حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت عاصم بن عبيد الله من آل عمر بن الخطاب، يحدث عن عبيد مولى لابي رهم، عن ابي هريرة: انه لقي امراة، فوجد منها ريح إعصار طيبة، فقال لها ابو هريرة: المسجد تريدين؟ قالت: نعم، قال: وله تطيبت؟ قالت: نعم. قال ابو هريرة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من امراة تطيبت للمسجد فيقبل الله لها صلاة حتى تغتسل منه اغتسالها من الجنابة" ، فاذهبي فاغتسلي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ مِنْ آلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، يُحَدِّثُ عَنْ عُبَيْدٍ مَوْلًى لِأَبِي رُهْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّهُ لَقِيَ امْرَأَةً، فَوَجَدَ مِنْهَا رِيحَ إِعْصَارٍ طَيِّبَةً، فَقَالَ لَهَا أَبُو هُرَيْرَةَ: الْمَسْجِدَ تُرِيدِينَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: وَلَهُ تَطَيَّبْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنَ امْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ لِلْمَسْجِدِ فَيَقْبَلُ اللَّهُ لَهَا صَلَاةً حَتَّى تَغْتَسِلَ مِنْهُ اغْتِسَالَهَا مِنَ الْجَنَابَةِ" ، فَاذْهَبِي فَاغْتَسِلِي.
ابورہم کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سامنا ایک ایسی خاتون سے ہوگیا جس نے خوشبو لگا رکھی تھی؟ انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارا مسجد کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا جی ہاں انہوں نے پوچھا کیا تم نے اسی وجہ سے خوشبولگا رکھی ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو عورت اپنے گھر سے خوشبو لگا کر مسجد کے ارادے سے نکلے اللہ اس کی نماز کو قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس جا کر اسے اس طرح دھوئے جیسے ناپاکی کی حالت میں غسل کیا جاتا ہے لہٰذا تم جا کر اسے دھو دو۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف لضعف عاصم بن عبدالله.