الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
The Book of the Commencement of the Prayer
22. بَابُ: تَرْكِ الْجَهْرِ بِـ {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}
22. باب: «‏‏‏‏بسم اللہ الرحمن الرحیم» ‏‏‏‏ زور سے نہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Not saying "In the Name of Allah, The Most Gracious, The Most Merciful" Aloud
حدیث نمبر: 907
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن علي بن الحسن بن شقيق، قال: سمعت ابي، يقول: انبانا ابو حمزة، عن منصور بن زاذان، عن انس بن مالك قال:" صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يسمعنا قراءة بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1وصلى بنا ابو بكر، وعمر فلم نسمعها منهما".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، قال: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: أَنْبَأَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قال:" صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُسْمِعْنَا قِرَاءَةَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1وَصَلَّى بِنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فَلَمْ نَسْمَعْهَا مِنْهُمَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، تو آپ نے ہمیں «بسم اللہ الرحمن الرحيم» کی قرآت نہیں سنائی، اور ہمیں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم نے بھی نماز پڑھائی، تو ہم نے ان دونوں سے بھی اسے نہیں سنا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1605) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: بسم اللہ سے متعلق زیادہ تر روایتیں آہستہ ہی پڑھنے کی ہیں، جو روایتیں زور (جہر) سے پڑھنے کی آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، سب سے عمدہ روایت نعیم المجمر کی ہے جس میں ہے «صليت وراء أبي هريرة فقرأ: بسم الله الرحمن الرحيم: ثم قرأ بأم القرآن» اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اسے نعیم کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں، اس لیے ان کی روایت شاذ ہو گی، لیکن اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ نعیم ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، اس لیے اس سے جہری پر دلیل پکڑی جا سکتی ہے، لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ ان کی مخالفت ثقات نے کی ہے، اس لیے یہ تفرد غیر مقبول ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 908
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد ابو سعيد الاشج، قال: حدثني عقبة بن خالد قال: حدثنا شعبة، وابن ابي عروبة، عن قتادة، عن انس قال:" صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر، وعثمان رضي الله عنهم فلم اسمع احدا منهم يجهر ب بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجّ، قال: حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قال:" صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَجْهَرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن میں نے ان میں سے کسی ایک کو بھی «بسم اللہ الرحمن الرحيم» زور سے پڑھتے نہیں سنا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 89 (743)، صحیح مسلم/الصلاة 13 (399)، مسند احمد 3/176، 179، 273، (تحفة الأشراف: 1218، 1257) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 909
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا عثمان بن غياث، قال: اخبرني ابو نعامة الحنفي، قال: حدثنا ابن عبد الله بن مغفل، قال: كان عبد الله بن مغفل إذا سمع احدنا يقرا بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1 يقول:" صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وخلف ابي بكر وخلف عمر رضي الله عنهما فما سمعت احدا منهم قرا بسم الله الرحمن الرحيم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ، قال: أَخْبَرَنِي أَبُو نَعَامَةَ الْحَنَفِيُّ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قال: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُغَفَّلٍ إِذَا سَمِعَ أَحَدَنَا يَقْرَأُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 يقول:" صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَلْفَ أَبِي بَكْرٍ وَخَلْفَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ قَرَأَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ".
عبداللہ بن مغفل کے بیٹے کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ جب ہم میں سے کسی سے «‏بسم اللہ الرحمن الرحيم» پڑھتے ہوئے سنتے تو کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، اور عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی نماز پڑھی لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی «‏بسم اللہ الرحمن الرحيم» پڑھتے نہیں سنا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 66 (244)، سنن ابن ماجہ/إقامة 4 (815)، (تحفة الأشراف: 9667)، مسند احمد 4/85 و 5/54، 55 (ضعیف) (بعض ائمہ نے ”ابن عبداللہ بن مغفل‘ کو مجہول قرار دے کر اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جب کہ حافظ مزی نے ان کا نام ’’یزید‘‘ لکھا ہے، اور حافظ ابن حجر نے ان کو ’’صدوق‘‘ کہا ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی زور سے پڑھتے نہیں سنا، نہ کہ بالکل پڑھتے ہی نہیں تھے (دیکھئیے پچھلی دونوں حدیثیں)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
23. بَابُ: تَرْكِ قِرَاءَةِ {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
23. باب: سورۃ الفاتحہ میں «‏‏‏‏بسم اللہ الرحمن الرحیم» ‏‏‏‏ کی قرأت چھوڑ دینے کا بیان۔
Chapter: Not reciting "In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful" in Al Fatihah
حدیث نمبر: 910
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن العلاء بن عبد الرحمن، انه سمع ابا السائب مولى هشام بن زهرة يقول: سمعت ابا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج هي خداج هي خداج غير تمام"، فقلت يا ابا هريرة: إني احيانا اكون وراء الإمام فغمز ذراعي وقال: اقرا بها يا فارسي في نفسك فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يقول الله عز وجل:" قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرءوا يقول العبد الحمد لله رب العالمين يقول الله عز وجل:" حمدني عبدي" يقول العبد: الرحمن الرحيم يقول الله عز وجل اثنى علي عبدي يقول العبد:" مالك يوم الدين يقول الله عز وجل مجدني عبدي يقول العبد إياك نعبد وإياك نستعين فهذه الآية بيني وبين عبدي ولعبدي ما سال يقول العبد اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين فهؤلاء لعبدي ولعبدي ما سال".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ"، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" حَمِدَنِي عَبْدِي" يَقُولُ الْعَبْدُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ:" مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
ابوسائب مولی ہشام بن زہرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، پوری نہیں، میں نے پوچھا: ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو (کیسے پڑھوں؟) تو انہوں نے میرا ہاتھ دبایا، اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۱؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، تو آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سورۃ فاتحہ پڑھو، جب بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے ۲؎ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد (تعریف) کی، اسی طرح جب بندہ «‏الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعظیم و تمجید کی، اور جب بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے: یہ آیت میرے اور میرے بندے دونوں کے درمیان مشترک ہے، اور جب بندہ «‏اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تینوں آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 11 (395)، سنن ابی داود/الصلاة 135 (821)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة 5 (2953)، سنن ابن ماجہ/إقامة 11 (838) (تحفة الأشراف: 14935)، موطا امام مالک/الصلاة 9 (39)، مسند احمد 2/241، 250، 285، 286، 290، 457، 460، 478، 487 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صلاۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ۲؎: اسی سے مؤلف نے سورۃ فاتحہ میں «‏بسم الله الرحمن الرحيم» نہ پڑھنے پر استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں بات صرف یہ ہے کہ اصل سورۃ فاتحہ تو «الحمد للہ» سے ہے، اور رہا پڑھنا «‏بسم الله» ‘ تو ہر سورۃ کی شروع میں ہونے کی وجہ سے اس کو تو پڑھنا ہی ہوتا ہے، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، اس لیے یہاں اس کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
24. بَابُ: إِيجَابِ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلاَةِ
24. باب: نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب و فرضیت کا بیان۔
Chapter: The Obligation to recite Fatihatil-Kitab in the prayer
حدیث نمبر: 911
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، عن سفيان، عن الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 95 (756)، صحیح مسلم/الصلاة 11 (394)، سنن ابی داود/فیہ 136 (822)، سنن الترمذی/فیہ 69 (247)، سنن ابن ماجہ/إقامة 11 (837)، (تحفة الأشراف: 5110)، مسند احمد 5/314، 321، 322، سنن الدارمی/الصلاة 36 (1278) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے خواہ وہ فرض ہو یا نفل، اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی، ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی، کیونکہ «لاء» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع صلاۃ مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہٰذا جز یا کُل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب (زیادہ قریب) اور کمال ذات سے ابعد (زیادہ دور) ہے، اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہو گی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد (بعید تر) ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 912
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر قال: انبانا عبد الله، عن معمر، عن الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب فصاعدا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ مزید نہ پڑھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 911 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے چوری کی سزا قطع «ید» (ہاتھ کاٹنے) کے سلسلے میں صحیح حدیث میں ہے «لا تقطع الید إلا فی ربع دینار فصاعدا» چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا یعنی چوتھائی دینار سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لہٰذا حدیث میں وارد اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ اس شخص کی صلاۃ نہیں ہو گی جس نے سورۃ فاتحہ سے کم پڑھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
25. بَابُ: فَضْلِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
25. باب: سورۃ الفاتحہ کی فضیلت۔
Chapter: The virtue of Fatihatil-Kitab
حدیث نمبر: 913
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك المخرمي قال: حدثنا يحيى بن آدم، قال: حدثنا ابو الاحوص، عن عمار بن رزيق، عن عبد الله بن عيسى، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده جبريل عليه السلام إذ سمع نقيضا فوقه فرفع جبريل عليه السلام بصره إلى السماء فقال:" هذا باب قد فتح من السماء ما فتح قط قال: فنزل منه ملك فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ابشر بنورين اوتيتهما لم يؤتهما نبي قبلك فاتحة الكتاب وخواتيم سورة البقرة لم تقرا حرفا منهما إلا اعطيته".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قال: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام إِذْ سَمِعَ نَقِيضًا فَوْقَهُ فَرَفَعَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ:" هَذَا بَابٌ قَدْ فُتِحَ مِنَ السَّمَاءِ مَا فُتِحَ قَطُّ قَالَ: فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَمْ تَقْرَأْ حَرْفًا مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام ایک ساتھ ہی تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے اوپر دروازہ کھلنے کی آواز سنی، تو نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا: یہ آسمان کا ایک دروازہ کھلا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا، پھر اس سے ایک فرشتہ اترا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: مبارک ہو! آپ کو دو نور دیا گیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا، سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں، ان دونوں میں سے ایک حرف بھی تم پڑھو گے تو (اس کا ثواب) تمہیں ضرور دیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 43 (806)، (تحفة الأشراف: 5541) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
26. بَابُ: تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ}
26. باب: تفسیر آیت کریمہ: ”یقیناً ہم آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ دہرائی جاتی ہے اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے“۔
Chapter: The Interpretation of the saying of Allah, The Mighty and Sublime: And Indeed, "We have
حدیث نمبر: 914
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن قال: سمعت حفص بن عاصم يحدث، عن ابي سعيد بن المعلى، ان النبي صلى الله عليه وسلم مر به وهو يصلي فدعاه قال: فصليت، ثم اتيته فقال:" ما منعك ان تجيبني" قال كنت اصلي قال: الم يقل الله عز وجل يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24" الا اعلمك اعظم سورة قبل ان اخرج من المسجد قال: فذهب ليخرج قلت يا رسول الله قولك قال:" الحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني الذي اوتيت والقرآن العظيم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قال: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُصَلِّي فَدَعَاهُ قَالَ: فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تُجِيبَنِي" قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي قَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24" أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ: فَذَهَبَ لِيَخْرُجَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْلَكَ قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي الَّذِي أُوتِيتُ وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ".
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا، تو میں نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا؟ کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے!: «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم» اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو (الحجر: ۸۷) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورت «‏الحمد لله رب العالمين» ہے، اور یہی «سبع المثاني» ۱؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة 1 (4474)، تفسیر الأنفال 3 (4647)، تفسیر الحجر 3 (4703)، فضائل القرآن 9 (5006)، سنن ابی داود/الصلاة 350 (1458)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3785)، (تحفة الأشراف: 12047)، مسند احمد 3/450، 4 (211)، سنن الدارمی/الصلاة 172 (1533)، فضائل القرآن 12 (3414)، موطا امام مالک/ الصلاة 8 (37) من حدیث أبی بن کعب (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سورۃ فاتحہ کا نام «سبع المثاني» ہے، «سبع» اس لیے ہے کہ یہ سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور «مثانی» اس لیے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کی اسی اہمیت و خصوصیت کے اعتبار سے اسے قرآن عظیم کہا کیا ہے، گرچہ قرآن کی ہر سورت قرآن عظیم ہے جس طرح کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے گرچہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، لیکن اس کی عظمت و خصوصیت کے اظہار کے لیے صرف کعبہ ہی کو بیت اللہ کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 915
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) اخبرنا الحسين بن حريث قال: حدثنا الفضل بن موسى، عن عبد الحميد بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن ابي بن كعب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما انزل الله عز وجل في التوراة ولا في الإنجيل مثل ام القرآن وهي السبع المثاني وهي مقسومة بيني وبين عبدي ولعبدي ما سال".
(قدسي) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قال: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَهِيَ مَقْسُومَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ جیسی کوئی سورت نہ تو رات میں اتاری ہے اور نہ انجیل میں، یہی «سبع المثاني» ہے، یہ میرے اور میرے بندے کے بیچ بٹی ہوئی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر الحجر (3125)، (تحفة الأشراف: 77)، مسند احمد 5/114، سنن الدارمی/الفضائل 12 (3415) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 916
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرني محمد بن قدامة قال: حدثنا جرير، عن الاعمش، عن مسلم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال:" اوتي النبي صلى الله عليه وسلم سبعا من المثاني السبع الطول".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ قال: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قال:" أُوتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي السَّبْعَ الطُّوَلَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «سبع المثاني» یعنی سات لمبی سورتیں ۱؎ عطا کی گئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 351 (1459)، (تحفة الأشراف: 5617) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور وہ یہ ہیں: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، اعراف، ہود اور یونس، یہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کا قول سند میں شریک ضعیف ہیں، نیز ابواسحاق بیہقی مدلس و مختلط لیکن سابقہ سند سے تقویت پا کر یہ حسن ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.