الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 3608
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال:" قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم قسما، قال: فقال رجل من الانصار: إن هذه لقسمة ما اريد بها وجه الله عز وجل! قال: فقلت: يا عدو الله، اما لاخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم بما قلت، قال: فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فاحمر وجهه، قال: ثم قال:" رحمة الله على موسى، لقد اوذي باكثر من هذا فصبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ قَسْمًا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ! قَالَ: فَقُلْتُ: يَا عَدُوَّ اللَّهِ، أَمَا لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قُلْتَ، قَالَ: فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاحْمَرَّ وَجْهُهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى، لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، ایک انصاری کہنے لگا کہ یہ تقسیم ایسی ہے جس سے اللہ کی رضا حاصل کرنا مقصود نہیں ہے، میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے دشمن! تو نے جو بات کہی ہے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ضرور دوں گا، چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کر دی جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، پھر فرمایا: موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر ہی کیا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3150، م: 1062
حدیث نمبر: 3609
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تباشر المراة المراة، حتى تصفها لزوجها، كانما ينظر إليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُبَاشِرْ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، حَتَّى تَصِفَهَا لِزَوْجِهَا، كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ اپنا برہنہ جسم نہ لگائے کہ اپنے شوہر کے سامنے اس کی جسمانی ساخت اس طرح سے بیان کرے کہ گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5240
حدیث نمبر: 3610
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: كنا نمشي مع النبي صلى الله عليه وسلم، فمر بابن صياد، فقال:" إني قد خبات لك خبئا"، قال ابن صياد: دخ، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اخسا، فلن تعدو قدرك"، فقال عمر: يا رسول الله، دعني اضرب عنقه، قال:" لا، إن يكن الذي تخاف، فلن تستطيع قتله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ، فَقَالَ:" إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْئًا"، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: دُخٌّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ"، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ:" لَا، إِنْ يَكُنْ الَّذِي تخَافُ، فَلَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن صیاد پر گزر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: میں نے تیرے بوجھنے کے لئے اپنے ذہن میں ایک بات رکھی ہے، بتا، وہ کیا ہے؟ وہ کہنے لگا: دخ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دور ہو، تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن ماروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اگر یہ وہی ہے جس کا تمہیں اندیشہ ہے تو تم اسے قتل کرنے پر قادر نہ ہو سکو گے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2924
حدیث نمبر: 3611
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: لكاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم" يحكي نبيا ضربه قومه، فهو يمسح عن وجهه الدم، ويقول:" رب اغفر لقومي، فإنهم لا يعلمون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَحْكِي نَبِيًّا ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، فَهُوَ يَمْسَحُ عَنْ وَجْهِهِ الدَّمَ، وَيَقُولُ:" رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي، فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آج بھی وہ منطر میری نگاہوں میں محفوظ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کے متعلق بیان فرما رہے تھے جنہیں ان کی قوم نے مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ پروردگار! میری قوم کو معاف فرما دے، یہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ (واقعہ طائف کی طرف اشارہ ہے)۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3477، م: 1792
حدیث نمبر: 3612
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الذنب اكبر؟ قال:" ان تجعل لله ندا وهو خلقك"، قال: ثم اي؟ قال:" ان تقتل ولدك ان يطعم معك"، قال: ثم اي؟ قال:" ان تزاني حليلة جارك"، قال: قال عبد الله: فانزل الله تصديق ذلك: والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق اثاما سورة الفرقان آية 68.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ؟ قَالَ:" أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ"، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَال:" أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ"، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ"، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ ذَلِكَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا سورة الفرقان آية 68.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال پوچھا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا بالخصوص جبکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے، سائل نے کہا: اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دینا کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھانے لگے گی، سائل نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: اپنے ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرنا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تائید میں یہ آیت نازل فرما دی: «﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللّٰهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا﴾ [الفرقان: 68] » اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اور کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جسے قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہو، سوائے حق کے، اور بدکاری نہیں کرتے، جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزا سے دوچار ہو گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4761، م: 86
حدیث نمبر: 3613
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، قال:" جاء رجل إلى عبد الله ، فقال: إني تركت في المسجد رجلا يفسر القرآن برايه، يقول في هذه الآية: يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10 إلى آخرها: يغشاهم يوم القيامة دخان ياخذ بانفاسهم، حتى يصيبهم منه كهيئة الزكام! قال: فقال عبد الله: من علم علما، فليقل به، ومن لم يعلم، فليقل الله اعلم، فإن من فقه الرجل، ان يقول لما لا يعلم: الله اعلم، إنما كان هذا لان قريشا لما استعصت على النبي صلى الله عليه وسلم، دعا عليهم بسنين كسنين يوسف، فاصابهم قحط وجهدوا حتى اكلوا العظام، وجعل الرجل ينظر إلى السماء، فينظر ما بينه وبين السماء كهيئة الدخان من الجهد، فانزل الله عز وجل: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب اليم سورة الدخان آية 10 - 11، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل: يا رسول الله، استسق الله لمضر، فإنهم قد هلكوا، قال: فدعا لهم، فانزل الله عز وجل إنا كاشفو العذاب سورة الدخان آية 15، فلما اصابهم المرة الثانية عادوا، فنزلت يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16 يوم بدر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ: إِنِّي تَرَكْتُ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ، يَقُولُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 إِلَى آخِرِهَا: يَغْشَاهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ دُخَانٌ يَأْخُذُ بِأَنْفَاسِهِمْ، حَتَّى يُصِيبَهُمْ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ! قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: مَنْ عَلِمَ عِلْمًا، فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ، فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ، أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ: اللَّهُ أَعْلَمُ، إِنَّمَا كَانَ هَذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِينِ يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهِدُوا حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَنْظُرُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة الدخان آية 10 - 11، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، قَالَ: فَدَعَا لَهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ سورة الدخان آية 15، فَلَمَّا أَصَابَهُمْ الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ عَادُوا، فَنَزَلَتْ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16 يَوْمَ بَدْرٍ".
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آ رہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر بیان کر رہا ہے، وہ اس آیت کی تفسیر میں کہہ رہا ہے: «﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ﴾ [الدخان: 10] » جس دن آسمان پر واضح دھواں دکھائی دے گا کہ یہ دھواں انہیں قیامت کے دن اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کے سانسوں میں داخل ہو کر زکام کی کیفیت پیدا کر دے گا، یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص کسی بات کو اچھی طرح جانتا ہو، وہ اسے بیان کر سکتا ہے، اور جسے اچھی طرح کسی بات کا علم نہ ہو، وہ کہہ دے کہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے، کیونکہ یہ بھی انسان کی دانائی کی دلیل ہے کہ وہ جس چیز کے متعلق نہیں جانتا، کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مذکورہ آیت کا نزول اس پس منطر میں ہوا تھا کہ جب قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں حد سے آگے بڑھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دور جیسا قحط نازل ہونے کی بد دعا فرمائی، چنانچہ قریش کو قحط سالی اور مشکلات نے آ گھیرا، یہاں تک کہ وہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور یہ کیفیت ہو گئی کہ جب کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں دکھائی دیتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ o يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ [الدخان: 10-11] » اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان پر ایک واضح دھواں آئے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا، یہ درد ناک عذاب ہے۔ اس کے بعد کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنو مضر کے لئے نزول باران کی دعا کیجئے، وہ تو ہلاک ہو رہے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی: «﴿إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ﴾ [الدخان: 15] » ہم ان سے عذاب دور کر رہے ہیں، لیکن وہ خوش حالی ملنے کے بعد جب دوبارہ اپنی انہی حرکات میں لوٹ گئے تو یہ آیت نازل ہوئی: «﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ﴾ [الدخان: 16] » جس دن ہم انہیں بڑی مضبوطی سے پکڑ لیں گے، ہم انتقام لینے والے ہیں، اور اس سے مراد غزوہ بدر ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4821، م : 2798
حدیث نمبر: 3614
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمارة ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن عبد الله ، قال: كنت مستترا بستار الكعبة، فجاء ثلاثة نفر قرشي، وختناه ثقفيان او ثقفي، وختناه قرشيان، كثير شحم بطونهم، قليل فقه قلوبهم، فتكلموا بكلام لم اسمعه! فقال احدهم: اترون الله يسمع كلامنا هذا؟ فقال الآخر: ارانا إذا رفعنا اصواتنا سمعه، وإذا لم نرفعها لم يسمع، فقال الآخر: إن سمع منه شيئا سمعه كله، قال: فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم ولا جلودكم إلى قوله وذلكم ظنكم الذي ظننتم بربكم ارداكم فاصبحتم من الخاسرين سورة فصلت آية 22 - 23".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ مُسْتَتِرًا بِسِتَارِ الْكَعْبَةِ، فَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قُرَشِيٌّ، وَخَتَنَاهُ ثَقَفِيَّانِ أَوْ ثَقَفِيٌّ، وَخَتَنَاهُ قُرَشِيَّانِ، كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ، قَلِيلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، فَتَكَلَّمُوا بِكَلَامٍ لَمْ أَسْمَعْهُ! فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَوْنَ اللَّهَ يَسْمَعُ كَلَامَنَا هَذَا؟ فَقَالَ الْآخَرُ: أُرَانَا إِذَا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا سَمِعَهُ، وَإِذَا لَمْ نَرْفَعْهَا لَمْ يَسْمَعْ، فَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا سَمِعَهُ كُلَّهُ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ وَلا جُلُودُكُمْ إِلَى قَوْلِهِ وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ سورة فصلت آية 22 - 23".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں غلاف کعبہ سے چمٹا ہوا تھا کہ تین آدمی آئے، ان میں سے ایک قریشی تھا اور دو قبیلہ ثقیف کے جو اس کے داماد تھے، یا ایک ثقفی اور دو قریشی، ان کے پیٹ میں چربی زیادہ تھی لیکن دلوں میں سمجھ بوجھ بہت کم تھی، وہ چپکے چپکے باتیں کرنے لگے جنہیں میں نہ سن سکا، اتنی دیر میں ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا اللہ ہماری ان باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرا کہنے لگا: میرا خیال ہے کہ جب ہم اونچی آواز سے باتیں کرتے ہیں تو وہ انہیں سنتا ہے اور جب ہم اپنی آوازیں بلند نہیں کرتے تو وہ انہیں نہیں سن پاتا، تیسرا کہنے لگا: اگر وہ کچھ سن سکتا ہے تو سب کچھ بھی سن سکتا ہے، میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ . . . . . وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ [فصلت: 22-23] » اور تم جو چیزیں چھپاتے ہو کہ تمہارے کان، آنکھیں اور کھالیں تم پر گواہ نہ بن سکیں . . . . . یہ اپنے رب کے ساتھ تمہارا گھٹیا خیال ہے اور تم نقصان اٹھانے والے ہو گئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4817، م: 2775
حدیث نمبر: 3615
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن يحيى بن الجزار ، عن ابن اخي زينب ، عن زينب امراة عبد الله، قالت: كان عبد الله إذا جاء من حاجة فانتهى إلى الباب، تنحنح وبزق، كراهية ان يهجم منا على شيء يكرهه، قالت: وإنه جاء ذات يوم، فتنحنح، قالت: وعندي عجوز ترقيني من الحمرة، فادخلتها تحت السرير، فدخل، فجلس إلى جنبي، فراى في عنقي خيطا، قال: ما هذا الخيط؟ قالت: قلت: خيط ارقي لي فيه، قالت: فاخذه فقطعه، ثم قال: إن آل عبد الله لاغنياء عن الشرك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول" إن الرقى، والتمائم، والتولة، شرك"، قالت: فقلت له: لم تقول هذا، وقد كانت عيني تقذف، فكنت اختلف إلى فلان اليهودي يرقيها، وكان إذا رقاها سكنت؟! قال: إنما ذلك عمل الشيطان، كان ينخسها بيده، فإذا رقيتها كف عنها، إنما كان يكفيك ان تقولي كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب الباس رب الناس، اشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا جَاءَ مِنْ حَاجَةٍ فَانْتَهَى إِلَى الْبَابِ، تَنَحْنَحَ وَبَزَقَ، كَرَاهِيَةَ أَنْ يَهْجُمَ مِنَّا عَلَى شَيْءٍ يَكْرَهُهُ، قَالَتْ: وَإِنَّهُ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَتَنَحْنَحَ، قَالَتْ: وَعِنْدِي عَجُوزٌ تَرْقِينِي مِنَ الْحُمْرَةِ، فَأَدْخَلْتُهَا تَحْتَ السَّرِيرِ، فَدَخَلَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي، فَرَأَى فِي عُنُقِي خَيْطًا، قَالَ: مَا هَذَا الْخَيْطُ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: خَيْطٌ أُرْقِيَ لِي فِيهِ، قَالَتْ: فَأَخَذَهُ فَقَطَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ لَأَغْنِيَاءُ عَنِ الشِّرْكِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ" إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ، شِرْكٌ"، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ: لِمَ تَقُولُ هَذَا، وَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ، فَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِيهَا، وَكَانَ إِذَا رَقَاهَا سَكَنَتْ؟! قَالَ: إِنَّمَا ذَلِكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ، كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ، فَإِذَا رَقَيْتِهَا كَفَّ عَنْهَا، إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَذْهِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ جب کسی کام سے آتے تو دروازے پر رک کر کھانستے اور تھوک پھینکتے اور وہ اس چیز کو ناپسند سمجھتے تھے کہ اچانک ہم پر داخل ہو جائیں اور ان کے سامنے کوئی ایسی چیز آ جائے جو انہیں ناگوار ہو۔ ایک دن حسب معمول وہ آئے اور دروازے پر رک کر کھانسے، اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی جو مجھے سرخ بادہ کا دم کر رہی تھی، میں نے اسے اپنی چار پائی کے نیچے چھپا دیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اندر آئے اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے، انہوں نے دیکھا کہ میری گردن میں ایک دھاگا لٹکا ہوا ہے، پوچھا کہ یہ کیسا دھاگا ہے؟ میں نے کہا کہ اس پر میرے لئے دم کیا گیا ہے، انہوں نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا: عبداللہ کے گھرانے والے شرک سے بیزار ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک، تعویذ اور گنڈے سب شرک ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری آنکھ بہتی تھی، میں فلاں یہودی کے پاس جاتی، وہ اس پر دم کرتا تو وہ ٹھیک ہو جاتی؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ شیطانی عمل ہے، شیطان اپنے ہاتھ سے اسے دھنساتا ہے، جب تم اس پر دم کرواتیں تو وہ باز آ جاتا تھا، تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ تم وہ دعا پڑھ لیا کرو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے: «أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا» اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما، مجھے شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیرے علاوہ کسی کی شفا کچھ نہیں، ایسی شفا عطا فرما جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن أخي زينب مجهول لكنه متابع
حدیث نمبر: 3616
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا احد اغير من الله عز وجل، فلذلك حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن، ولا احد احب إليه المدح من الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی شخص غیرت مند نہیں ہو سکتا، اسی لئے اس نے ظاہری اور باطنی فحش کاموں سے منع فرمایا ہے اور اللہ سے زیادہ تعریف کو پسند کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5220، م: 2760
حدیث نمبر: 3617
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال:" لان احلف بالله تسعا، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل قتلا، احب إلي من ان احلف واحدة، وذلك بان الله عز وجل اتخذه نبيا، وجعله شهيدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" لَأَنْ أَحْلِفَ بِاللَّهِ تِسْعًا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُتِلَ قَتْلًا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً، وَذَلِك بِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَهُ نَبِيًّا، وَجَعَلَهُ شَهِيدًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے نو مرتبہ اس بات پر قسم کھانا زیادہ پسند ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے، بہ نسبت اس کے کہ میں ایک مرتبہ قسم کھاؤں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں اپنا نبی بھی بنایا ہے اور انہیں شہید بھی قرار دیا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.