صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
The Book of Peacemaking
10. بَابُ هَلْ يُشِيرُ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ:
10. باب: کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کر سکتا ہے؟
(10) Chapter. Should the Imam suggest reconciliation?
حدیث نمبر: 2706
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن جعفر بن ربيعة، عن الاعرج، قال: حدثني عبد الله بن كعب بن مالك، عن كعب بن مالك،" انه كان له على عبد الله بن ابي حدرد الاسلمي مال، فلقيه، فلزمه حتى ارتفعت اصواتهما، فمر بهما النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا كعب، فاشار بيده، كانه يقول: النصف، فاخذ نصف ما له عليه وترك نصفا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّهُ كَانَ لَهُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ مَالٌ، فَلَقِيَهُ، فَلَزِمَهُ حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَمَرَّ بِهِمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا كَعْبُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ، كَأَنَّهُ يَقُولُ: النِّصْفَ، فَأَخَذَ نِصْفَ مَا لَهُ عَلَيْهِ وَتَرَكَ نِصْفًا".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا اور ان سے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ عبداللہ بن حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ پر ان کا قرض تھا، ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کا پیچھا کیا، (آخر تکرار میں) دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے کعب! اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، جیسے آپ کہہ رہے ہوں کہ آدھا (قرض کم کر دے) چنانچہ انہوں نے آدھا قرض چھوڑ دیا اور آدھا لیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Ka`b bin Malik from Ka`b bin Malik: `Abdullah bin Abu Hadrad Al-Aslami owed Ka`b bin Malik some money. One day the latter met the former and demanded his right, and their voices grew very loud. The Prophet passed by them and said, "O Ka`b," beckoning with his hand as if intending to say, "Deduct half the debts." So, Ka`b took half what the other owed him and remitted the other half.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 869


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري2706كعب بن مالكأخذ نصف ما له عليه وترك نصفا
   صحيح البخاري2710كعب بن مالكضع الشطر فقال كعب قد فعلت يا رسول الله فقال رسول الله قم فاقضه
   صحيح البخاري2418كعب بن مالكضع من دينك هذا قال لقد فعلت يا رسول الله
   صحيح البخاري457كعب بن مالكضع من دينك هذا قال لقد فعلت يا رسول الله قال قم فاقضه
   صحيح البخاري471كعب بن مالكضع الشطر من دينك قال كعب قد فعلت يا رسول الله قال رسول الله قم فاقضه
   صحيح مسلم3984كعب بن مالكضع الشطر من دينك قال كعب قد فعلت يا رسول الله قال رسول الله قم فاقضه
   سنن أبي داود3595كعب بن مالكقم فاقضه
   سنن النسائى الصغرى5410كعب بن مالكضع من دينك هذا قال قد فعلت قال قم فاقضه
   سنن النسائى الصغرى5416كعب بن مالكأخذ نصفا مما عليه وترك نصفا
   سنن ابن ماجه2429كعب بن مالكدع من دينك هذا فقال قد فعلت قال قم فاقضه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2706 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2706  
حدیث حاشیہ:
اسلامی تعلیم یہی ہے کہ اگر مقروض نادار ہے تو اس کو ڈھیل دینا یا پھر معاف کردینا ہی بہتر ہے۔
جو قرض خواہ کے اعمال خیر میں لکھا جاے گا ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ﴾ (البقرة: 280)
آیت قرآنی کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2706   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2706  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک اخلاقی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جمہور کا موقف ہے کہ حاکم کو صلح کے متعلق حکم دینے کا اختیار ہے اگرچہ فریقین میں سے کسی کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہو جبکہ مالکیہ کا کہنا ہے کہ حاکم کو کسی کی حق تلفی کا اختیار نہیں ہے۔
امام بخاری ؒ کا رجحان پہلے موقف کی طرف ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
(2)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت کعب ؓ کا قرض دو اوقیے چاندی تھا۔
انہوں نے ایک اوقیہ وصول کر کے دوسرا معاف کر دیا۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 780/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2706   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5410  
´حاکم اپنے گھر میں رہ کر بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔`
کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے قرض کا جو ان کے ذمہ تھا تقاضا کیا، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی دیں، آپ اپنے گھر میں تھے، چنانچہ آپ ان کی طرف نکلے، پھر اپنے کمرے کا پردہ اٹھایا اور پکارا: کعب! وہ بولے: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اتنا قرض معاف کر دو اور آپ نے آدھے اشارہ کیا۔ کہا: میں نے معاف کیا، پھر آپ نے (ابن ابی حدرد [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5410]
اردو حاشہ:
(1) کسی ضروت کی بنا پر حاکم یا قاضی وغیرہ اپنے گھر میں یا کمرۂ عدالت سے باہر کوئی فیصلہ کرے تو یہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے کوئی مشکل یا تکلیف وغیرہ نہ ہو۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر بوقت ضرورت کبھی مسجد میں آواز اونچی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، البتہ اس کو معمول بنانا اور خواہ مخواہ اپنی آواز مسجد میں بلند اور اونچی کرنا درست نہیں۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسا اشارہ جس سے مفہوم سمجھ میں آجائے وہ بمنزلہ کلام کے ہوتا ہے کیونکہ اس اشارے کی دلالت کلام پر ہوتی ہے۔ بنا بریں گونگے کی گواہی، اس کی قسم، اس کی خرید و فروخت اور دیگر معاملات درست قرار پائیں گے۔
(4) یہ حدیث اس مسئلے کی بھی وضاحت کرتی ہے ہے کہ اگر صاحب حق سے سفارش کرکے اس کے حق میں سے سارا یا کچھ معاف کرا لیا جائے تو ایسا کرنا شرعاً درست ہے، نیز صاحب حق یا کسی دوسرے شخص کو اگر جائز سفارش کی جائے، تو سے سفارش قبول کر لینی چاہیے۔
(5) مسجد میں ادائیگی قرض کا مطالبہ اور تقاضا کرنا درست ہے، نیز قرض کے علاوہ اپنےدیگر حقوق کا مطالبہ بھی مسجد میں کیا جاسکتا ہے۔
(6) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کی بنا پر کھڑکیوں اور دروازوں پرپردے لٹکانا شرعاً جائز اور درست ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5410   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3595  
´صلح کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد سے اپنے اس قرض کا جو ان کے ذمہ تھا مسجد کے اندر تقاضا کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا آپ اپنے گھر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی طرف نکلے یہاں تک کہ اپنے کمرے کا پردہ اٹھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پکارا اور کہا: اے کعب! تو انہوں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دو، کعب نے کہا: میں نے معاف کر دیا اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3595]
فوائد ومسائل:
فائدہ: قاضی اور حاکم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ عوام کے تنازعات میں ان کی صلح کرا دے۔
اور مالی حقوق میں صاحب حق خوشی سے اگر اپنا حق چھوڑدے تو جائز ہے، صلح میں جبر نہیں ہے۔
 
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3595   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2429  
´قرض کی وجہ سے قید کرنے اور قرض دار کو پکڑے رہنے کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں اونچی ہو گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو آپ گھر سے نکل کر ان کے پاس آئے، اور کعب رضی اللہ عنہ کو آواز دی، تو وہ بولے: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے قرض میں سے اتنا چھوڑ دو، اور اپنے ہاتھ سے آدھے کا اشارہ کیا، تو وہ بولے: میں نے چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اٹھو، جاؤ ان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2429]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرض خواہ مقروض سےقرض کی واپسی کا تقاضا کرسکتا ہے۔

(2)
دوآدمیوں میں کسی بات پرجھگڑا ہو جائے تو صلح کرا دیں چاہیے خاص طورپروہ شخص جس کوجھگڑنے والوں پر کسی قسم کی فضیلت حاصل ہو اوراس کی بات مانی جاتی ہو تو اس کےلیے ضروری ہے کہ جھگڑا ختم کرائے۔

(3)
صلح کے لیے صاحب حق اپنا کچھ حق چھوڑ دے تو بہت ثواب کی بات ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2429   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2418  
2418. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا جو اس کے ذمے تھا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوگئیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے سنیں جبکہ آپ اپنے گھر میں تشریف فرماتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر تشریف لائے اور آواز دی: اے کعب! حضرت کعب ؓ نے جواب دیا: اللہ کےرسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: اپنے قرض میں اتنا کم کردو۔ آپ نے نصف کم کرنے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں نے(آدھا کم) کردیا۔ آپ نے(دوسرے فریق سے) فرمایا: اٹھو اور باقی قرض ادا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2418]
حدیث حاشیہ:
جھگڑا طے کرانے کا ایک بہترین راستہ آپ ﷺ نے اختیار فرمایا۔
اور بے حد خوش قسمت ہیں وہ دونوں فریق جنہوں نے دل و جان سے آپ کا یہ فیصلہ منظور کر لیا۔
مقروض اگر تنگ دست ہے تو ایسی رعایت دینا ضروری ہو جاتا ہے۔
اور صاحب مال کو بہر صورت صبر اور شکر کے ساتھ جو ملے وہ لے لینا ضروری ہوجاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2418   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:457  
457. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے مسجد میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اس پر ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے حجرے میں سنا۔ آپ باہر تشریف لائے اور حجرے کا پردہ اٹھا کر آواز دی: اے کعب! انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے قرض میں سے کچھ کم کر دو۔ اور آپ نے نصف قرض چھوڑ دینے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا حکم سر آنکھوں پر، تب آپ نے ابن ابی حدرد ؓ سے فرمایا: اٹھو، اس کا قرض ادا کر دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:457]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں:
۔
قرض کاتقاضاکرنا۔
اس کے پیچھے پڑنا۔
اس روایت میں تقاضا کرنے کا ذکر ہے، پیچھا کرنے اور گھیراؤ کرنے کا ذکر نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ تقاضا اس وقت ہوتاہے جب قرض دار کا گھیراؤ کرلیا جائے۔
پھر روایت کے عنوان سے گھیراؤ کرنے کا ثبوت خودبخود ہورہا ہے کہ حضرت کعب بن مالک ؓ نےحضرت ابن ابی حدرد سے جو گفتگو کی یہ اس انداز سے ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے حجرے سے باہر آکر معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ کرنا پڑا۔
اس سے صرف تقاضا ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے پڑنا اور اس کاگھیراؤ کرنا بھی ثابت ہورہا ہے۔
پھر امام بخاری ؒ نے اس روایت کے ایک طریق میں اس کی وضاحت فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت کعب بن مالک کا حضرت عبداللہ بن ابی حدرد کے ذمے کچھ قرض تھا، وہ ان سے ایک دن ملے اور ان کا گھیراؤ کرلیا۔
(صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2424)
اس روایت سے پیچھا کرنا بھی ثابت ہوگیا۔
امام بخاری ؒ کی خوبیوں سے ہے کہ حدیث کے تمام طرق میں ان کا ذہن گھومتا رہتا ہے۔
فن حدیث میں کامل ہونے کی یہی علامت ہے، کیونہ جب تک حدیث کے تمام متون اور طرق پر نظر نہ ہو، کوئی مسئلہ پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا۔

حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سےلکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی حدرد ؓ کے ذمے دواوقیے چاندی تھی۔
ایک اوقیہ چاندی معاف ہونے کے بعد باقی اوقیہ کی فوری ادائیگی کو ضروری قراردیا گیا، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ کسی ضرورت کے پیش نظر مسجد میں باآواز بلند گفتگو کرناجائز ہے۔
البتہ بلاوجہ مسجد میں آواز بلند کرنا درست نہیں، جیساکہ امام بخاری ؒ خود اس کی وضاحت فرمائیں گے۔
(فتح الباري: 714/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 457   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:471  
471. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد میں، مسجد نبوی میں ابن ابی حدرد ؓ سے اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان آوازوں کو اپنے حجرے میں سنا۔ پھر آپ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر تشریف لائے۔ بعد ازاں آواز دی اور فرمایا: "اے کعب!" حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنے قرض سے آدھا چھوڑ دو۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے (ابن ابی حدرد ؓ) سے فرمایا:"جاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:471]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ احادیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کو ذکر کر کے تفصیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر آواز کا بلند کرنا بلا ضرورت ہو تو جائز نہیں اور اگر کسی ضرورت کے پیش نظر ہو تو جائز ہے۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان مطلق طور پر ممانعت کی طرف ہو کیونکہ جس روایت میں آواز بلند کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انکار نہ کرنے کی بات معلوم ہو رہی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فوراًمسئلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہ جھگڑا ختم کردیا جس کی وجہ سے مسجد میں آواز یں بلند ہو رہی تھیں۔
اس طرز عمل سےیہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے عمل کے ذریعے سے یعنی مسئلہ ختم کرنے کے لیے فوری خلت فرما کر مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت واضح فرما دی(حاشیہ سندھی(1/93)
لیکن ہمارے نزدیک علامہ سندھی کا پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہےکیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں تفصیل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق کی رعایت بھی ہے کہ وہ دونوں روایات جمع کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہو اور اعتدال قائم رہے تو اس کی اجازت ہے اور اگر ضرورت نہ ہو یا آواز حد اعتدال سے اونچی ہو جائے اور شورو غوغاکی صورت پیدا ہو جائے تو اس کی اجازت نہیں۔
آپ نے اس عنوان کے تحت دو روایات ذکر کی ہیں اور دونوں سے متضاد باتیں سمجھ میں آتی ہیں پہلی روایت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز بلند کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی بلکہ جلد از جلد معاملے کا فیصلہ فرما کر بات ختم کردی۔
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں تفصیل کی طرف مائل ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مسجد میں آواز بلند کرنے کی کراہت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ عمل اہل تقوی کے شایان شان نہیں۔

پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے سزا دینے میں درگزر فرمایا کیونکہ انھیں اس مسئلے کاعلم نہیں تھا بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں تمھیں کوڑے مارنے کی سزا دیتا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بڑی بے باکی سے بلا ضرورت شور و غل کر رہے ہو۔
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت مرفوع حدیث کا درجہ حاصل ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوڑوں کی سزا دینے پر آمادہ تھے۔
اس قسم کی سزا کی دھمکی صرف ایسے امر کی مخالفت پر دی جا سکتی ہے جو توفیقی ہو۔
(فتح الباری: 1/726۔
)


دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر رعایت دے سکتا ہو اس سے بخل نہیں کرنا چاہیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
)

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ)
\\\"اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے آسودہ حالی تک مہلت دو، اگر (راس المال)
صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔
\\\"(البقرۃ: 2/280۔
)

مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پورا قرض ادا کرکے خود کو اس بوجھ سے آزاد کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دانستہ ٹال مٹول کو ظلم قراردیا ہے اس کی وجہ سے اس کی بے عزتی بلکہ اسے سزا دی جا سکتی ہے۔ w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 471   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2418  
2418. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا جو اس کے ذمے تھا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوگئیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے سنیں جبکہ آپ اپنے گھر میں تشریف فرماتھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر تشریف لائے اور آواز دی: اے کعب! حضرت کعب ؓ نے جواب دیا: اللہ کےرسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: اپنے قرض میں اتنا کم کردو۔ آپ نے نصف کم کرنے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں نے(آدھا کم) کردیا۔ آپ نے(دوسرے فریق سے) فرمایا: اٹھو اور باقی قرض ادا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2418]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے فریقین کے درمیان جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایک بہترین راستہ اختیار فرمایا۔
مقروض اگر تنگ دست ہو تو اسے رعایت دینا ضروری ہے اور ایسے حالات میں صاحب مال کو جو کچھ ملے اسے صبروشکر سے قبول کر لینا چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا اس طرح ثابت کیا ہے کہ ان دونوں حضرات کی آوازیں جھگڑے کی بنا پر بلند ہونے لگیں۔
بعض روایات میں صراحت ہے کہ وہ دونوں آپس میں تکرار کرنے اور جھگڑنے لگے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی جھگڑے میں مدعی اور مدعا علیہ ایک دوسرے کو سخت سست کہیں تو ایسا ممکن ہے لیکن وہ اخلاقی اور شرعی حدود سے آگے نہ بڑھیں۔
(فتح الباري: 94/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2418   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2710  
2710. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابن ابی حدرد ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد کے اندر اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اس دوران میں ان دونوں کی آوازیں اس قدر بلند ہوئیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے گھر میں سماعت فرمایا۔ آپ اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے، چنانچہ آپ باہر تشریف لائے اوراپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر حضرت کعب بن مالک ؓ کو آواز دی: اے کعب! انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آدھا قرض معاف کردو۔ حضرت کعب ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں نے ایسا کردیا۔ آپ نے مقروض سے فرمایا: اٹھو اور باقی ماندہ قرض ادا کردو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2710]
حدیث حاشیہ:
قرض کے متعلق صلح کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کچھ کمی کر دی جائے۔
اس کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ ہے کہ آئندہ ادائیگی کے وعدے پر اس میں کمی کر دی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاتے ہی حضرت کعب بن مالک ؓ نے اپنے مقروض کا نصف قرض معاف کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اٹھو اور باقی ماندہ نصف جلد ادا کر دو۔
دوسری یہ ہے کہ نقد ادا کرنے پر اس میں سے کچھ کم کر دیا جائے، یعنی تین سو روپے قرض کی فوری ادائیگی پر ایک سو روپیہ چھوڑ دیا جائے، دو سو روپیہ وصول کر کے مقروض کو رہا کر دیا جائے۔
حدیث میں نقد ادائیگی کا ذکر نہیں ہے۔
امام بخاری ؒ نے نقد کو قرض پر قیاس کیا ہے۔
جب قرض میں صلح ہو سکتی ہے تو نقد ادائیگی میں بطریق اولیٰ صلح ہونی چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2710   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.