فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3451
اردو حاشہ:
(1) حدیث: 3451 میں عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب اپنے دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کررہے ہیں اور 3452 میں اپنے والد عبداللہ بن کعب سے۔ دونوں طرح صحیح ہے کیونکہ عبدالرحمن کا سماع ا پنے باپ عبداللہ بن کعب اور دادا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دونوں سے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہدی الساری میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح روایت کو اس مذکورہ سند (3451) سے لائے ہیں۔ اس میں عبدالرحمن نے اپنے دادا سے سماع کی تصریح کی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الجھاد‘ حدیث: 2948)
(2) صریح لفظ طلاق بولا جائے تو طلاق ہی مراد ہوگی‘ نیت ہو یا نہ مگر کچھ ایسے الفاظ ہیں جن سے طلاق مراد لی جا سکتی ہے اور کوئی اور معنیٰ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ ان الفاظ سے طلاق تب واقع ہوگی جب نیت طلاق کی ہو۔ ان کو کنایات طلاق کہتے ہیں۔ حدیث میں مذکورہ الفاظ بھی اسی قبیل سے ہیں۔ چونکہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی‘ لہٰذا ان الفاظ (اپنے گھر چلی جا) سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3451
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3453
´شوہر بیوی سے کہے ”جاؤ اپنے گھر والوں میں رہو“ اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے (اور وہ ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی ہے ۱؎، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں ۲؎ کے پاس (ایک شخص کو) بھیجا (اس نے کہا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیویوں سے الگ رہو، میں نے قاصد سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3453]
اردو حاشہ:
(1) ”اس کے قریب نہ جانا“ یعنی جماع وغیرہ نہ کرنا۔ بیوی سے بول چال منع نہ تھی۔ حضرت کعب چونکہ نوجوان تھے‘ انہوں نے خطرہ محسوس فرمایا کہ پاس رہنے کی صورت میں کہیں جماع وغیرہ نہ ہوجائے‘ اس لیے انہوں نے از خود ہی بیوی کو میکے بھیج دیا۔
(2) ”جن کی توبہ قبول ہوئی“ غزوہ تبوک میں جہاد پر جانا فرض عین ہوگیا تھا‘ لہٰذا جو نہیں گئے‘ ان سے پوچھ گچھ ہوئی۔ منافقین توجھوٹ بول کر جان چھڑا گئے مگر جو تین مخلص مسلمان سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے‘ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی‘ کوئی عذر نہیں گھڑا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سپرد کردیا۔ رسول اللہﷺ نے تمام اسلامی معاشرے کو ان کے بائیکاٹ کا حکم دے دیا‘ کوئی ان سے سلام دعا تک نہ کرتا تھا حتیٰ کہ ان پر زمین تنگ ہوگئی مگر یہ اللہ او ر اس کے رسول کے وفادار رہے۔ آخر پچاس دن کی صبر آزمائش کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت کا حکم اترا اور ان کی آزمائش ختم ہوئی۔ ان بزرگوں نے ایسی سخت ترین آزمائش میں صبر عظیم کا مظاہرہ کیا اور جنت کے حق دار پائے۔ ان کے نام یہ ہیں: حضرت کعب بن مالک‘ حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهم وَأَرْضَاهمُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3453
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3454
´شوہر بیوی سے کہے ”جاؤ اپنے گھر والوں میں رہو“ اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا قصہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں جاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے اور شریک نہ ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے ذکر کرنے کے دوران انہوں نے بتایا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، میں نے (اس سے) کہا: میں اسے طلا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3454]
اردو حاشہ:
یونس بن یزید‘ اسحاق بن راشد‘ عقیل بن خالد اور معقل بن عبیداللہ چاروں امام زہری کے شاگرد ہیں۔ یونس‘ اسحاق اور عقیل نے اس روایت کو عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب عن ابیہ (عبداللہ بن کعب) کی سند سے بیان کیا ہے جب کہ معقل نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب عن عمہ (عبیداللہ بن کعب) کی سند سے بیان کیا ہے‘ یعنی انہوں نے بیان کیا ہے کہ عبدالرحمن اپنے والد عبداللہ بن کعب کی بجائے اپنے چچا عبیداللہ بن کعب سے بیان کررہا ہے لیکن یہ اختلاف مضر نہیں کیونکہ یہ روایت دونوں طرق سے ثابت ہے۔ معقل کی روایت اگلی روایت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3454
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3455
´شوہر بیوی سے کہے ”جاؤ اپنے گھر والوں میں رہو“ اس کے حکم کا بیان۔`
عبیداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں (پیچھے رہ جانے والے) ساتھیوں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہو جاؤ، میں نے پیغام لانے والے سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو، بلکہ اس سے الگ رہو، اس ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3455]
اردو حاشہ:
یونس اور اسحاق وغیرہ کی طرح معمر بھی امام زہری رحمہ اللہ کا شاگرد ہے۔ وہ اس روایت کو عبدالرحمن بن کعب کی سند سے بیان کرتا ہے‘ یعنی معقل کی طرح عبیداللہ بن کعب نہیں کہتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3455
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3456
´شوہر بیوی سے کہے ”جاؤ اپنے گھر والوں میں رہو“ اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن کعب اپنے والد کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے واقعے کے ذکر میں بتایا: اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا تم اپنی بیوی سے جدا ہو جاؤ، میں نے اس سے کہا: میں اسے طلاق دے دوں، اس نے کہا نہیں، طلاق نہ دو، لیکن اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس حدیث میں انہوں نے «الحقی باھلک» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3456]
اردو حاشہ:
(1) واضح رہے کہ اس راویت کو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مختلف لوگ بیان کرتے ہیں۔ ان کے تین بیٹے‘ عبداللہ‘ عبیداللہ اور عبدالرحمن اور ان کے پوتے عبدالرحمن بن عبداللہ۔ اور عبدالرحمن بن عبداللہ کبھی تو اپنے والد عبداللہ کے واسطے سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں‘ کبھی اپنے چچا عبیداللہ کے واسطے سے اور کبھی بلاواسطہ‘ لیکن یہ اختلاف کوئی مضر نہیں کیونکہ یہ حدیث ان تمام طرق سے ثابت ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) اس روایت کا تکرار سند ومتن کے بعض اختلافات واضح ہوجاتے ہیں بلکہ حل بھی ہوجاتے ہیں جیسا کہ اوپر کوشش کی گئی ہے۔ تکرار کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3456
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2202
´اشارہ کنایہ سے طلاق دینے کا بیان اور یہ کہ احکام کا دارومدار نیتوں پر ہے۔`
عبداللہ بن کعب بن مالک (جو کہ اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) کعب بن مالک سے سنا، پھر انہوں نے جنگ تبوک والا اپنا قصہ سنایا اس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو، میں نے پوچھا: کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس سے علیحدہ رہو اس کے قریب نہ جاؤ، چنانچہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2202]
فوائد ومسائل:
1. اگر شوہر بیوی کو یوں کہ دے کہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جائے۔
اور طلاق کی نیت کی ہو تو طلاق ہوجائے گی ورنہ نہیں۔
2۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں سورہ توبہ کی آیت کریمہ: (وعلی الثلاثةِ الذينَ خُلِّفُوا۔
۔
۔
۔
۔
۔
) (التوبة:118) کے ضمن میں دیکھ لیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2202