ہم دونوں گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ لیٹ رہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جا پہنچے اور حجرے کے پاس کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور ملاعبت تھی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور فرمایا کہ ظاہر کرو جو تم دل میں چھپا کر لائے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی، اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تھے۔ پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم بیان کرو۔ غرض ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور قرابت داروں سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں، اور ہم نکاح (کی عمر) کو پہنچ گئے ہیں۔ پھر ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں ان زکوٰتوں پر عامل بنا دیں کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیں اور ہمیں بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے۔ (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں، اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰۃ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لائق نہیں یہ تو لوگوں کا میل ہے۔ (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے) تم میرے پاس محمیہ رضی اللہ عنہ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی کا نام تھا) جو خمس پر مقرر تھے اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی۔ اور نوفل بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے، جو راوی حدیث ہیں) بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی میرے نکاح میں دے دی۔ اور محمیہ سے فرمایا کہ ان دونوں کا مہر خمس سے اتنا اتنا ادا کر دو۔ زہری نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ عبداللہ بن عبداللہ نے مہر کی تعداد بیان نہیں کی۔
14. جو صدقہ کے مال سے بطور ہدیہ آل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجا جائے، وہ مباح ہے۔
حدیث نمبر: 517
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ گوشت ہدیہ دیا جو کہ اس کو کسی نے صدقہ میں دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لیا اور فرمایا کہ ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔
حدیث نمبر: 518
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ کی ایک بکری بھیجی تو میں نے اس میں سے تھوڑا گوشت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھیج دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں مگر نسیبہ (یعنی ام عطیہ) نے ہمارے پاس اس بکری میں سے گوشت بھیجا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس بطور صدقہ کے بھیجی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنی جگہ پہنچ گئی۔ (یعنی ان کے لئے صدقہ تھا اب ہمارے لئے ہدیہ ہے)۔
15. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہدیہ قبول کرنا اور صدقہ واپس کر دینا۔
حدیث نمبر: 519
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کھانا آتا تو پوچھ لیتے، اگر ہدیہ ہوتا تو کھاتے اور اگر صدقہ ہوتا تو نہ کھاتے۔

Previous    1    2    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.