الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: اسلامی اخلاق و آداب
Chapters on Manners
11. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْجُلُوسِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ بِغَيْرِ إِذْنِهِمَا
11. باب: بغیر اجازت دو آدمیوں کے بیچ میں بیٹھنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2752
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا اسامة بن زيد، حدثني عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يحل للرجل ان يفرق بين اثنين إلا بإذنهما "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه عامر الاحول، عن عمرو بن شعيب ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَامِرٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَيْضًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیدا کرے مگر ان کی اجازت سے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس حدیث کو عامر احول نے عمرو بن شعیب سے بھی روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 24 (4844، 4845) (تحفة الأشراف: 8656)، و مسند احمد (2/213) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے درمیان بغیر اجازت کسی کا بیٹھنا صحیح نہیں، اگر وہ دونوں اجازت دے دیں تو پھر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، المشكاة (7403 / التحقيق الثاني)
12. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْقُعُودِ وَسْطَ الْحَلْقَةِ
12. باب: مجلس کے بیچ میں بیٹھنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2753
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، اخبرنا شعبة، عن قتادة، عن ابي مجلز، ان رجلا قعد وسط حلقة، فقال حذيفة: " ملعون على لسان محمد، او لعن الله على لسان محمد صلى الله عليه وسلم من قعد وسط الحلقة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو مجلز اسمه لاحق بن حميد.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، أَنَّ رَجُلًا قَعَدَ وَسْطَ حَلْقَةٍ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: " مَلْعُونٌ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ، أَوْ لَعَنَ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَعَدَ وَسْطَ الْحَلْقَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مِجْلَزٍ اسْمُهُ لَاحِقُ بْنُ حُمَيْدٍ.
ابومجلز سے روایت ہے کہ ایک آدمی حلقہ کے بیچ میں بیٹھ گیا، تو حذیفہ نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شخص ملعون ہے جو بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلقہ (دائرہ) کے بیچ میں جا کر بیٹھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 17 (4826) (تحفة الأشراف: 3389)، و مسند احمد (5/383، 401) (ضعیف) (ابو مجلز اور حذیفہ رضی الله عنہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس سے مراد وہ آدمی ہے جو مجلس کے کنارے نہ بیٹھ کر لوگوں کی گردنوں کو پھاندتا ہوا بیچ حلقہ میں جا کر بیٹھے، اور لوگوں کے درمیان حائل ہو جائے، البتہ ایسا آدمی جس کا انتظار اسی بنا پر ہو کہ وہ مجلس کے درمیان آ کر بیٹھے تو وہ اس لعنت میں داخل نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (638)، المشكاة (4722) // ضعيف الجامع الصغير (4694)، ضعيف أبي داود (1028 / 4826) //
13. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ قِيَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ
13. باب: آدمی کا آدمی کے (اعزاز و تکریم کے) لیے کھڑا ہونا (یعنی قیام تعظیمی) مکروہ ہے​۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2754
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عفان، اخبرنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن انس، قال: " لم يكن شخص احب إليهم من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وكانوا إذا راوه لم يقوموا لما يعلمون من كراهيته لذلك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص انہیں یعنی (صحابہ) کو رسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا کہتے ہیں: (لیکن) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر (ادباً) کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 625) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر الشمائل (289)، الضعيفة تحت الحديث (346)، المشكاة (4698)، نقد الكتاني ص (51)
حدیث نمبر: 2755
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن حبيب بن الشهيد، عن ابي مجلز، قال: خرج معاوية، فقام عبد الله بن الزبير، وابن صفوان حين راوه، فقال: اجلسا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من سره ان يتمثل له الرجال قياما فليتبوا مقعده من النار " وفي الباب، عن ابي امامة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، حدثنا هناد، حدثنا ابو اسامة، عن حبيب بن الشهيد، عن ابي مجلز، عن معاوية، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ، فَقَالَ: اجْلِسَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
ابومجلز کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ باہر نکلے، عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان انہیں دیکھ کر (احتراماً) کھڑے ہو گئے۔ تو معاویہ رضی الله عنہ نے کہا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔ ہم سے بیان کیا ہناد نے وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا ابواسامہ نے اور ابواسامہ نے حبیب بن شہید سے حبیب بن شہید نے ابومجلز سے ابومجلز نے معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 165 (5229) (تحفة الأشراف: 11448)، و مسند احمد (4/100) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ ادب و تعظیم کی خاطر کسی کے لیے کھڑا ہونا مکروہ ہے، البتہ کسی معذور شخص کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے، نیز اگر کسی آنے والے کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کو لے کر مجلس میں آئے اور بیٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ فاطمہ رضی الله عنہا رسول اللہ کے لیے کرتی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4699)
14. باب مَا جَاءَ فِي تَقْلِيمِ الأَظْفَارِ
14. باب: ناخن کاٹنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2756
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الحلواني، وغير واحد، قالوا: حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خمس من الفطرة: الاستحداد، والختان، وقص الشارب، ونتف الإبط، وتقليم الاظفار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَلْوَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: الِاسْتِحْدَادُ، وَالْخِتَانُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ۱؎، (۱) شرمگاہ کے بال مونڈنا، (۲) ختنہ کرنا، (۳) مونچھیں کترنا، (۴) بغل کے بال اکھیڑنا، (۵) ناخن تراشنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 63 (5889)، و64 (5891)، والاستئذان 51 (6697)، صحیح مسلم/الطہارة 16 (257)، سنن ابی داود/ الترجل 16 (4198)، سنن النسائی/الطہارة 9 (9)، و 10 (10)، والزینة 53 (5046)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 8 (292) (تحفة الأشراف: 13286)، وط/صفة النبی اکرم ﷺ 3 (4) (موقوفا) و مسند احمد (2/229، 240، 284، 411، 489) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی انبیاء کی وہ سنتیں ہیں جن کی اقتداء کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ یہ ساری شریعتوں میں تھیں، کیونکہ یہ فطرت انسانی کے اندر داخل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (292)
حدیث نمبر: 2757
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، وهناد، قالا: حدثنا وكيع، عن زكريا بن ابي زائدة، عن مصعب بن شيبة، عن طلق بن حبيب، عن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، والاستنشاق، وقص الاظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء، قال زكريا، قال مصعب: ونسيت العاشرة إلا ان تكون المضمضة "، قال ابو عبيد: انتقاص الماء: الاستنجاء بالماء، وفي الباب، عن عمار بن ياسر، وابن عمر، وابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ، قَالَ زَكَرِيَّا، قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ "، قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: انْتِقَاصُ الْمَاءِ: الِاسْتِنْجَاءُ بِالْمَاءِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دس ۱؎ چیزیں فطرت سے ہیں (۱) مونچھیں کترنا (۲) ڈاڑھی بڑھانا (۳) مسواک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا (۶) بغل کے بال اکھیڑنا (۸) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا (۹) پانی سے استنجاء کرنا، زکریا (راوی) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کلی کرنا ہو، «انتقاص الماء» سے مراد پانی سے استنجاء کرنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عمار بن یاسر، ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 16 (261)، سنن ابی داود/ الطہارة 29 (53)، سنن النسائی/الزینة 1 (5043)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 8 (293) (تحفة الأشراف: 88ا16)، و مسند احمد (6/137) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: پچھلی حدیث میں پانچ کا ذکر ہے، اور اس میں دس کا، دونوں میں کوئی تضاد نہیں، پانچ دس میں داخل ہیں، یا پہلے آپ کو پانچ کے بارے میں بتایا گیا، بعد میں دس کے بارے میں بتایا گیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (293)
15. باب فِي التَّوْقِيتِ فِي تَقْلِيمِ الأَظْفَارِ وَأَخْذِ الشَّارِبِ
15. باب: ناخن کاٹنے اور مونچھیں تراشنے کے وقت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2758
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا صدقة بن موسى ابو محمد صاحب الدقيق، حدثنا ابو عمران الجوني، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " انه وقت لهم في كل اربعين ليلة تقليم الاظفار واخذ الشارب وحلق العانة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى أَبُو مُحَمَّدٍ صَاحِبُ الدَّقِيقِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ وَقَّتَ لَهُمْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً تَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ وَأَخْذَ الشَّارِبِ وَحَلْقَ الْعَانَةِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے مدت متعین فرما دی ہے کہ ہر چالیس دن کے اندر ناخن کاٹ لیں۔ مونچھیں کتروا لیں۔ اور ناف سے نیچے کے بال مونڈ لیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطھارة 16 (258)، سنن ابی داود/ الترجل 16 (4200)، سنن النسائی/الطھارة 14 (14)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 8 (292) (تحفة الأشراف: 1070)، و مسند احمد (3/122، 203) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (295)
حدیث نمبر: 2759
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ابي عمران الجوني، عن انس بن مالك، قال: " وقت لنا في قص الشارب، وتقليم الاظفار، وحلق العانة، ونتف الإبط، ان نترك اكثر من اربعين يوما "، قال: هذا اصح من حديث الاول، وصدقة بن موسى ليس عندهم بالحافظ.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، وَنَتْفِ الْإِبْطِ، أَنْ نَتْرَكُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا "، قَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَى لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِالْحَافِظِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیر ناف کے بال لینے، اور بغل کے بال اکھاڑنے کا ہمارے لیے وقت مقرر فرما دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،
۲- صدقہ بن موسیٰ (جو پہلی حدیث کی سند میں) محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ چالیس دن سے اوپر نہ ہو، یہ مطلب نہیں ہے کہ چالیس دن کے اندر جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (2758)
16. باب مَا جَاءَ فِي قَصِّ الشَّارِبِ
16. باب: مونچھیں کترنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2760
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عمر بن الوليد الكندي الكوفي، حدثنا يحيى بن آدم، عن إسرائيل، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يقص او ياخذ من شاربه، وكان إبراهيم خليل الرحمن يفعله "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُصُّ أَوْ يَأْخُذُ مِنْ شَارِبِهِ، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ يَفْعَلُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6117) (ضعیف الإسناد) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں بہت اضطراب ہوتا ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 2761
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا عبيدة بن حميد، عن يوسف بن صهيب، عن حبيب بن يسار، عن زيد بن ارقم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من لم ياخذ من شاربه فليس منا "، وفي الباب، عن المغيرة بن شعبة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن يوسف بن صهيب بهذا الإسناد، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ شَارِبِهِ فَلَيْسَ مِنَّا "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُهَيْبٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی مونچھوں کے بال نہ لیے (یعنی انہیں نہیں کاٹا) تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطھارة 13 (13)، والزینة 2 (5050) (تحفة الأشراف: 3660)، و مسند احمد (4/366، 368) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی وہ ہماری سنت اور ہمارے طریقے کا مخالف ہے، کیونکہ مونچھیں بڑھانا کفار و مشرکین کا شعار ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (313)، المشكاة (4438)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.