الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
55. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھانا۔
حدیث نمبر: 80
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور (دیکھا کہ) قریش مجھ سے میری سیر (معراج) کا حال پوچھ رہے تھے، تو انہوں نے بیت المقدس کی کئی چیزیں پوچھیں جن کو میں ذہن میں محفوظ نہیں رکھتا تھا۔ مجھے بڑا رنج ہوا، ایسا رنج کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا، میں اس کو دیکھنے لگا اور اب جو بات وہ پوچھتے تو میں بتا دیتا تھا۔ اور میں نے اپنے آپ کو پیغمبروں کی جماعت میں پایا، دیکھا کہ موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، وہ ایک درمیانہ قد اور گٹھے ہوئے جسم کے شخص ہیں جیسے کہ (قبیلہ) شنوۃ کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھی دیکھا کہ وہ بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، اور میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ عروہ ابن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کو پاتا ہوں۔ اور دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، ان کے سب سے زیادہ مشابہ تمہارے صاحب (یعنی اپنے آپ کو مراد لیا) ہیں۔ اور پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی اور سب پیغمبروں نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک بولنے والا بولا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ جہنم کا داروغہ مالک ہے اس کو سلام کرو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے خود پہلے مجھے سلام کیا۔
56. (شب) معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچنا۔
حدیث نمبر: 81
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سدرۃالمنتہیٰ تک لے جایا گیا اور وہ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے جو چڑھتا ہے، وہ یہیں آ کر ٹھہر جاتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اور جو اوپر سے اترتا ہے، وہ بھی یہیں ٹھہرتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جبکہ سدرۃ (بیری) کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی (النجم: 16) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یعنی سونے کے پتنگے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تین چیزیں دی گئیں۔ ایک تو پانچ نمازیں، دوسری سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں اور تیسرے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اس شخص کو بخش دیا جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے گا، (باقی تمام تباہ کرنے والے گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے سوائے شرک کے)۔
57. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((فکان قاب قوسین او ادنیٰ)) کا مطلب۔
حدیث نمبر: 82
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
شیبانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم (سورۃ: النجم: 9) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تھا، ان کے چھ سو پر تھے۔
حدیث نمبر: 83
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے قول دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا .... اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (سورۃ: النجم: 11, 13) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ اپنا نقطہ نظر ہے) (م۔ ع)۔
58. اللہ تعالیٰ کے دیدار کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 84
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
مسروق سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اے ابوعائشہ! (یہ مسروق کی کنیت ہے) تین باتیں ایسی ہیں کہ جو کوئی ان کا قائل ہو، اس نے اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے کہا کہ وہ تین باتیں کون سی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ (ایک یہ ہے کہ) جو کوئی سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا کہ میں تکیہ لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا کہ اے ام المؤمنین! ذرا مجھے بات کرنے دو اور جلدی مت کرو۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے (سورۃ: التکویر: 23) اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: 13)۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان آیتوں سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا سوا دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے جسم کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کے فاصلہ کو بھر دیا تھا۔ پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس (اللہ) کو تو کسی کی نگاہ نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو دیکھ سکتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے (سورۃ: الانعام: 103) کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے (سورۃ: الشوریٰ: 51)؟ (دوسری یہ ہے کہ) جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا، تو اس نے (بھی) اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، پہنچا دیجئیے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی (المائدہ: 67)۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اور جو کوئی کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والی بات جانتے تھے (یعنی آئندہ کا حال، غیب کی بات) تو اس نے (بھی) اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) کہہ دیجئیے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا۔ اور داؤد نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (یعنی قرآن) میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے جو کہ ان پر نازل کیا گیا ہے، (یعنی قرآن) تو اس آیت کو چھپاتے کہ (یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا، جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا، جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو اس سے ڈرے (سورۃ: الاحزاب: 37)۔
حدیث نمبر: 85
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ایسی پانچ باتیں سنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 1۔ اللہ جل جلالہ سوتا نہیں اور سونا اس کے لائق ہی نہیں (کیونکہ سونا عضلات اور اعضائے بدن کی تھکاوٹ سے ہوتا اور اللہ تعالیٰ تھکن سے پاک ہے، دوسرے یہ کہ سونا غفلت ہے اور موت کے مثل ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے)۔ 2۔ اور وہی ترازو کو جھکاتا اور اس کو اونچا کرتا ہے۔ 3۔ اسی کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے۔ 4۔ اس کا پردہ نور ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا پردہ آگ ہے۔ 5۔ اگر وہ اس پردے کو کھول دے تو اس کے منہ کی شعائیں، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے مخلوقات کو جلا دیں۔
حدیث نمبر: 86
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا قیامت کے روز ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہو؟ (یعنی اژدحام اور ہجوم کی وجہ سے)۔ یا تمہیں چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلا تمہیں سورج کے دیکھنے میں، جس وقت کہ بادل نہ ہو (اور آسمان صاف ہو) کچھ مشقت ہوتی ہے یا ایک دوسرے کو صدمہ پہنچاتے ہو؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ!۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اسی طرح (یعنی بغیر تکلیف، مشقت، زحمت اور اژدحام کے) تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ جو کوئی جس کو پوجتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کو پوجتا تھا وہ سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور جو چاند کو پوجتا تھا وہ چاند کے ساتھ اور جو طاغوت کو پوجتا تھا وہ طاغوت کے ساتھ ہو جائے گا۔ بس یہ امت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) باقی رہ جائے گی جس میں منافق لوگ بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایسی صورت میں آئے گا کہ جس کو وہ نہ پہچانیں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے کہ ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار آئے گا تو ہم اس کو پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، تو وہ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور دوزخ کی پشت پر پل رکھا جائے گا تو میں اور میری امت سب سے پہلے پار ہوں گے اور سوائے پیغمبروں کے اور کوئی اس دن بات نہ کر سکے گا۔ اور پیغمبروں کا بول اس وقت یہ ہو گا کہ یا اللہ بچائیو! (یہ شفقت کی وجہ سے کہیں گے مخلوق پر) اور دوزخ میں کڑے ہیں (لوہے کے، جن کا سر ٹیڑھا ہوتا ہے اور تنور میں جب گوشت ڈالتے ہیں تو کڑوں میں لگا کر ڈالتے ہیں) جیسے سعدان جھاڑی کے کانٹے (سعدان ایک کانٹوں دار جھاڑی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم نے سعدان جھاڑی دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس وہ سعدان کے آنکڑے کانٹوں کی شکل پر ہوں گے لیکن سوائے اللہ تعالیٰ کے یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کڑے کتنے بڑے بڑے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو دوزخ میں گھسیٹیں گے (یعنی فرشتے ان کڑوں سے دوزخیوں کو گھسیٹ لیں گے) ان کے بدعملوں کی وجہ سے۔ اب بعض ان میں برباد ہوں گے جو اپنے بدعمل کے سبب سے برباد ہو جائیں گے اور بعض ان میں سے اپنے اعمال کا بدلہ دئیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فراغت پائے گا اور چاہے گا کہ دوزخ والوں میں سے جس کو چاہے اپنی رحمت سے نکالے، تو فرشتوں کو حکم دے گا دوزخ سے اس شخص کو نکالیں جس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو، جس پر اللہ نے رحمت کرنی چاہی ہو، جو کہ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہو گا، تو فرشتے دوزخ میں ایسے لوگوں کو پہچان لیں گے اور وہ انہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ آدمی کو جلا ڈالے گی سوائے سجدے کے نشان کی جگہ کے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر اس جگہ کا جلانا حرام کیا ہے۔ پھر وہ دوزخ سے جلے بھنے نکالے جائیں گے، تب ان پر آب حیات چھڑکا جائے گا تو وہ تازہ ہو کر ایسے جم اٹھیں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ میں جم اٹھتا ہے (پانی جہاں پر کوڑا کچرا مٹی بہا کر لاتا ہے وہاں دانہ خوب اگتا ہے اور جلد شاداب اور سرسبز ہو جاتا ہے اسی طرح وہ جہنمی بھی آب حیات ڈالتے ہی تازے ہو جائیں گے اور جلن کے نشان بالکل جاتے رہیں گے) پھر جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فارغ ہو گا اور ایک مرد باقی رہ جائے گا جس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا اور یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا، وہ کہے گا کہ اے رب! میرا منہ جہنم کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بو مجھے ایذا میں ڈالنے والی اور اس کی گرمی مجھے جلائے دے رہی ہے۔ پھر اللہ سے دعا کرے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیرا سوال پورا کروں تو تو اور سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں، پھر میں کچھ سوال نہ کروں گا اور جیسے جیسے اللہ کو منظور ہوں گے وہ قول اقرار کرے گا، تب اللہ تعالیٰ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے (جنت کی طرف) پھیر دے گا۔ جب جنت کی طرف اس کا منہ ہو گا تو جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا چپ رہے گا، پھر کہے گا کہ اے رب مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو کیا کیا قول اور اقرار کر چکا ہے کہ پھر میں دوسرا سوال نہ کروں گا، برا ہو تیرا، اے آدمی تو کیسا دغاباز ہے؟ وہ کہے گا کہ اے رب! اور دعا کرے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں تو پھر تو اور کچھ مانگے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں قسم تیری عزت کی اور کیا کیا قول اور اقرار کرے گا جیسے اللہ کو منظور ہو گا، آخر اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ جب وہاں کھڑا ہو گا تو ساری جنت اس کو دکھلائی دے گی اور جو کچھ اس میں نعمت یا خوشی اور فرحت ہے وہ سب۔ پھر ایک مدت تک جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ چپ رہے گا۔ اس کے بعد عرض کرے گا کہ اے رب! مجھے جنت کے اندر لے جا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے کیا پختہ وعدہ اور اقرار نہیں کیا تھا کہ اب میں کچھ سوال نہ کروں گا؟ برا ہو تیرا اے آدم کے بیٹے! تو کیسا دھوکہ باز ہے۔ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں تیری مخلوق میں بدنصیب نہیں ہوں گا اور دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ جل شانہ ہنس دے گا اور جب اللہ تعالیٰ کو ہنسی آ جائے گی تو فرمائے گا کہ اچھا، جا جنت میں چلا جا۔ جب وہ جنت کے اندر جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ اب تو کوئی اور آرزو کر۔ وہ کرے گا اور مانگے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلائے گا کہ فلاں چیز مانگ، فلاں چیز مانگ۔ جب اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب چیزیں تجھے دیں اور ان کے ساتھ اتنی ہی اور دیں۔ (یعنی اپنی خواہشوں سے دو گنا لے۔ سبحان اللہ! کیا کرم اور رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر اور اگر وہ کرم نہ کرے تو اور کون کرے؟ وہی مالک ہے وہی خالق ہے، وہی رازق ہے، وہ پالنے والا ہے) عطاء بن یزید نے کہا جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث کی روایت کرنے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے موافق تھے کہیں خلاف نہ تھے۔ لیکن جب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں تو سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوہریرہ! اس کے مثل دس گنا اور بھی۔ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے تو یہی بات یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور دس حصے زیادہ دیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا (تو اور جنتیوں کو معلوم نہیں کیا کیا نعمتیں ملیں گی)۔
59. اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا۔
حدیث نمبر: 87
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (یعنی ہمیشہ وہاں رہنے کیلئے ہیں جیسے کافر اور مشرک) وہ تو نہ مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان پر موت طاری کرے گا یہاں تک کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے تو ان کے لئے شفاعت کی اجازت ہو گی اور یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے اور حکم ہو گا کہ اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو۔ تب وہ اس طرح سے اگیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں اگتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص بولا کہ گویا رسول اللہ! (معلوم ہوتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگل میں رہے ہیں (جبھی تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ بہاؤ میں جو مٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتا ہے)۔
حدیث نمبر: 88
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جو شخص جنت میں جائے گا، وہ ایک ایسا شخص ہو گا جو چلے گا، پھر اوندھا گرے گا اور جہنم کی آگ اس کو جلاتی جائے گی۔ جب دوزخ سے پار ہو جائے گا، تو پیٹھ موڑ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ (جہنم) سے نجات دی۔ بیشک جتنا اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اتنا اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھلائی دے گا، وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے اس درخت کے نزدیک کر دے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں اور اس کا پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو تو اور بھی سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے رب! اور عہد کرے گا کہ پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا اس لئے کہ وہ ایسی نعمت کو دیکھے گا جس پر اس سے صبر نہیں ہو سکتا (یعنی انسان بے صبر ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہو اور عیش کی بات دیکھے تو بے اختیار اس کی خواہش کرتا ہے)۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا اور وہ اس کے سایہ میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھلائی دے گا، جو اس سے بھی اچھا ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے پروردگار مجھے اس درخت کے نزدیک پہنچا دے تاکہ میں اس کے سائے میں جاؤں اور اس کا پانی پیوں اور میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے عہد نہیں کیا تھا کہ میں پھر سوال نہ کروں گا؟ اور اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ وہ اقرار کرے گا کہ نہیں پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ اس کو اس نعمت پر، جو وہ (شخص) دیکھتا ہے، صبر نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا، وہ اس کے سائے میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہو گا اور وہ پہلے کے دونوں درختوں سے بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ میں اس کے نیچے سایہ میں رہوں اور وہاں کا پانی پیوں، اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! کیا تو اقرار نہ کر چکا تھا کہ اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا؟ وہ کہے گا کہ بیشک میں اقرار کر چکا تھا، لیکن اب میرا یہ سوال پورا کر دے، پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھے گا جن پر وہ صبر نہیں کر سکتا۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس کر دے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے! تیرے سوال کو کون سی چیز پورا کرے گی؟ (یعنی تیری خواہش کب موقوف ہو گی اور یہ باربار سوال کرنا کیسے بند ہو گا) بھلا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر دے کر اتنا ہی اور دوں؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! تو سارے جہاں کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہنسنے لگے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟ لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (اس حدیث کو بیان کر کے) اسی طرح ہنسے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ رب العالمین کے ہنسنے سے، میں بھی ہنستا ہوں جب وہ بندہ یہ کہے گا کہ تو سارے جہان کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو پروردگار ہنس دے گا (اس کی نادانی اور بیوقوفی پر) اور اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا (مذاق کرنا میرے لائق نہیں وہ بندوں کے لائق ہے) بلکہ میں جو چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔
حدیث نمبر: 89
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
ابوالزبیر نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے قیامت کے دن لوگوں کے آنے کے حال کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم قیامت کے دن اس طرح سے آئیں گے یعنی یہ اوپر سب آدمیوں کے۔ پھر سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ پکاری جائیں گی۔ پہلی امت، پھر دوسری امت۔ اس کے بعد ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ (یعنی امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا) وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پروردگار کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہارا مالک ہوں، وہ کہیں گے ہم تجھ کو دیکھیں گے تو تب (معلوم ہو گا) پھر اللہ ان کو ہنستا ہوا دکھائی دے گا اور ان کے ساتھ چلے گا اور سب لوگ اس کے پیچھے ہوں گے اور ہر ایک آدمی کو خواہ وہ منافق ہو یا مومن، ایک نور ملے گا۔ لوگ اس کے ساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے، وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مومن نجات پائیں گے۔ تو پہلا گروہ مومنوں کا (جو ہو گا) ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے (وہ گروہ) ستر ہزار آدمیوں کا ہو گا جن سے حساب و کتاب نہ ہو گا۔ ان کے بعد گروہ خوب چمکتے ستارے کی طرح ہوں گے۔ پھر ان کے بعد کا ان سے کم، یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آ جائے گا اور لوگ شفاعت کریں گے اور جہنم سے وہ شخص بھی نکالا جائے گا جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی نیکی اور بہتری تھی۔ یہ لوگ جنت کے صحن میں ڈال دئیے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے (جس سے) وہ اس طرح اگیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اور ان کی سوز جلن بالکل جاتی رہے گی۔ پھر وہ اللہ سے سوال کریں گے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ اس کے ساتھ دس گنا اور بھی۔

Previous    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.