(مرفوع) حدثنا ابو رجاء قتيبة، حدثنا مالك بن انس، عن محمد بن عمارة، عن محمد بن إبراهيم، عن ام ولد لعبد الرحمن بن عوف، قالت: قلت لام سلمة: إني امراة اطيل ذيلي وامشي في المكان القذر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يطهره ما بعده ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نتوضا من الموطإ. قال ابو عيسى: وهو قول غير واحد من اهل العلم، قالوا: إذا وطيء الرجل على المكان القذر، انه لا يجب عليه غسل القدم، إلا ان يكون رطبا فيغسل ما اصابه. قال ابو عيسى: وروى عبد الله بن المبارك هذا الحديث، عن مالك بن انس، عن محمد بن عمارة، عن محمد بن إبراهيم، عن ام ولد لهود بن عبد الرحمن بن عوف، عن ام سلمة وهو وهم، وليس لعبد الرحمن بن عوف ابن يقال له: هود، وإنما هو: عن ام ولد لإبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن ام سلمة وهذا الصحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَتْ: قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ: إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي وَأَمْشِي فِي الْمَكَانِ الْقَذِرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَتَوَضَّأُ مِنَ الْمَوْطَإِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا وَطِيءَ الرَّجُلُ عَلَى الْمَكَانِ الْقَذِرِ، أَنَّهُ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ غَسْلُ الْقَدَمِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَطْبًا فَيَغْسِلَ مَا أَصَابَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِهُودِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَهُوَ وَهَمٌ، وَلَيْسَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ابْنٌ يُقَالَ لَهُ: هُودٌ، وَإِنَّمَا هُوَ: عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِإِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَهَذَا الصَّحِيحُ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے کہا: میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پر بھی چلنا ہوتا ہے، (تو میں کیا کروں؟) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اس کے بعد کی (پاک) زمین اسے پاک کر دیتی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ گندی جگہوں پر سے گزرنے کے بعد پاؤں نہیں دھوتے تھے، ۲- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ جب آدمی کسی گندے راستے سے ہو کر آئے تو اسے پاؤں دھونے ضروری نہیں سوائے اس کے کہ گندگی گیلی ہو تو ایسی صورت میں جو کچھ لگا ہے اسے دھو لے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة40 (383)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 79 (531)، (تحفة الأشراف: 18296)، موطا امام مالک/الطہارة 4 (16)، مسند احمد (6/290، 316)، سنن الدارمی/الطہارة 63 (769) (صحیح) (سند میں ام ولد عبدالرحمن یا ام ولد ابراہیم بن عبدالرحمن مبہم ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 383
´دامن میں گندگی لگ جائے تو کیا کرے؟` ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کی ام ولد (حمیدہ) سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ میں اپنا دامن لمبا رکھتی ہوں (جو زمین پر گھسٹتا ہے) اور میں نجس جگہ میں بھی چلتی ہوں؟ تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اس کے بعد کی زمین (جس پر وہ گھسٹتا ہے) اس کو پاک کر دیتی ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 383]
383۔ اردو حاشیہ: ➊ اگر نجاست غلیظ کا اثر پاک مٹی سے گھسٹنے سے زائل ہو جائے تو یہ کپڑا پاک شمار ہو گا، اگر زائل نہ ہو تو دھو لیا جائے۔ ➋ خیرالقرون میں خواتین کے پردے کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے پاؤں ڈھانپنے کا بھی اہتمام کرتی تھیں، نیز انہیں طہارت کا ازحد خیال رہتا تھا کہ اس طرح کے مسائل تفصیل سے دریافت کیا کرتی تھیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 383
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث531
´پاک زمین ناپاک زمین کی نجاست کو پاک کر دیتی ہے۔` ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف کی ام ولد سے روایت ہے کہا انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ سے پوچھا: میرا دامن بہت لمبا ہے، اور مجھے گندی جگہ میں چلنا پڑتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ناپاک زمین کے بعد والی زمین اس دامن کو پاک کر دیتی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 531]
اردو حاشہ: گندی جگہ سے گزرتے وقت اگر کپڑا اسے چھوجاتا ہے یا جوتے اسے لگتے ہیں تو اس کی وجہ سے وسوسے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیےاگر کوئی نجاست کپڑے یا جوتے کو جسم میں لگی ہوئی نظرنہیں آرہی تو سمجھنا چاہیے کہ وہ صاف زمین پر چلنے کی وجہ سے خود بخود پاک ہوگیا ہے۔ ہاں اگر کوئی چیز اسے لگی ہے توپھر یقیناً وہ نجس ہے اسے دھونا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 531
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 44
حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن کی ام ولد نے پوچھا اُم المؤمنین سیّدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہ میرا دامن نیچا اور لمبا رہتا ہے، اور ناپاک جگہ میں چلنے کا اتفاق ہوتا ہے، تو کہا سیّدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”پاک کرتا ہے اس کو جو بعد اس کے ہے۔“[موطا امام مالك: 44]
فائدہ:
... معلوم ہوا کہ زمین خشک ہو کر پاک ہو جاتی ہے اور جس کپڑے یا جوتے وغیرہ کو نجاست لگ جائے اُسے زمین کا خشک حصہ پاک کر دیتا ہے، یہ حدیث مبارکہ خشک اور گیلی نجاست میں فرق کی دلیل کے طور پر بھی پیش کی جاتی ہے، بہر حال امام مالک رحمہ اللہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جسم یا کپڑے پر نجاست لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، بنو عبد الاشہل کی ایک عورت نے بارش کے حوالے سے یہی مذکورہ مسئلہ پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَلَيْسَ بَعْدَهَا طرِيقٌ هِيَ أَطيبُ مِنْهَا؟» ”کیا اس (گیلی جگہ) کے بعد ایسا راستہ نہیں آتا جو اس سے زیادہ پاکیزہ ہے؟“
اُس نے کہا: کیوں نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فهذه بهذه» ”تو یہ اُس کے بدلے میں ہے۔“ [ابو داود: 384، اس كي سند صحيح هے]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الأذى فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُور» ”جب تم میں سے کوئی اپنے جوتے سے گندگی کو روندے تو یقیناََ مٹی اُسے پاک کرنے والی ہے۔“ [ابو داود: 387 - 385، اس كي سند صحيح لغيره هے]
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَلَا نَتَوَضَّأُ مِنَ الْمَوْطِئ» ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز ادا کیا کرتے تھے اور (نجاست) روندنے کی وجہ سے (نیا) وضو نہیں کیا کرتے تھے۔“ [ترمذي: 143، ابو داؤد: 204، ابن ماجه: 1041، حاكم: 139/1، اس كي سند صحيح هے]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 44