سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
42. باب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى الأَطْفَالِ
42. باب: بچوں کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Salat For (The Funerals Of) Children
حدیث نمبر: 1031
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن آدم ابن بنت ازهر السمان البصري، حدثنا إسماعيل بن سعيد بن عبيد الله، حدثنا ابي، عن زياد بن جبير بن حية، عن ابيه، عن المغيرة بن شعبة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها، والطفل يصلى عليه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، رواه إسرائيل، وغير واحد، عن سعيد بن عبيد الله، والعمل عليه عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، قالوا: يصلى على الطفل، وإن لم يستهل بعد ان يعلم انه خلق، وهو قول: احمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ وَالْمَاشِي حَيْثُ شَاءَ مِنْهَا، وَالطِّفْلُ يُصَلَّى عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُ إِسْرَائِيلُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: يُصَلَّى عَلَى الطِّفْلِ، وَإِنْ لَمْ يَسْتَهِلَّ بَعْدَ أَنْ يُعْلَمَ أَنَّهُ خُلِقَ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سواری والے جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے، اور بچوں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسرائیل اور دیگر کئی لوگوں نے اسے سعید بن عبداللہ سے روایت کیا ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ یہ جان لینے کے بعد کہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گو (ولادت کے وقت) وہ رویا نہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: اور یہی راجح قول ہے، کیونکہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے، گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔ پڑھنے کا بیان جب تک کہ وہ ولادت کے وقت نہ روئے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 49 (3180)، سنن النسائی/الجنائز 55 (1944)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 15 (1481)، و26 (1507)، (تحفة الأشراف: 11490)، مسند احمد (4/247، 252) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1507)

   سنن النسائى الصغرى1944مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   سنن النسائى الصغرى1945مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   سنن النسائى الصغرى1950مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   جامع الترمذي1031مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   سنن أبي داود3180مغيرة بن شعبةالراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها وعن يمينها وعن يسارها قريبا منها والسقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة
   سنن ابن ماجه1481مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي منها حيث شاء

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1031 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1031  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور یہی راجح قول ہے،
کیوں کہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے،
گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1031   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1944  
´سوار جنازے کے کس طرف رہے؟`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والا جہاں چاہے رہے، اور بچوں پہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1944]
1944۔ اردو حاشیہ:
➊ سواری کی صورت میں جنازے کے آگے چلنے سے روکا ہے کیونکہ وہ جنازے کے لیے رکا وٹ بن سکتا ہے، مثلاً: جانور اڑ جائے، انجن بند ہو جائے وغیرہ۔ بنابریں معلوم ہوا کہ جنازے کے ساتھ سوار ہو کر جانا جائز ہے، البتہ جنازے سے پیچھے رہنا چاہیے۔
بچے کا جنازہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسے عام سمجھا ہے، خواہ بچہ زندہ پیدا ہو یا مردہ کیونکہ میت بھی تو پہلے زندہ ہی تھا الا یہ کہ مدت حمل چار ماہ سے کم ہو کیونکہ اس صورت میں وہ مکمل انسانی صورت میں نہ ہو گا اور اس میں روح نہیں پھونکی گئی ہو گی۔ جمہور اہل علم اس بچے کے جنازے کے قائل ہیں جو زندہ پیدا ہو، بعد میں مرے، خواہ اس میں زندگی کی کوئی بھی علامت پائی گئی ہو۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف راجح ہے کیونکہ حدیث میں «السقط یصلی علیہ» کے الفاظ بھی آتے ہیں جیسا کہ سنن ابی داود (الجنائز، حدیث: 3180) میں ہے۔ یہ حدیث عام ہے۔ ناقص یا ناتمام پیدا ہونے والا بچہ چیخے، یعنی بوقت ولادت اس کے اندر زندگی کے آثار ہوں یا مردہ ہی ہو بشرطیکہ یہ نفخ روح کی مدت کے بعد ہو، تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز اور مشروع ہے۔ مزید دیکھیے: فوائد سنن ابی داود، حدیث: 3180۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1944   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1950  
´بچوں کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والا اس کے (آگے پیچھے دائیں بائیں) جس طرف چاہے رہے، اور شیرخوار بچہ کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1950]
1950۔ اردو حاشیہ: تفصیل کے لیے دیکھیے، احادیث: 1944 و 1947۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1950   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3180  
´جنازے کے آگے آگے چلنا۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3180]
فوائد ومسائل:

(السقط) (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ) اس سے مراد نا تمام بچہ ہے۔


نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بچہ اگر زندگی کی علامت کے ساتھ پیدا نہ ہو تو بھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائےگی۔
یہی قول ابن سیرین اور ابن مسنیب کا ہے۔
امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ اگر اس پر چار مہینے دس دن گزر چکے ہوں۔
اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو۔
تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جب پیدا ہو۔
اور علامت زندگی موجود ہوتو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا مذید کہا ہے کہ اگر زندگی کی علامت نہ ہوتو نماز جنازہ نہیں پرھی جائے گی۔
اس کے قائل امام ابو حنیفہ۔
امام مالک۔
اوزاعی۔
اور شافعی ہیں۔
واللہ أعلم با لصواب۔
 (عون المعبود) شیخ البانی نے امام احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ کے قول کو راحج قرار دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3180   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1481  
´جنازہ میں شرکت کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سوار شخص جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل شخص (آگے پیچھے، دائیں، بائیں) جہاں چاہے چلے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1481]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے بھی سوار ہو کر جانا جائز ہے اگرچہ افضل نہیں۔
البتہ سوار کو جنازے کے پیچھے رہنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1481   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.