کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: مشروبات کے بیان میں
The Book of Drinks
6. بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ يَسْتَحِلُّ الْخَمْرَ وَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ:
6. باب: اس شخص کی برائی کے بیان میں جو شراب کا نام بدل کر اسے حلال کرے۔
(6) Chapter. What is said regarding the one who regards an alcoholic drink lawful to drink, and calls it by another name.
حدیث نمبر: 5590
Save to word اعراب English
(مرفوع) وقال هشام بن عمار، حدثنا صدقة بن خالد، حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، حدثنا عطية بن قيس الكلابي، حدثنا عبد الرحمن بن غنم الاشعري، قال: حدثني ابو عامر او ابو مالك الاشعري، والله ما كذبني سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليكونن من امتي اقوام يستحلون الحر، والحرير، والخمر، والمعازف ولينزلن اقوام إلى جنب علم يروح بسارحة لهم ياتيهم يعني الفقير لحاجة، فيقولون ارجع إلينا غدا، فيبيتهم الله ويضع العلم ويمسخ آخرين قردة، وخنازير إلى يوم القيامة".(مرفوع) وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا عَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ الْكِلَابِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ، وَالْحَرِيرَ، وَالْخَمْرَ، وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ، فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً، وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
اور ہشام بن عمار نے بیان کیا کہ ان سے صدقہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن یزید نے، ان سے عطیہ بن قیس کلابی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن غنم اشعری نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابوعامر رضی اللہ عنہ یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: اللہ کی قسم! انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu 'Amir or Abu Malik Al-Ash'ari: that he heard the Prophet saying, "From among my followers there will be some people who will consider illegal sexual intercourse, the wearing of silk, the drinking of alcoholic drinks and the use of musical instruments, as lawful. And there will be some people who will stay near the side of a mountain and in the evening their shepherd will come to them with their sheep and ask them for something, but they will say to him, 'Return to us tomorrow.' Allah will destroy them during the night and will let the mountain fall on them, and He will transform the rest of them into monkeys and pigs and they will remain so till the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 69, Number 494


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5590 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5590  
حدیث حاشیہ:
یہ ساری برائیاں آج عام ہو رہی ہیں گانا بجانا، ریڈیو نے گھر گھر عام کر دیا ہے۔
شراب نوشی عام ہے، زنا کاری کی حکومتیں سرپرستی کرتی ہیں۔
ان کے نتیجہ میں وادی سوات پاکستان میں زلزلہ اور ہماچل پردیش کا زلزلہ ہندوستان میں عبرت کے لیے کافی ہے۔
لڑکوں کا لڑکیوں کی شکل میں تبدیل ہونا اور لڑکیوں کا لڑکوں جیسا حلیہ بنانا بھی عام ہو رہا ہے۔
اسی لیے صورتیں مسخ ہوتی جا رہی ہیں اور عذاب مختلف صورتوں میں بدل کر ہم پر نازل ہو رہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5590   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری 5590  
گانے بجانے اور فحاشی کی حرمت
✿ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو «لهو الحديث» خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو جہالت کے ساتھ اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیں اور (دین اسلام سے) استہزاء کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔ [سورة لقمان: 6]
اس آیت مبارکہ میں «لهو الحديث» کی تشریح میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «الغناء والذي لا إله الا هو» اس ذات کی قسم جس کے سوا دوسرا کوئی الہ نہیں ہے، اس آیت ميں «لهو الحديث» سے مراد «غناء» (گانا بجانا) ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 6/ 309ح21123 وسنده حسن]
اس اثر کو امام حاکم رحمہ اللہ اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔ [المستدرك: 2/ 411 ح 3546]
عکرمہ (تابعی) فرماتے ہیں: «هو الغناء» یہ غنا (گانا) ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/ 310 ح 21127 وسنده حسن]
✿ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے، جو کہ دین حق کے مخالف ہیں فرماتے ہیں: ﴿وَأَنْتُمْ سَامِدُونَ﴾ اور تم غفلت میں پڑے ہو۔ [53-النجم: 61]
اس آیت کی تشریح میں مفسر قرآن حبر الامت امام عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «هو الغناء بالحميرية، اسمدي لنا: تغني لنا» «سامدون» سے مراد حمیری زبان میں گانا بجانا ہے۔ «اسمدي» لنا کا مطلب ہے، ہمارے لئے گاؤ۔ [السنن الكبري للبيهقي: 101/ 223 و سند قوي/صحيح، رواه يحيي القطان عن سفيان الثوري به]
❀ سیدنا ابوعامر یا ابومالک الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں ایسی قومیں ضرور پیدا ہوں گی جو زنا، ریشم، شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گی اور بعض قومیں پہاڑ کے پاس رہتی ہوں گی اور جب شام کو اپنا ریوڑ لے کر واپس ہوں گی۔ اس وقت ان کے پاس کوئی ضرورت مند (فقیر) آئے گا تو کہیں گے: کل صبح ہمارے پاس آؤ، اللہ تعالیٰ انہیں رات کو ہی ہلاک کر دے گا اور پہاڑ کو گرا دے گا اور باقیوں کو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دے گا اور قیامت تک اسی حال میں رہیں گے۔ [صحيح بخاري: 2/ 837ح5590، صحيح ابن حبان ح 6719]
اس حدیث کے بارے میں شیخ ابن الصلاح فرماتے ہیں: «و الحديث صحيح معروف الاتصال بشرط الصحيح» یہ حدیث صحیح کی شرط کے ساتھ صحیح متصل مشہور ہے۔ [مقدمه ابن الصلاح ص 90 مع شرح العراقي]
اس حدیث پر حافظ ابن حزم وغیرہ کی جرح مردود ہے۔
صحیحین (صحيح بخاري، و صحيح مسلم) کی تمام مرفوع باسند متصل روایات یقیناًً صحیح اور قطعی الثبوت ہیں۔
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله حر م عليكم الخمر و الميسر و الكوبة . . كل مسكر حرام» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک اللہ نے تمہارے اوپر شراب، جوا اور کُوبہ حرام کیا ہے اور فرمایا: ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے۔ [مسند احمد 2691، 350 ح 3274 وإسناده صحيح ح 3274 وسنن أبى داود: 3696]
اس کے ایک راوی علی بن بذیمہ فرماتے ہیں کہ «الكوبة» سے مراد «الطبل» یعنی ڈھول ہے۔ [سنن ابي داؤد: 2/ 164 و إسناده صحيح]
❀ سیدنا عبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن الله عزوجل حر م الخمر و الميسر و الكو بة والغبيراء و كل مسكر حرام» بے شک اللہ عزوجل نے خمر (شراب) جوا، ڈھولکی بجانا اور مکی کی شراب حرام قرار دیا ہے اور ہر نشہ دینے والی چیز حرام ہے۔ [مسند احمد 2/ 171 ح 6591م، و سنده حسن]
اس روایت کا راوی عمر و بن الولید بن عبدہ جمہور کے نزدیک ثقہ و موثق ہے لہٰذا اس کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی۔
❀ محمود بن خالد الدمشقی نے صحیح سند کے ساتھ امام نافع سے نقل کیا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں اور فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ [سنن ابي داؤد: 2/ 326 ح 4924 و إسناده حسن و المعجم الكبير للطبراني: 1/ 13 و تحريم النرود الشطرنج و الملاهي للآجري ح 65، مسند احمد 2/ 38ح 4965، السنن الكبري للبيهقي: 1/ 222]
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن الوزیر الیمانی نے توضیح الافکار [ج 1 ص 150] میں لکھا ہے کہ: «صحيح على الأصح» سب سے صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صوتان معلونان فى الدنيا وال آخرة، مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة» دو آوازوں پر دنیا اور آخرت (دونوں) میں لعنت ہے۔ خو شی کے وقت باجے کی آواز اور غم کے وقت شور مچانا اور پیٹنا۔ [كشف الاستار عن زوائد: 1/ 377]
اس حدیث کی سند حسن ہے۔
◈ حافظ منذری فرماتے ہیں: «ورواته ثقات» اور اس کے راوی ثقہ اور (قابل اعتماد) ہیں۔
◈ حافظ ہثمی نے فرمایا: «ورجاله ثقات» یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد: 3/ 13]
ان آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ وغیرہ کی روشنی میں محقق علماء نے فیصلہ کیا ہے کہ گانے بجانے کے آلات اور ان کا استعمال بالقصد (جان بوجھ کر سننا) حرام ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 999   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5590  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5590 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ يَسْتَحِلُّ الْخَمْرَ وَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں شربت اور شہد کا ذکر فرمایا ہے اور تحت الباب دو آثار اور ایک حدیث ذکر فرمائی۔ پہلا اثر امام زہری رحمہ اللہ سے منقول ہے، اور دوسرا اثر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ترجم على شيئى وأعقبه بضده وبضدها تتبين الاشياء ثم عاد وما يطابق الترجمة نصباً.» [فتح الباري لابن حجر: 99/11]
یعنی بول اور خمر دونوں ہی حرام ہیں اور حلوہ اور عسل دونوں حلال ہیں اور طیب ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے حلوہ اور عسل کے بعد حرام کا ذکر فرمایا، کیونکہ «وبضدها تتبين الاشياء»

بعض حضرات ترجمة الباب اور آثار میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
امام زہری رحمہ اللہ کے قول سے قرآن کریم کی آیت مبارکہ «احل لكم الطيبات» کی طرف اشارہ مقصود ہے اور ظاہر ہے کہ «حل» اور «عسل» طیبات میں سے ہیں۔ [فتح الباري لابن حجر: 67/99]
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث ام المؤمنین سے نقل فرمائی ہے اس کی مناسبت واضح ہے اور اس میں حلوا سے مراد ہر میٹھی چیز ہے۔

لہٰذا ترجمة الباب اور تحت الباب آثار میں مناسبت یہ ہو گی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں حلال اشیاء کے ذکر کے بعد تحت الباب «بضدها تبتين الاشياء» کا ذکر کرتے ہیں، تاکہ واضح ہو جائے کہ کون سی اشیاء حلال ہیں اور کون سی اشیا حرام، یہ بھی یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں حلوہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد وہ حلوہ ہے جو مائع نہ ہو بلکہ اسے پیا جائے، چنانچہ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«والأوجه عندي: أن المراد فى الترجمة بشراب الحلواء والعسل الماء المخلوط بشيئى خلو الذى يقال فى الهندية شربت و شربت العسل معروف فى ديارنا.» [الابواب و التراجم: 99/6]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں جو حلوہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، اس سے شربت مراد ہے، یعنی ہر وہ پانی جس میں کوئی میٹھی چیز ملا دی جائے، ہندوستان میں شربت اور شربت عسل کے نام سے شربت مشہور ہیں۔

لہٰذا حلوہ ہمارے عرف میں پینے کی چیز نہیں ہے بلکہ اسے کھایا جاتا ہے کیوں کہ وہ مانع نہیں ہوتا، لہٰذا ترجمۃ الباب میں حلوہ مائع مراد ہے جو پیا جاتا ہے جیسے نقیع تمر، نقیع زبیب اور شربت عسل وغیرہ۔ [ارشاد الساري: 58/9]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 144   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5590  
حدیث حاشیہ:
(1)
حرام چیز کا نام بدل دینے سے اس کا حکم تبدیل نہیں ہو جاتا جیسا کہ سود کا نام منافع یا مارک اپ رکھ دیا جائے تو اس کی حقیقت نہیں بدلتی، اسی طرح شراب کو مشروب یا شربت کہنے سے یا اور کوئی نام رکھ لینے سے وہ حلال نہیں ہو جاتی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں واضح الفاظ میں پیش گوئی فرمائی ہے، آپ نے فرمایا:
رات دن کا نظام ختم نہیں ہو گا حتی کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب نوشی کریں گے لیکن اسے اس کے نام کے سوا دوسرے نام سے پکاریں گے۔
(سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3384)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام کچھ اور رکھ لیں گے۔
(سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3688) (2)
افسوس کہ حدیث میں مذکور تمام برائیاں آج عام ہو رہی ہیں۔
گانا بجانا اور شراب نوشی عام ہے، زنا کاری کے اڈے تو حکومتی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے محفوظ رکھے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5590   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.