85. باب: مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی دعا اور اس کی حرمت اور اس کے شکار، اور درخت کاٹنے کی حرمت، اور اس کے حدود حرم کا بیان۔
Chapter: The virtue of Al-Madinah and the Prophet's Prayer for it to be blessed. Its sanctity and the sanctity of its game and trees. The Boundaries of its sanctuary
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عثمان بن حكيم ، حدثني عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني احرم ما بين لابتي المدينة ان يقطع عضاهها، او يقتل صيدها "، وقال: " المدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، لا يدعها احد رغبة عنها، إلا ابدل الله فيها من هو خير منه، ولا يثبت احد على لاوائها وجهدها، إلا كنت له شفيعا، او شهيدا يوم القيامة "،حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا، أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا "، وَقَالَ: " الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "،
عبد اللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عثمان بن حکیم نے حدیث بیان کی (کہا)۔مجھ سے عامر بن سعد نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں مدینہ کی دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیانی حصے کو حرا م ٹھہرا تا ہوں کہ اس کے کا نٹے دار درخت کاٹے جا ئیں یا اس میں شکار کو مارا جا ئے۔اور آپ نے فرمایا: " اگر یہ لو گ جا ن لیں تو مدینہ ان کے لیے سب سے بہتر جگہ ہے۔کوئی بھی آدمی اس سے بے رغبتی کرتے ہو ئے اسے چھوڑ کر نہیں جا تا مگر اس کے بدلے میں اللہ تعا لیٰ ایسا شخص اس میں لے آتا ہے جو اس (جا نے والے) سے بہتر ہو تا ہے اور کوئی شخص اس کی تنگدستی اور مشقت پر ثابت قدم نہیں رہتا مگر میں قیامت کے دن اس کے لیے سفارشی یاگواہ ہوں گا۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرم قرار دیتا ہوں، مدینہ کی دونوں حدوں کے درمیانی علاقہ کو، اس کے خار دار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے شکار کو قتل نہ کیا جائے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے، اگر وہ (اس کی خیر و برکت کو) جانتے ہوں، کوئی انسان اس کو بے نیازی اختیار کرتے ہوئے نہیں چھوڑے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ، اس سے بہتر بندے کو بھیج دے گا، (جانے والا ہی خیر و برکت سے محروم ہو گا، اس کے جانے سے مدینہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی) اور جو کوئی بندہ اس کی تنگیوں ترشیوں اور مشقتوں پر صبر کر کے وہاں پڑا رہے گا، تو میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا، اور اس کے حق میں شہادت دوں گا۔“
أحرم ما بين لابتي المدينة يقطع عضاهها يقتل صيدها المدينة خير لهم لو كانوا يعلمون لا يدعها أحد رغبة عنها إلا أبدل الله فيها من هو خير منه لا يثبت أحد على لأوائها وجهدها إلا كنت له شفيعا أو شهيدا يوم القيامة
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3318
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) عِضَاهٌ، عِضَاهَةٌ اورعِضْهٰةٌ کی جمع ہے، بڑا کانٹے دار درخت۔ (2) لَاَوَاءٌ: بھوک اورتنگدستی۔ (3) جَهْدٌ: مشقت وکلفت۔ فوائد ومسائل: 1۔ اس حدیث اور اس کے ہم معنی دوسری حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ طیبہ کا علاقہ بھی حرم ہے، اور واجب الاحترام ہے، اور اس میں ہر وہ عمل اور اقدام منع ہے جو اس کی عظمت اور حرمت کے خلاف ہو، اس کے درختوں کا کاٹنا اور جانوروں کا شکار کرنا جائز نہیں ہے۔ ائمہ ثلاثہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مؤقف ہے، لیکن ائمہ احناف کے نزدیک درختوں کا کاٹنا اور جانوروں کا شکار کرنا جائز ہے، یہ محض اس کی زیبائش اور زینت کے خلاف ہے۔ 2۔ مدینہ منورہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جو انسان وہاں کی دقتوں اور کلفتوں اور بھوک وشدت کو صبر وسکون سے برداشت کرے گا وہ وہاں کی خیرات وبرکات سے متمتع ہو گا اور اسے یہ شرف حاصل ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اس کی سفارش کریں گے، کہ اس کے قصور اور اس کی خطائیں معاف کردی جائیں، اور اس کو بخش دیا جائے اور اس کے اعمال صالحہ اورایمان اور اس کے صبر وشکیب کی شہادت دیں گے، یا نیک اور اطاعت گزار لوگوں کے لیے شہادت دیں گے اور اہل معاصی کے لیے سفارش فرمائیں گے۔