الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
47. جس نے جاہلیت میں کوئی نیک عمل کیا پھر وہ مسلمان ہو گیا۔
حدیث نمبر: 70
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ انہوں (سیدنا حکیم) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو نیک کام میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے جیسے صدقہ یا غلام کا آزاد کرنا یا ناطہٰ ملانا، ان کا ثواب مجھے ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اسی نیکی پر اسلام لایا ہے جو کہ پہلے کر چکا ہے۔ (یعنی وہ نیکی قائم ہے، اب اس پر اسلام زیادہ ہوا)۔
48. آزمائش سے ڈرانا۔
حدیث نمبر: 71
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گنو کتنے آدمی اسلام کے قائل ہیں؟ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر (دشمنوں کی وجہ سے کوئی آفت آنے سے) ڈرتے ہیں؟ اور بیشک ہم چھ سو آدمیوں سے لے کر سات سو تک ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے شاید مصیبت میں پڑ جاؤ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ایسا ہی ہوا کہ ہم مصیبت میں پڑ گئے یہاں تک کہ بعض ہم میں سے نماز بھی چپکے سے (چھپ کر) پڑھتے۔
49. اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی (اور) عنقریب اسلام پہلی حالت میں لوٹ آئے گا اور وہ دو مسجدوں (مکہ و مدینہ) میں سمٹ کر رہ جائے گا۔
حدیث نمبر: 72
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام غربت میں شروع ہوا اور پھر غریب ہو جائے گا جیسے کہ شروع ہوا تھا اور وہ سمٹ کر دونوں مسجدوں (مکہ مدینہ) کے درمیان میں آ جائے گا، جیسے کہ سانپ سمٹ کر اپنے سوراخ (بل) میں چلا جاتا ہے۔
50. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء۔
حدیث نمبر: 73
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ پہلے پہل جو وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب سچا ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی کا شوق ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں اکیلے تشریف رکھتے، کئی کئی راتوں تک وہاں عبادت کیا کرتے اور گھر میں نہ آتے، اپنا توشہ ساتھ لے جاتے۔ پھر ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ کر آتے اور وہ اتنا ہی اور توشہ تیار کر دیتیں یہاں تک کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی توقع نہ تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی غار حرا میں تھے کہ فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا، اتنا کہ وہ تھک گیا یا میں تھک گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے اور گردن کے بیچ کا گوشت (ڈر اور خوف سے) پھڑک رہا تھا (چونکہ یہ وحی کا پہلا مرحلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عادت نہ تھی، اس واسطے ہیبت چھا گئی) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ مجھے (کپڑوں سے) ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔ انہوں ڈھانپ دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا اس وقت ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے خدیجہ مجھے کیا ہو گیا اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں آپ خوش رہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا یا کبھی رنجیدہ نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم آپ ناطے کو جوڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں (یعنی عیال اور اطفال اور یتیم اور مسکین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کا بار اٹھاتے ہیں) اور نادار کیلئے کمائی کرتے ہیں اور مہمان کی خاطرداری کرتے ہیں اور سچی آفتوں (جیسے کوئی قرض دار یا مفلس ہو گیا یا اور کسی تباہی) میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور وہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی تھے (کیونکہ ورقہ نوفل کے بیٹے تھے اور نوفل اسد کے بیٹے، اور ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا خویلد کی بیٹی تھیں اور خویلد اسد کے بیٹے تھے تو ورقہ اور خدیجہ کے باپ بھائی بھائی تھے) اور جاہلیت کے زمانہ میں وہ نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھنا جانتے تھے، تو جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور بہت بوڑھے تھے، ان کی بینائی (بڑھاپے کی وجہ سے) جاتی رہی تھی۔ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اے چچا! (وہ چچا کے بیٹے تھے لیکن بزرگی کیلئے ان کو چچا کہا اور ایک روایت میں چچا کے بیٹے ہیں) اپنے بھتیجے کی سنو۔ ورقہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیفیت دیکھی تھی سب بیان کی تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی۔ (ناموس سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں) کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں! جب کوئی شخص دنیا میں وہ لے کر آیا، جسے تم لائے ہو (یعنی شریعت اور دین) تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے اور اگر میں اس دن کو پاؤں گا تو اچھی طرح تمہاری مدد کروں گا
حدیث نمبر: 74
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابوسلمہ سے پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن میں سے کیا اترا؟ انہوں نے کہا کہ ((یآیّہا المدثّر)) میں نے کہا کہ یا ((اقرا)) (سب سے پہلے اتری؟) انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا اترا تو انہوں نے کہا کہ ((یآیّہا المدثّر)) میں نے کہا کہ یا ((اقرا)) (سب سے پہلے اتری؟) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں (غار) حرا میں ایک مہینے تک رہا۔ جب میری رہنے کی مدت پوری ہو گئی تو میں اترا اور وادی کے اندر چلا، کسی نے مجھے آواز دی، میں نے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں دیکھا، کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے کسی نے آواز دی، میں نے دیکھا مگر کسی کو نہ پایا۔ پھر کسی نے مجھے آواز دی تو میں نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو وہ ہوا میں ایک تخت پر ہیں یعنی جبرائیل علیہ السلام۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت (ہیبت کے مارے) لرزہ چڑھ آیا۔ تب میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو! انہوں نے کپڑا اڑھا دیا اور پانی (ہیبت دور کرنے کیلئے) میرے اوپر ڈالا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ اے کپڑا اوڑھنے والے۔ کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے۔ اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ ........ (سورۃ: المدثر 1 , 4)۔
51. وحی کا کثرت سے اور لگاتار (مسلسل) نازل ہونا۔
حدیث نمبر: 75
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بیشک اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل پے درپے وحی اتاری حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ اور سب سے زیادہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن نازل ہوئی۔
52. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔
حدیث نمبر: 76
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے ایک سفید براق لایا گیا، اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا، لمبا، گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا، اپنے سم وہاں رکھتا ہے جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے)۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ فرمایا: وہاں میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا، جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر نکلا تو جبرائیل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ پسند کیا تو جبرائیل نے کہا، آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے آسمان پر لے کر گئے، (جب وہاں پہنچے) تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کیلئے کہا، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبرائیل نے کہا کہ جبرائیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے تھے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا اور میں نے آدم علیہ السلام کو دیکھا تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ دوسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کو بلانے کا حکم ہوا تھا؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں حکم ہوا ہے۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو۔ ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا، تو فرشتوں نے کہا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا ان کو بلانے کیلئے پیغام گیا تھا؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں پیغام گیا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا۔ اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور نیک دعا کی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمیں لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا تو فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کہ وہ بلوائے گئے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے ادریس کو اونچی جگہ پر اٹھا لیا (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے)۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون؟ کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ نے ان کو لے کر آنے کیلئے پیغام بھیجا تھا؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا، ہاں! بھیجا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جبرائیل ہوں۔ پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ بیت المعمور سے اپنی پیٹھ کا تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا گناہ نہیں) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں کہ پھر کبھی ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے سدرۃالمنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر قلہ جیسے۔ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے) پھر جب اس درخت کو اللہ تعالیٰ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی۔ پھر اللہ جل جلالہ نے میرے دل میں القاء کیا جو کچھ القاء کیا اور پچاس نمازیں رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں۔ جب میں وہاں سے اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو، کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کیا کہ اے پروردگار! میری امت پر تخفیف کر۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی، تم پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کراؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس طرح برابر اپنے پروردگار کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں، اور ہر ایک نماز میں دس نمازوں کا ثواب ہے۔ تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی اپنے بندوں پر کیسی عنایت ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ملے) اور جو کوئی شخص نیک کام کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کر سکے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو اس کو دس نیکیوں کا اور جو شخص برائی کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرے، تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر لے تو ایک ہی برائی لکھی جائے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس باربار گیا یہاں تک کہ میں اس سے شرما گیا ہوں۔ (یعنی اب جانے سے شرماتا ہوں)۔
53. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرنا۔
حدیث نمبر: 77
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان چل رہے تھے کہ ایک وادی پر گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، (پھر موسیٰ علیہ السلام کا رنگ اور بالوں کا حال بیان کیا جو (راوی حدیث) داؤد بن ابی ہند کو یاد نہ رہا)۔ جو انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے ہوئے، بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی میں سے جا رہے ہیں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم پھر چلے یہاں تک کہ ایک ٹیکری پر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون سی ٹیکری ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ’ ہرشا ‘ کی یا ’ لفت ‘ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا کہ میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ صوف کا ایک جبہ پہنے ہوئے ایک سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے چھال کی ہے، وہ اس وادی میں لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔
حدیث نمبر: 78
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صورت بیان کی۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا (یہ شک راوی ہے) کہ وہ لمبے، چھریرے بدن والے، سیاہ بالوں والے جیسے شنوۃ کے لوگ ہوتے تھے۔ اور فرمایا کہ میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صورت بیان کی کہ وہ درمیانہ قد والے، سرخ رنگت والے جیسے کہ ابھی کوئی حمام سے نکلا ہو (یعنی ایسے تروتازہ اور خوش رنگ) تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا، تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب، اور مجھ سے کہا گیا کہ جس کو چاہو پسند کر لو۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور دودھ پیا تو اس (فرشتے نے جو یہ دونوں برتن لے کر آیا تھا) کہا کہ تم کو فطرت (ہدایت) کی راہ ملی یا تم فطرت (ہدایت) کو پہنچ گئے۔ اور اگر تم شراب کو اختیار کرتے تو تمہاری امت گمراہ ہو جاتی۔
54. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسیح عیسیٰ علیہ السلام اور دجال کا تذکرہ فرمانا۔
حدیث نمبر: 79
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے درمیان مسیح دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: کہ اللہ جل جلالہ کانا نہیں ہے اور مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہے۔ اس کی کانی آنکھ ایسی ہے جیسے پھولا ہوا انگور۔ (پس یہی ایک کھلی نشانی ہے اس بات کی کہ وہ مردود اپنے خدائی دعوے میں جھوٹا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک رات خواب میں میں نے اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا کہ ایک گندمی رنگ کا شخص جیسے کوئی بہت اچھا گندمی رنگ کا شخص ہوتا ہے، اس کے بال کندھوں تک تھے اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی، سر میں سے پانی ٹپک رہا تھا، اور وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مریم کے بیٹے مسیح علیہما السلام ہیں۔ اور ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جو کہ سخت گھونگھریالے بالوں والا، داہنی آنکھ کا کانا تھا۔ میں نے جو لوگ دیکھے ان سب میں ابن قطن اس سے زیادہ مشابہ ہے، وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مسیح دجال ہے۔

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.