457. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے مسجد میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اس پر ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے حجرے میں سنا۔ آپ باہر تشریف لائے اور حجرے کا پردہ اٹھا کر آواز دی: ”اے کعب!“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے قرض میں سے کچھ کم کر دو۔“ اور آپ نے نصف قرض چھوڑ دینے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا حکم سر آنکھوں پر، تب آپ نے ابن ابی حدرد ؓ سے فرمایا: ”اٹھو، اس کا قرض ادا کر دو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:457]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں:
۔
قرض کاتقاضاکرنا۔
اس کے پیچھے پڑنا۔
اس روایت میں تقاضا کرنے کا ذکر ہے، پیچھا کرنے اور گھیراؤ کرنے کا ذکر نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تقاضا اس وقت ہوتاہے جب قرض دار کا گھیراؤ کرلیا جائے۔
پھر روایت کے عنوان سے گھیراؤ کرنے کا ثبوت خودبخود ہورہا ہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ نےحضرت ابن ابی حدرد سے جو گفتگو کی یہ اس انداز سے ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے حجرے سے باہر آکر معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کرنا پڑا۔
اس سے صرف تقاضا ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے پڑنا اور اس کاگھیراؤ کرنا بھی ثابت ہورہا ہے۔
پھر امام بخاری ؒ نے اس روایت کے ایک طریق میں اس کی وضاحت فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت کعب بن مالک کا حضرت عبداللہ بن ابی حدرد کے ذمے کچھ قرض تھا، وہ ان سے ایک دن ملے اور ان کا گھیراؤ کرلیا۔
(صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2424) اس روایت سے پیچھا کرنا بھی ثابت ہوگیا۔
امام بخاری ؒ کی خوبیوں سے ہے کہ حدیث کے تمام طرق میں ان کا ذہن گھومتا رہتا ہے۔
فن حدیث میں کامل ہونے کی یہی علامت ہے، کیونہ جب تک حدیث کے تمام متون اور طرق پر نظر نہ ہو، کوئی مسئلہ پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا۔
2۔
حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سےلکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی حدرد ؓ کے ذمے دواوقیے چاندی تھی۔
ایک اوقیہ چاندی معاف ہونے کے بعد باقی اوقیہ کی فوری ادائیگی کو ضروری قراردیا گیا، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ کسی ضرورت کے پیش نظر مسجد میں باآواز بلند گفتگو کرناجائز ہے۔
البتہ بلاوجہ مسجد میں آواز بلند کرنا درست نہیں، جیساکہ امام بخاری ؒ خود اس کی وضاحت فرمائیں گے۔
(فتح الباري: 714/1)