(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم , قال: اخبرني عطاء، انه سمع جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" قد توفي اليوم رجل صالح من الحبش، فهلم فصلوا عليه , قال: فصففنا، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم عليه ونحن صفوف"، قال: ابو الزبير، عن جابر، كنت في الصف الثاني.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ تُوُفِّيَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنَ الْحَبَشِ، فَهَلُمَّ فَصَلُّوا عَلَيْهِ , قَالَ: فَصَفَفْنَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَنَحْنُ صُفُوفٌ"، قَالَ: أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، كُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج حبش کے ایک مرد صالح (نجاشی حبش کے بادشاہ) کا انتقال ہو گیا ہے۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کر لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا کہ میں دوسری صف میں تھا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "Today a pious man from Ethiopia (i.e. An Najashi) has expired, come on to offer the funeral prayer." (Jabir said): We lined up in rows and after that the Prophet led the prayer and we were in rows. Jabir added, I was in the second row."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 406
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1320
حدیث حاشیہ: ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا ثابت ہوا۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن حزم ؒ کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت ثابت نہیں اور قیاس بھی اسی کو مقتضی ہے کہ جنازے کی نماز میں دعا کرنا ہے اور دعا کرنے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کے لیے دعا کی جائے وہ ضرور حاضر بھی ہو۔ نبی کریم ﷺ نے شاہ حبش نجاشی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ درست ہے، مگر اس بارے میں علمائے احناف نے بہت کچھ تاویلات سے کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کے لیے زمین کا پردہ ہٹاکر اللہ نے نجاشی کا جنازہ ظاہر کردیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات نبوی سے ہے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خاص نجاشی کے لیے تھا۔ بہر حال یہ تاویلات دورازکار ہیں۔ نبی کریم ﷺ سے نجاشی کے لیے پھر معاویہ بن معاویہ مزنی کے لیے‘ نماز جنازہ غائبانہ ثابت ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں: وأجيب عن ذلك بأن الأصل عدم الخصوصية، ولو فتح باب هذا الخصوص؛ لأنسد كثير من أحكام الشرع. قال الخطابي: زعم أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان مخصوصاً بهذا الفعل فاسد؛ لأن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا فعل شيئاً من أفعال الشريعة كان علينا إتباعه والإيتساء به، والتخصيص لا يعلم إلا بدليل، ومما يبين ذلك أنه - صلى الله عليه وسلم - خرج بالناس إلى الصلاة فصف بهم وصلوا معه، فعلم أن هذا التأويل فاسد. وقال ابن قدامة: نقتدي بالنبي - صلى الله عليه وسلم - ما لم يثبت ما يقتضي اختصاصه۔ (مرعاة) یعنی نجاشی کے لیے آنحضرت ﷺ کی نماز جنازہ غائبانہ کو مخصوص کرنے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اصل میں عدم خصوصیت ہے اور اگر خواہ مخواہ ایسے خصوص کا دروازہ کھولا جائے گا‘ تو بہت سے احکام شریعت یہی کہہ کر مسدود کردئیے جائیں گے کہ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہیں۔ امام خطابی نے کہا کہ یہ گمان کہ نماز جنازہ غائبانہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ مخصوص تھی بالکل فاسد ہے۔ اس لیے کہ جب رسول کریم ﷺ کوئی کام کریں تو اس کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ تخصیص کے لیے کوئی کھلی دلیل ہونی ضروری ہے۔ یہاں تو صاف بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ لوگوں کو ہمراہ لے کر نجاشی کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے۔ صف بندی ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ظاہر ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ ابن قدامہ نے کہا کہ جب تک کسی امر میں آنحضرت ﷺ کی خصوصیت صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو ہم اس میں آنحضرت ﷺ کی اقتدا کریں گے۔ کچھ روایات جن سے کچھ اختصاص پر روشنی پڑسکتی ہے مروی ہیں۔ مگر وہ سب ضعیف اور ناقابل استناد ہیں۔ علامہ ابن حجرؒ نے فرمایا کہ ان پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ اور واقدی کی یہ روایت کہ آنحضرت ﷺ کے لیے نجاشی کے جنازہ اور زمین کا درمیانی پردہ ہٹا دیا گیا تھا بغیر سند کے ہے جو ہرگز استدلال کے قابل نہیں ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایسا ہی لکھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1320
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1972
´جنازہ پر صف بندی کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے بھائی نجاشی کی موت ہو گئی ہے، تو تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو“، (پھر) آپ نے ہماری صف بندی کی جیسے جنازہ پر صف بندی کی جاتی ہے، اور ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1972]
1972۔ اردو حاشیہ: ”صف بندی فرمائی“ یعنی باقاعدہ جنازہ پڑھا، نہ کہ صرف دعا کی۔ غائبانہ نماز جنازہ کی بحث حدیث نمبر 1948 میں گزر چکی ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1972
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1317
1317. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی اور میں دوسری یا تیسری صف میں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1317]
حدیث حاشیہ: بہر حال دو صف ہوں یا تین صف ہر طرح جائز ہے۔ مگر تین صفیں بنانا بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1317
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3877
3877. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس دن حضرت نجاشی ؓ فوت ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”آج ایک نیک آدمی فوت ہو گیاہے۔ اٹھو اور اپنے بھائی اصحمہ کی نماز جنازہ پڑھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3877]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ نجاشی مسلمان ہو گیا تھا۔ جیسا کہ دوسری روایت میں مذکور ہے مگر امام بخاری ؒ اپنی شرط پر نہ ہونے کی وجہ سے اس روایت کو یہاں نہیں لائے اور یہ باب جو قائم کیا اور اس میں جوحدیث بیان کی اس سے بھی اس کا اسلام لانا ثابت ہوا۔ اس حدیث سے نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا بھی ثابت ہوا۔ جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے انکار ی ہیں ان کے پاس منع کی کوئی صریح صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ اصحمہ اس کا لقب تھا اصل نام عطیہ تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3877
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1334
1334. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو چار تکبیریں کہیں۔ یز ید بن ہارون اور عبد الصمد نے بھی سلیم بن حیان سے اصحمہ بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1334]
حدیث حاشیہ: نجاشی حبش کے ہر بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ ہر ملک میں بادشاہوں کے خاص لقب ہوا کرتے ہیں شاہ حبش کا اصل نام اصحمہ تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1334
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1317
1317. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی اور میں دوسری یا تیسری صف میں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1317]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ہم نجاشی کے جنازے کیلیے کھڑے ہوئے اور دو صفیں بنائیں۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2209 (952) اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت جابر ؓ کو تیسری صف کے بارے میں شک تھا کہ وہ تھی یا نہیں، اسی لیے بخاری کی مذکورہ روایت میں أو کا لفظ ذکر کیا گیا ہے، نیز صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں وضاحت ہے کہ آپ نے اپنے پیچھے ہماری صف بندی فرمائی۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3878) واضح رہے کہ جنازے کے لیے امام کے پیچھے تین یا طاق تعداد میں صفیں بنانے کا ذکر کسی صحیح حدیث میں نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1317
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1334
1334. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو چار تکبیریں کہیں۔ یز ید بن ہارون اور عبد الصمد نے بھی سلیم بن حیان سے اصحمہ بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1334]
حدیث حاشیہ: (1) نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہنا متعدد صحابہ کرام ؓ سے مروی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت جابر ؓ سے مروی احادیث کو امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ ان کے علاوہ حضرت ابن عباس، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت ابو امامہ اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے بھی چار تکبیریں کہنے کے متعلق احادیث منقول ہیں۔ بعض صحابہ کرام ؓ سے نو تک تکبیرات کہنا بھی ثابت ہے، لیکن جمہور اہل علم، امام احمد، امام شافعی اور امام مالک ؒ نے چار تکبیروں کو راجح قرار دیا ہے۔ (نیل الأوطار: 714/2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ نماز جنازہ پر چار اور پانچ تکبیریں کہی جاتی تھیں۔ حضرت عمر ؒ نے لوگوں کو چار تکبیریں کہنے پر جمع کر دیا۔ (فتح الباری: 258/3)(2) یزید بن ہارون کی روایت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3879) اور عبدالصمد کی روایت کو اسماعیلی نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری: 259/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1334