وعن عمران بن حصين رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم صلى بهم فسها فسجد سجدتين ثم تشهد ثم سلم رواه ابو داود والترمذي وحسنه والحاكم وصححه.وعن عمران بن حصين رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم صلى بهم فسها فسجد سجدتين ثم تشهد ثم سلم رواه أبو داود والترمذي وحسنه والحاكم وصححه.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہو ہو گیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے) تو (پہلے) دو سجدے کئے پھر تشہد پڑھا اور پھر سلام پھیرا۔ اسے ابوداؤد، ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
हज़रत इमरान बिन हुसैन रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने उन्हें नमाज़ पढ़ाई तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को सहु हो गया (यानी आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम भूल गए) तो (पहले) दो सज्दे किये फिर तशहहुद पढ़ा और फिर सलाम फेरा। इसे अबू दाऊद, त्रिमीज़ी ने रिवायत किया है और त्रिमीज़ी ने इसे हसन ठहराया है और हाकिम ने इसे सहीह ठहराया है।
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:571.»
Narrated 'Imran bin Husain (RA):
The Prophet (ﷺ) led them [the Companions (RA)] in prayer and forgot (something). He then made two prostrations and then said the Tashahhud and uttered the Taslim (salutation). [Reported by Abu Dawud, and at-Tirmidhi who graded it Hasan (good), and al-Hakim who graded it Sahih (authentic)].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 264
تخریج: «أخرجه مسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:571.»
تشریح: 1. نماز میں بھول لاحق ہونے والا واقعہ وہی ہے جس میں ذوالیدین نے دریافت کیا تھا کہ کیا نماز کم ہوگئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ 2. ذوالیدین والا واقعہ صحیحین اور سنن کی تمام کتب میں مذکور ہے۔ 3. کسی کتاب میں مروی حدیث میں سجود سہو کے بعد تشہد کا کہیں ذکر نہیں بلکہ صحیح مسلم میں خود حضرت عمران کی اسی روایت میں تشہد کا ذکر نہیں ہے‘ اس لیے صحیح یہ ہے کہ ترمذی کی اس روایت میں تشہد کا لفظ شاذ ہے جیسا کہ امام بیہقی اور شیخ البانی رحمہما اللہ وغیرہ نے کہا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ المساجد‘ حدیث:۵۷۴)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 264