الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
21. حدیث نمبر 28
حدیث نمبر: 28
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
28 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا يحيي بن سعيد، اخبرني محمد بن إبراهيم التيمي انه سمع علقمة بن وقاص الليثي يقول: سمعت عمر بن الخطاب علي المنبر يخبر بذلك عن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: «إنما الاعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوي، فمن كانت هجرته إلي الله ورسوله، فهجرته إلي الله ورسوله، ومن كانت هجرته إلي دنيا يصيبها او إلي امراة ينكحها، فهجرته إلي ما هاجر إليه» 28 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَي الْمِنْبَرِ يُخْبِرُ بِذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَي، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَي اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَي اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَي دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَي امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَي مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
28- علقمہ بن وقاص لیثی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشا فرماتے ہوئے سنا ہے: اعمال (کی جزا) کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی جزا ملے گی جو اس نے نیت کی ہوگی، تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شمار ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی تاکہ وہ اسے حاصل کرلے یا کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے ہوگی، تو اس کی ہجرت اسی طرف شمار ہوگی، جس کی طرف نیت کرکے اس نے ہجرت کی تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البخاري 1، 2529، والبيهقي: 341/7، والقضاعي فى مسنده الشهاب: 1172، ومسلم: 1907، وابوداود: 2201»
22. حدیث نمبر 29
حدیث نمبر: 29
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
29 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا يحيي بن صبيح الخراساني، عن قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري، عن عمر بن الخطاب انه قال علي المنبر:" رايت في المنام كان ديكا نقرني ثلاث مرات او نقرني ثلاث نقرات فقلت: اعجمي وإني قد جعلت هذا الامر بعدي إلي هؤلاء الستة الذين قبض رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو عنهم راض عثمان، وعلي، والزبير، وطلحة، وعبد الرحمن بن عوف، وسعد بن ابي وقاص فمن استخلف فهو الخليفة"29 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا يَحْيَي بْنُ صَبِيحٍ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ عَلَي الْمِنْبَرِ:" رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَوْ نَقَرَنِي ثَلَاثَ نَقَرَاتٍ فَقُلْتُ: أَعْجَمِيٌّ وَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُ هَذَا الْأَمْرَ بَعْدِي إِلَي هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ عُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَطَلْحَةُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فَمَنِ اسْتُخْلِفَ فَهُوَ الْخَلِيفَةُ"
29- معدان بن طلحہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: انہوں نے منبر پر یہ بات ارشاد فرمائی: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک مرغ نے تین مرتبہ ٹھونگا مارا ہے (یہاں روایت کے الفاظ میں راوی کو شک ہے) میں نے سوچا: کوئی عجمی (مجھے شہید کردے گا) میں اپنے بعد (نئے خلیفہ کے انتخاب) کا معاملہ ان چھ افراد کو سونپ کر چارہا ہوں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات سے راضی تھے یہ حضرات عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم ہیں، تو جس شخص کو خلیفہ منتخب کرلیا جائے وہی خلیفہ شمار ہوگا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، أخرجه مسلم 567، وفي مسنده الموصلي: 184، 205، 237، 256، وفي صحيح ابن حبان: 2091» ‏‏‏‏
23. حدیث نمبر 30
حدیث نمبر: 30
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
30 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عاصم بن كليب قال: اخبرني ابي انه سمع ابن عباس يقول «كان عمر بن الخطاب إذا صلي صلاة جلس للناس فمن كانت له حاجة كلمه، وإن لم يكن لاحد حاجة قام فدخل» قال:" فصلي صلوات لا يجلس للناس فيهن، قال ابن عباس: فحضرت الباب فقلت: يا يرفا ابامير المؤمنين شكاة؟ فقال: ما بامير المؤمنين من شكوي فجلست، فجاء عثمان بن عفان فجلس فخرج يرفا فقال: قم يا ابن عفان، قم يا ابن عباس فدخلنا علي عمر" فإذا بين يديه صبر من مال علي كل صبرة منها كنف فقال عمر:" إني نظرت في اهل المدينة وجدتكما من اكثر اهلها عشيرة، فخذا هذا المال فاقتسماه، فما كان من فضل فردا، فاما عثمان فحثا واما انا فجثوت لركبتي، وقلت: وإن كان نقصان رددت علينا، فقال عمر «نشنشة من اخشن - يعني حجرا من جبل - اما كان هذا عند الله إذ محمد واصحابه ياكلون القد» فقلت: بلي والله لقد كان هذا عند الله ومحمد صلي الله عليه وسلم حي، ولو عليه فتح لصنع فيه غير الذي تصنع، قال: فغضب عمر وقال: «او صنع ماذا؟» قلت: إذا لاكل واطعمنا، قال: فنشج عمر حتي اختلفت اضلاعه، ثم قال «وددت اني خرجت منها كفافا لا لي ولا علي» 30 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ «كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا صَلَّي صَلَاةً جَلَسَ لِلنَّاسِ فَمَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ كَلَّمَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ حَاجَةٌ قَامَ فَدَخَلَ» قَالَ:" فَصَلَّي صَلَوَاتٍ لَا يَجْلِسُ لِلنَّاسِ فِيهِنَّ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَحَضَرْتُ الْبَابَ فَقُلْتُ: يَا يَرْفَأُ أَبِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ شَكَاةٌ؟ فَقَالَ: مَا بِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ شَكْوًي فَجَلَسْتُ، فَجَاءَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَجَلَسَ فَخَرَجَ يَرْفَأُ فَقَالَ: قُمْ يَا ابْنَ عَفَّانَ، قُمْ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ فَدَخَلْنَا عَلَي عُمَرَ" فَإِذَا بَيْنَ يَدَيْهِ صُبَرٌ مِنْ مَالٍ عَلَي كُلِّ صُبْرَةٍ مِنْهَا كِنْفٌ فَقَالَ عُمَرُ:" إِنِّي نَظَرْتُ فِي أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَجَدْتُكُمَا مِنْ أَكْثَرِ أَهْلِهَا عَشِيرَةً، فَخُذَا هَذَا الْمَالَ فَاقْتَسِمَاهُ، فَمَا كَانَ مِنْ فَضْلٍ فَرُدَّا، فَأَمَّا عُثْمَانُ فَحَثَا وَأَمَّا أَنَا فَجَثَوْتُ لِرُكْبَتَيَّ، وَقُلْتُ: وَإِنْ كَانَ نُقْصَانٌ رَدَدْتَ عَلَيْنَا، فَقَالَ عُمَرُ «نَشْنَشَةٌ مِنْ أَخْشَنَ - يَعْنِي حَجَرًا مِنْ جَبَلٍ - أَمَا كَانَ هَذَا عِنْدَ اللَّهِ إِذْ مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُهُ يَأْكُلُونَ الْقَدَّ» فَقُلْتُ: بَلَي وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ هَذَا عِنْدَ اللَّهِ وَمُحَمَّدٌ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ، وَلَوْ عَلَيْهِ فُتِحَ لَصَنَعَ فِيهِ غَيْرَ الَّذِي تَصْنَعُ، قَالَ: فَغَضِبَ عُمَرُ وَقَالَ: «أَوْ صَنَعَ مَاذَا؟» قُلْتُ: إِذًا لَأَكَلَ وَأَطْعَمَنَا، قَالَ: فَنَشَجَ عُمَرُ حَتَّي اخْتَلَفَتْ أَضْلَاعُهُ، ثُمَّ قَالَ «وَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْهَا كَفَافًا لَا لِيَ وَلَا عَلَيَّ»
30- سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کچھ نمازیں ادا کیں لیکن وہ ان کے بعد لوگوں سے ملاقات کے لئے نہیں بیٹھے۔ سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ان کے دروازے پر آیا میں نے کہا: اے یرفا! (یہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خادم تھا) کیا امیر المؤمنین بیمار ہیں؟ ااس نے جواب دیا: امیر المؤمنین بیمار تو نہیں ہیں۔
(سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں وہاں بیٹھ گیا اسی دوران سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وہاں آگئے، تو وہ بھی وہاں بیٹھ گئے۔ یرفا باہر آیا، تو بولا: اے ابن عفان! اے ابن عباس! آپ آئیے تو ہم لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ان کے سامنے مال کے کچھ ڈھیر رکھے ہوئے تھے اور ہر ڈھیر کے ساتھ برتن بھی رکھا ہوا تھا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: میں نے اہل مدینہ کا جائزہ کیا تو میں نے تم دونوں کو ایسا پایا، جن کے خاندانوں کے زیادہ افراد یہاں موجود ہیں، تو آپ لوگ اس مال کو حاصل کرکے تقسیم کریں جو بچ جائے وہ واپس کردیں، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ ملا کر جو کچھ آیا تھا وہ لے لیا لیکن میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا میں نے کہا: اگر یہ کم ہوا تو آپ ہمیں اور دیں گے؟
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: سخت ترین چیز کا ٹکڑا ہے۔ (راوی کہتے ہیں:) اس سے مراد یہ ہے کہ پہاڑ کا پتھر ہے (یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے والد کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے ان کی تعریف کی کہ یہ اپنی جرأت میں اور صحیح رائے پیش کرنے میں اپنے والد کی مانند ہیں)۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بولے: کیا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس چیز کی کوئی قدر نہیں ہوگی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب «كِدْ» کھایا کرتے۔
میں نے عرض کی: جی ہاں! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ بات قابل قدر ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات نصیب ہوتیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اس سے مختلف ہوتا جو آپ کا ہے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے اور بولے: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کرنا تھا، تو میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی کھانا تھا، اور ہمیں بھی کھانے دینا تھا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے، یہاں تک کہ ان کی پسلیاں حرکت کرنے لگیں، پھر وہ بولے: میری یہ خواہش ہے کہ میں اس معاملےسے برابری کی بنیاد پر نکل جاؤں نہ مجھے کچھ ملے نہ میرے ذمہ کچھ لازم ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وهو موقوف، وأخرجه البزار فى البحر الزخار 326/1 برقم 209 وفي كشف الأستار: 3664، وابن سعد فى الطبقات: 207/1/3»
24. حدیث نمبر 31
حدیث نمبر: 31
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
31 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن مسعر وغيره، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب قال: قال رجل من اليهود لعمر بن الخطاب: لو علينا نزلت هذه الآية ﴿ اليوم اكملت لكم دينكم، واتممت عليكم نعمتي، ورضيت لكم الإسلام دينا﴾ لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، فقال عمر: «إني لاعلم اي يوم نزلت هذه الآية نزلت يوم عرفة وفي يوم جمعة» 31 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ وَغَيْرِهِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: لَوْ عَلَيْنَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ، وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي، وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، فَقَالَ عُمَرُ: «إِنِّي لَأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ نَزَلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ وَفِي يَوْمِ جُمُعَةٍ»
31- طارق بن شہاب کہتے ہیں: یہودیوں سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر یہ آیت ہم لوگوں پر نازل ہوئی ہوتی۔
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردیا اور تمہارے لیے اسلام کیے دین ہونے سے راضی ہوگیا۔(5-المائدة:13) تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دیتے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ بات جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی؟ یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور جمعہ کے دن میں نازل ہوئی تھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجه البخاري 7268، والترمذي 3046، ومسلم: 3017»
25. حدیث نمبر 32
حدیث نمبر: 32
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
32 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن ابن ابي لبيد، عن ابن سليمان بن يسار، عن ابيه، عن عمر بن الخطاب انه خطب للناس بالجابية فقال: قام فينا رسول الله صلي الله عليه وسلم كقيامي فيكم فقال: «اكرموا اصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يظهر الكذب حتي يشهد الرجل ولم يستشهد، ويحلف ولم يستحلف، الا لا يخلون رجل بامراة فإن ثالثهما الشيطان، الا ومن سرته بحبحة الجنة فليلزم الجماعة فإن الشيطان مع الفذ وهو من الاثنين ابعد، الا ومن سرته حسنته وساءته سيئته فهو مؤمن» 32 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنِ ابْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ خَطَبَ لِلنَّاسِ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَقِيَامِي فِيِكُمْ فَقَالَ: «أَكْرِمُوا أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْكَذِبُ حَتَّي يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَلَمْ يُسْتَشْهَدْ، وَيَحْلِفُ وَلَمْ يُسْتَحْلَفْ، أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، أَلَا وَمَنْ سَرَّتْهُ بَحْبَحَةُ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْفَذِّ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، أَلَا وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ»
32- سلیمان بن یسار کے صاحبزادے اپنے والد کے حوالے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں: آپ نے جابیہ کے مقام پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے، بالکل اس طرح جس طرح میں تمہارے درمیان کھڑا ہوا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ساتھیوں کی عزت افزائی کرو! پھر ان کے بعد والوں کی پھر ان کے بعد والوں کی، پھر جھوٹ ظاہر ہوجائےگا، یہاں تک کہ آدمی گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی مانگی نہیں گئی ہوگی اور وہ قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم نہیں لی گئی ہوگی۔
خبرادار! جب بھی کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہا ہو، تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا، خبردار! جو شخص جنت میں رہائش اختیار کرنا چاہتا ہے (وہ مسلمانوں کی) جماعت کے ساتھ رہے، کیونکہ شیطان تنہا شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دو آدمیوں سے زیادہ دور ہوتا ہے۔ خبردار! جس شخص کو اس کی نیکی خوشی کرے اور اس کی برائی اس کو رنجیدہ کرے وہ مؤمن ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه فى المسنده الموصلي: 141، 142، 143، 201، وفي صحيح ابن حبان: 4576، 5586»

Previous    1    2    3    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.