الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
11. حدیث نمبر 18
حدیث نمبر: 18
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
18 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عبدة بن ابي لبابة حفظناه منه غير مرة قال: سمعت ابا وائل شقيق بن سلمة يقول كثيرا ما يقول: ذهبت انا ومسروق إلي الصبي بن معبد نستذكره هذا الحديث فقال الصبي: كنت رجلا نصرانيا فاسلمت فخرجت اريد الحج فلما كنت بالقادسية اهللت بالحج والعمرة جميعا، فسمعني سلمان بن ربيعة وزيد بن صوحان فقالا: لهذا اضل من بعير اهله، فكانما حمل علي بكلمتهما جبل، فلقيت عمر بن الخطاب فاخبرته فاقبل عليهما فلامهما ثم اقبل علي فقال: «هديت لسنة نبيك هديت لسنة نبيك» فقال سفيان: يعني انه قد جمع بين الحج والعمرة مع النبي صلي الله عليه وسلم واجازه وليس انه فعله هو18 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ حَفِظْنَاهُ مِنْهُ غَيْرَ مَرَّةٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ يَقُولُ كَثِيرًا مَا يَقُولُ: ذَهَبْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ إِلَي الصُّبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ نَسْتَذْكِرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ الصُّبَيُّ: كُنْتُ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ فَخَرَجْتُ أُرِيدُ الْحَجَّ فَلَمَّا كُنْتُ بِالْقَادِسِيَّةِ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا، فَسَمِعَنِي سَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ فَقَالَا: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ، فَكَأَنَّمَا حُمِلَ عَلَيَّ بِكَلِمَتِهِمَا جَبَلٌ، فَلَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمَا فَلَامَهُمَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: «هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ» فَقَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي أَنَّهُ قَدْ جَمَعَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجَازَهُ وَلَيْسَ أَنَّهُ فَعَلَهُ هُوَ
ابووائل شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: میں اور مسروق، صبی بن معبد کے پاس گئے تاکہ ان سے اس حدیث کے بارے میں گفتگو کریں، تو صبی بولے: میں ایک عیسائی شخص تھا میں نے اسلام قبول کیا میں حج کرنے کے ارادے سے روانہ ہونے لگا، جب میں قادسیہ پہنچا تو وہاں میں نے حج اور عمرے دونوں کو ساتھ کرنے کا احرام باندھا (یا تلبہ پڑھا)۔
سلمان بن ربعیہ اور زید بن صوحان نے مجھے سنا، تو وہ بولے: یہ شخص اپنے گھر کے اونٹ سے زیادہ گمراہ ہے۔
ان کے ان کلمات کی وجہ سے گویا میرے اوپر پہاڑ کا وزن آ گیا، میری ملاقات جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں اس بارے میں بتایا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں کو ملامت کی پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہے۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہے۔
سفیان کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج اور عمرہ اکھٹے ادا کیے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے درست قرار دیا تھا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 3069، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3910، 3911، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2718، 2719، 2720، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3685، 3686، 3687، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1798، 1799، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2970، 2970 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8864، 8873، 8942، وأحمد فى «مسنده» برقم: 84، 171، 232، 260، والطبراني فى «الصغير» برقم: 531»
12. حدیث نمبر 19
حدیث نمبر: 19
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
19 - حدثنا الحميدي، ثنا الوليد بن مسلم، وبشر بن بكر قالا: ثنا الاوزاعي قال: ثني يحيي بن ابي كثير، ثني عكرمة مولي ابن عباس انه سمع ابن عباس يقول: سمعت عمر بن الخطاب يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول وهو بوادي العقيق:" اتاني الليلة آت من ربي، فقال: صل في هذا الوادي المبارك وقل عمرة في حجة"19 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَبِشْرُ بْنُ بَكْرٍ قَالاَ: ثنا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ: ثني يَحْيَي بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، ثني عِكْرِمَةُ مَوْلَي ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ بِوَادِي الْعَقِيقِ:" أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حِجَّةٍ"
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشا فرماتے ہوئے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وادی عقیق میں موجود تھے۔ گزشتہ رات میرے پروردگار کا فرستادہ میرے پاس آیا اور بولا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک وادی میں نماز ادا کیجئے اور یہ کہیے عمرہ، حج میں ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ساتھ عمرہ کرنے کا بھی تلبیہ پرھئے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1534، 2337، 7343، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2617، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3790، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1800، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2976، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8936، 8937، 8938، وأحمد فى «مسنده» برقم: 163»
13. حدیث نمبر 20
حدیث نمبر: 20
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
20 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا هشام بن عروة قال: اخبرني ابي، سمعت عاصم بن عمر بن الخطاب يحدث عن ابيه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «إذا اقبل الليل من هاهنا، وادبر النهار من هاهنا، وغابت الشمس فقد افطر الصائم» 20 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا، وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ»
عاصم بن عمر بن خطاب اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: جب رات اس طرف سے آ جائے اور دن اس طرف سے رخصت ہو جائے اور سورج غروب ہو جائے، تو روزہ دار شخص روزہ کھول لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، أخرجه البخاري 1954، ومسلم: 1100، وفي مسنده الموصلي:257، 240، وفي صحيح ابن حبان: 3513»
14. حدیث نمبر 21
حدیث نمبر: 21
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
21 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن معمر وغيره، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، عن حويطب بن عبد العزي، عن ابن السعدي، انه قدم علي عمر بن الخطاب من الشام فقال له عمر: الم اخبر انك تلي اعمالا من اعمال المسلمين فتعطي عمالتك فلا تقبل، فقلت: اجل إن لي افراسا او لي اعبدا وانا بخير، واريد ان يكون عملي صدقة علي المسلمين، فقال عمر: فلا تفعل فإني قد اردت مثل الذي اردت وإن رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يعطيني العطاء فاقول: اعطه من هو احوج مني، وإنه اعطاني مرة مالا فقلت: اعطه من هو احوج إليه مني فقال: «يا عمر ما اتاك الله به من هذا المال عن غير مسالة ولا إشراف نفس فخذه، فتموله وتصدق به، وما لا فلا تتبعه نفسك» 21 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ وَغَيْرِهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ حُوَيْطِبِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّي، عَنِ ابْنِ السَّعْدِيِّ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَي عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مِنَ الشَّامِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَلِي أَعْمَالًا مِنْ أَعْمَالِ الْمُسْلِمِينَ فَتُعْطَي عُمَالَتَكَ فَلَا تَقْبَلُ، فَقُلْتُ: أَجَلْ إِنَّ لِي أَفْرَاسًا أَوْ لِي أَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَي الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ: فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي قَدْ أَرَدْتُ مِثْلَ الَّذِي أَرَدْتَ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ مِنِّي، وَإِنَّهُ أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ: «يَا عُمَرُ مَا أَتَاكَ اللَّهُ بِهِ مِنْ هَذَا الْمَالِ عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافِ نَفْسٍ فَخُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ»
ابن سعدی بیان کرتے ہیں: وہ شام سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: مجھے پتہ چلا ہے تم کوئی سرکاری فرائض انجام دیتے رہے ہو اور جب تمہیں تنخواہ دی جانے لگی، تو تم نے اسے قبول نہیں کیا؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، میرے پاس گھوڑے ہیں۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) میرے پاس غلام ہیں اور میں اچھی حالت میں ہوں۔ تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے لیے صدقہ ہو جائے، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو، کیونکہ جو ارادہ تم نے کیا ہے اس طرح کا ارادہ ایک مرتبہ میں نے بھی کیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھے کچھ عطا کرتے تھے، تو میں یہ گزارش کرتا تھا کہ آپ یہ اسے دے دیں جس کو مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کی: آپ یہ اسے عطا کر دیجئے جسے مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عمر! اللہ تعالیٰ مانگے بغیر اور تمہاری دلچسپی ظاہر کیے بغیر اس مال میں سے، جو کچھ تمہیں عطا کرتا ہے اسے حاصل کر لو اور اس کے ذریعے سے اپنے مال میں اضافہ کرو، اسے صدقہ کرو اور جو مال ایسا نہ ہو، تم اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگاؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 7163، صحيح ابن حبان: 3405، وصححه ابن خزيمة: 2365، وأحمد: 17/1، وعبدالرزاق فى المصنفه: 20045»
15. حدیث نمبر 22
حدیث نمبر: 22
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
22 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا عمرو بن دينار، ومعمر، عن ابن شهاب انه سمع مالك بن اوس بن الحدثان يقول: سمعت عمر بن الخطاب يقول: «إن اموال بني النضير كانت مما افاء الله علي رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب» فكانت لرسول الله صلي الله عليه وسلم خالصة، وكان رسول الله صلي الله عليه وسلم ينفق علي اهله منه نفقة سنة وما بقي جعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله" قال ابو بكر: وكان سفيان إنما قال في هذا الحديث: يحبس منه نفقة سنة22 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّهُ سَمِعَ مَالِكَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: «إِنَّ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ كَانَتْ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَي رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ» فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَي أَهْلِهِ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ وَمَا بَقِي جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَكَانَ سُفْيَانُ إِنَّمَا قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: يَحْبِسُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ
مالک بن اوس بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: بنو نضیر کی زمینیں وہ ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال فے کے طور پر عطا کی تھیں۔ مسلمانوں نے ان کے لیے گھوڑے نہیں دوڑائے تھے سواریاں نہیں دوڑائیں تھیں یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمدن میں سے اپنے اہل خانہ کے سال بھر کا خرچ حاصل کرتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا اسے گھوڑوں اور اسلحے کے لئے، یعنی اللہ کی راہ میں تیاری کے لیے استعمال کرتے تھے۔
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے اس روایت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ روک لیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجهاد 4290، ومسلم فى الجهاد والسير 1757، وأبو داود فى الخراج 2965، والترمذي فى الجهاد 1719، والنسائي فى قسم الفيء، وفي الكبرى فى التفسير 484/6 برقم 11576،ولتمام تخريجه انظر وأبو يعلى فى ”مسنده“: 2، 4، وصحيح ابن حبان 6357، 6608، وأحمد 25/1، وابن حبان فى صحيحه 6357، من طريق سفيان، بهذا الإسناد وأخرجه أحمد 25/1»
16. حدیث نمبر 23
حدیث نمبر: 23
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
23 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا ايوب السختياني، عن محمد بن سيرين، عن ابي العجفاء السلمي قال: سمعت عمر بن الخطاب يقول:" الا لا تغلوا صدق النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوي عند الله كان اولاكم او احقكم بها النبي صلي الله عليه وسلم، ما علمت رسول الله صلي الله عليه وسلم تزوج امراة من نسائه، ولا انكح ابنة من بناته علي اكثر من ثنتي عشرة اوقية، وإن احدكم اليوم ليغلي بصدقة المراة حتي تكون لها عداوة في نفسه يقول: كلفت إليك علق القربة قال: وكنت غلاما شابا فلم ادر ما علق القربة"
قال: واخري تقولونها لبعض من يقتل في مغازيكم هذه قتل فلان شهيدا، او مات فلان شهيدا، ولعله ان يكون قد اوقر دف راحلته او عجزها ذهبا، وقام يلتمس التجارة فلا تقولوا ذاكم، ولكن قولوا كما قال رسول الله صلي الله عليه وسلم، او كما قال محمد صلي الله عليه وسلم: «من قتل في سبيل الله فهو في الجنة» قال سفيان: كان ايوب ابدا يشك فيه هكذا او قال سفيان: فإن كان حماد بن زيد حدث به هكذا وإلا فلم يحفظ
23 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا أَيُّوبُ السِّخْتِيَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ:" أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوًي عِنْدَ اللَّهِ كَانَ أَوْلَاكُمْ أَوْ أَحَقُّكُمْ بِهَا النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا عَلِمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أَنْكَحَ ابْنَةً مِنْ بَنَاتِهِ عَلَي أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَإِنَّ أَحَدَكُمُ الْيَوْمَ لَيُغْلِي بِصَدَقَةِ الْمَرْأَةِ حَتَّي تَكُونَ لَهَا عَدَاوَةً فِي نَفْسِهِ يَقُولُ: كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ قَالَ: وَكُنْتُ غُلَامًا شَابَّا فَلَمْ أَدْرِ مَا عَلَقُ الْقِرْبَةِ"
قَالَ: وَأُخْرَي تَقُولُونَهَا لِبَعْضِ مَنْ يُقْتَلُ فِي مَغَازِيكُمْ هَذِهِ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا، أَوْ مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا، وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ دُفَّ رَاحِلَتِهِ أَوْ عَجُزَهَا ذَهَبًا، وَقَامَ يَلْتَمِسُ التِّجَارَةَ فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ، وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ كَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ» قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ أَيُّوبُ أَبَدًا يَشُكُّ فِيهِ هَكَذَا أَوْ قَالَ سُفْيَانُ: فَإِنْ كَانَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَ بِهِ هَكَذَا وَإِلَّا فَلَمْ يَحْفَظْ
23- ابوعجفاء سلمی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: خبردار! تم لوگ عورتوں کے مہر زیادہ مقرر نہ کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں عزت افزائی کا، یا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تقویٰ کا ذریعہ ہوتی، تو تم میں سے زیادہ لائق تم میں سے زیادہ حقدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
میرے علم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج میں سے جس خاتون کے ساتھ بھی شادی کی، یا اپنی صاحبزادیوں میں سے جس صاحبزادی کی بھی شادی کی، ان میں سے کسی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا، لیکن آج تم میں سے کوئی ایک شخص اپنی بیوی کا مہر زیادہ ادا کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل میں اس عورت کے لیے عداوت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہتا ہے: تمہاری وجہ سے مجھے پریشانی اٹھانا پڑی ہے۔
راوی کہتے ہیں: میں ایک نوجوان شخص تھا مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ علق القربہ سے کیا مراد ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: دوسری بات یہ ہے کہ تم لوگ کسی جنگ میں قتل ہوجانے والے شخص کے بارے میں یہ کہتے ہو فلاں شخص شہادت کی موت مارا گیا ہے یا فلاں شخص شہادت کی موت مرا ہے، حالانکہ ہوسکتا ہے اس نے اپنی سوری کے جانور پر بوجھ لادا ہوا ہو، یا وہ سونے اور چاندی کو لے کر تجارت کرنے جارہا ہو، تم لوگ یہ بات نہ کہو، بلکہ تم یوں کہو، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جو شخص اللہ کی راہ میں قتل ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔
سفیان کہتے ہیں: ایوب نامی راوی ہمیشہ اس روایت کے الفاظ میں اسی طرح شک کا اظہار کرتے تھے۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں: اگر حماد بن زید نے بھی اس روایت کو انہی الفاظ میں نقل کیا ہے، پھر تو ٹھیک ہے ورنہ یہ روایت محفوظ نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه في موارد الظمآن 184/4-185 برقم 1259، وصحيح ابن حبان برقم 4620» ‏‏‏‏
17. حدیث نمبر 24
حدیث نمبر: 24
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
24 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثني عبيد الله بن ابي يزيد، اخبرني ابي قال: ارسل عمر بن الخطاب إلي شيخ من بني زهرة من اهل دارنا قد ادرك الجاهلية فجئت مع الشيخ إلي عمر وهو في الحجر، فساله عمر عن ولاد من ولاد الجاهلية، فقال الشيخ: اما النطفة فمن فلان، واما الولد فعلي فراش فلان، فقال عمر صدقت «ولكن رسول الله صلي الله عليه وسلم قضي بالفراش» فلما ولي الشيخ دعاه عمر فقال" اخبرني عن بناء الكعبة فقال إن قريشا تقربت لبناء الكعبة فعجزوا واستقصروا فتركوا بعضا في الحجر فقال عمر: صدقت"24 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثني عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: أَرْسَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَي شَيْخٍ مِنْ بَنِي زُهْرَةَ مِنْ أَهْلِ دَارِنَا قَدْ أَدْرَكَ الْجَاهِلِيَّةَ فَجِئْتُ مَعَ الشَّيْخِ إِلَي عُمَرَ وَهُوَ فِي الْحِجْرِ، فَسَأَلَهُ عُمَرُ عَنْ وِلَادٍ مِنْ وِلَادِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ الشَّيْخُ: أَمَّا النُّطْفَةُ فَمِنْ فُلَانٍ، وَأَمَّا الْوَلَدُ فَعَلَي فِرَاشِ فُلَانٍ، فَقَالَ عُمَرُ صَدَقْتَ «وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَي بَالْفِرَاشِ» فَلَمَّا وَلَّي الشَّيْخُ دَعَاهُ عُمَرُ فَقَالَ" أَخْبِرْنِي عِنْ بِنَاءِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ إِنَّ قُرَيْشًا تَقَرَّبَتْ لِبِنَاءِ الْكَعْبَةِ فَعَجَزُوا وَاسْتَقْصَرُوا فَتَرَكُوا بَعْضًا فِي الْحِجْرِ فَقَالَ عُمَرُ: صَدَقْتَ"
24- عبید اللہ بن ابویزید بیان کرتے ہیں: میرے والد نے مجھے یہ بات بتائی ہے ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بنوزہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کو پیغام بھیج کر اسے بلوایا وہ ہمارے محلے میں رہتا تھا اس نے زمانہ جاہلیت پایا ہوا تھا۔ میں اس بزرگ کے ساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس وقت حطیم میں موجود تھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے زمانہ جاہلیت میں پیدا ہونے والی (ناجائز اولاد کے بارے میں) دریافت کیا، تو وہ بزرگ بولا: جہاں تک نطفے کا تعلق ہے، تو وہ فلاں شخص کا تھا جہاں تک پیدائش کا تعلق ہے، تو وہ فلاں شخص کے فراش پر ہوئی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بولے: تم نے ٹھیک کہا ہے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فراش کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ جب وہ عمر رسیدہ شخص واپس مڑگیا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے بلایا اور دریافت کیا: تم مجھے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بارے میں بتاؤ؟ اس نے بتایا: قریش خانۂ کعبہ کی تعمیر کرکے نیکی حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ اس کو بنانے سے عاجز ہوگئے، ان کے پاس (ساز و سامان) کم ہوگیا تو انہوں نے حطیم والی جگہ کا کچھ حصہ چھوڑ دیا۔ تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے سچ کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه ازرقي فى أخبار،مكة 158/1، والبيهقي فى المعرفة السنن والآثار 238/7 برقم 9920»
18. حدیث نمبر 25
حدیث نمبر: 25
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
25 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس قال: سمعت عمر بن الخطاب علي المنبر يقول: «إن الله بعث محمدا بالحق وانزل عليه الكتاب، وكان مما انزل عليه آية الرجم فرجم رسول الله صلي الله عليه وسلم ورجمنا بعده» قال: فقد سمعته من الزهري بطوله فحفظت منه اشياء وهذا مما لم احفظ منها يومئذ.25 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَي الْمِنْبَرِ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، وَكَانَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ» قَالَ: فَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ بِطُولِهِ فَحَفِظْتُ مِنْهُ أَشْيَاءَ وَهَذَا مِمَّا لَمْ أَحْفَظْ مِنْهَا يَوْمَئِذٍ.
25- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: بے شک اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ہمراہ معبوث کیا ہے اس نے ان پر کتاب نازل کی، تو ان پر جو چیز نازل ہوئی اس میں رجم سے متعلق آیت بھی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنگسار کروایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی سنگسار کروایا ہے۔
سفیان کہتے ہیں: میں نے یہ روایت طویل روایت کے طور پر زہری سے سنی تھی، اس وقت میں نے اس میں سے کچھ چیزیں یاد کرلیں لیکن یہ حصہ اس میں شامل ہے، جسے میں نے اس دن یاد نہیں کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 6829، 6830، ومسلم: 1691وابن ماجه: 2553، وعبدالرزاق برقم 13329، من طريق معمر، بهذا الإسناد، ومن طريق عبدالرزاق أخرجه أحمد 47/1، والترمذي فى الحدود 1432، وأخرجه مالك فى الحدود 8 والدارمي: 179/2، والبيهقي 212/8»
19. حدیث نمبر 26
حدیث نمبر: 26
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
26 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: اتينا الزهري في دار ابن الجواز، فقال: إن شئتم حدثتكم بعشرين حديثا، وإن شئتم حدثتكم بحديث السقيفة وكنت اصغر القوم فاشتهيت ان لا يحدث به لطوله فقال القوم: حدثنا بحديث السقيفة فحدثنا به الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، عن عمر فحفظت منه اشياء، ثم حدثني بقيته بعد ذلك معمر26 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: أَتَيْنَا الزُّهْرِيَّ فِي دَارِ ابْنِ الْجَوَازِ، فَقَالَ: إِنْ شِئْتُمْ حَدَّثْتُكُمْ بِعِشْرِينَ حَدِيثًا، وَإِنْ شِئْتُمْ حَدَّثْتُكُمْ بِحَدِيثِ السَّقِيفَةِ وَكُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ فَاشْتَهَيْتُ أَنْ لَا يُحَدِّثَ بِهِ لِطُولِهِ فَقَالَ الْقَوْمُ: حَدِّثْنَا بِحَدِيثِ السَّقِيفَةِ فَحَدَّثَنَا بِهِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ فَحَفِظْتُ مِنْهُ أَشْيَاءَ، ثُمَّ حَدَّثَنِي بَقِيَّتَهُ بَعْدَ ذَلِكَ مَعْمَرٌ
26- سفیان کہتے ہیں: ہم ابن جواز کے گھر زہری کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو وہ بولے: اگر تم لوگ چاہو تو میں تمہیں بیس حدیثیں سناتا ہوں اور اگر تم چاہو تو میں تمہیں سقیقہ سے متعلق حدیث سناتا ہوں۔ (سفیان کہتے ہیں) میں حاضرین میں سے سب سے کم سن تھا اس لیے میں اس بات کا خواہش مند تھا کہ وہ طویل حدیث نہ سنائیں لیکن حاضرین نے کہا آپ ہمیں سقیقہ سے متعلق حدیث سنائیں۔
تو انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ کے حوالے سے سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی جس میں سے کچھ چیزیں میں نے یاد کرلیں اور اس روایت کا بقیہ حصہ اس کے بعد معمر نے مجھے سنایا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وانظر حديث سابق» ‏‏‏‏
20. حدیث نمبر 27
حدیث نمبر: 27
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
27 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: سمعت الزهري يقول: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس انه سمع عمر بن الخطاب علي المنبر يقول: سمعت النبي صلي الله عليه وسلم يقول: «لا تطروني كما اطرت النصاري ابن مريم فإنما انا عبده فقولوا عبده ورسوله» 27 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَي الْمِنْبَرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَي ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»
27- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: انہوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ بیان کرتے ہوئے سنا: وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: تم لوگ مجھے اس طرح نہ بڑھا دینا جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کو بڑھا دیا تھا میں (اللہ) کا بندہ ہوں، تو تم لوگ یوں کہو اس کے بندے اور اس کے رسول۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه البخاري 3445، أخرجه البغوي فى شرح السنة 246/13 برقم 3681، وفي مسنده الموصلي: 153، وعبدالرزاق: 20524، والبيهقي فى دلائل النبوة: 498/5»

Previous    1    2    3    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.