سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا جو میری کھجوریں کٹنے تک مجھے قرض دیا کرتا تھا، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس وہ زمین تھی جو بئررومہ کے راستہ میں تھی۔ ایک سال خالی گزرا، اس زمین میں کھجوریں کم ہوئیں اور وہ سال گزر گیا۔ کٹائی کے وقت یہودی میرے پاس آیا اور میں اس میں سے کچھ نہ کاٹنے پایا تھا (میوہ بہت کم تھا) اس میں سے آئندہ سال تک مہلت مانگنے لگا لیکن وہ نہ مانا۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کہا کہ چلو جابر رضی اللہ عنہ کو یہودی سے مہلت دلا دیں۔ وہ سب میرے باغ میں تشریف لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی سے گفتگو کرنے لگے، وہ کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم! میں جابر کو مہلت نہیں دوں گا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو دیکھا (کہ نہیں مانتا) تو کھڑے ہو کے باغ کے چاروں طرف پھرے اور یہودی سے دوبارہ گفتگو کی لیکن وہ راضی نہ ہوا تو میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تر کھجوریں لایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھائیں پھر فرمایا: ”اے جابر! تیرے باغ کی جھونپڑی کہاں ہے؟“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگہ بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہاں میرے لیے بچھونا کر دے۔“ میں نے (فوراً) بستر بچھا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جا کر سو گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو میں مٹھی بھر کھجوریں اور لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھا لیں پھر کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو کی مگر وہ پھر بھی نہ مانا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری مرتبہ کھجوروں کے درختوں میں جا کھڑے ہوئے پھر فرمایا: ”اے جابر! کاٹتا جا اور دیتا جا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاٹنے کی جگہ بیٹھ گئے میں نے اتنی کھجوریں کاٹیں کہ اس کا قرض ادا ہو گیا اور اسی قدر اور بچ گئیں۔ میں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشخبری سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوش ہو کے) فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔“