سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
51. باب مَا يَقُولُ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْهِلاَلِ
51. باب: نیا چاند (ہلال) دیکھے تو کیا پڑھے؟
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3451
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا سليمان بن سفيان المديني، حدثني بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن ابيه، عن جده طلحة بن عبيد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان إذا راى الهلال قال: اللهم اهلله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي بِلَالُ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلَالَ قَالَ: اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تھے تو کہتے تھے: «اللهم أهلله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله» اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5015) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1816)، الكلم الطيب (161 / 114)

قال الشيخ زبير على زئي: (3451) إسناده ضعيف
سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما

   جامع الترمذي3451طلحة بن عبيد اللهاللهم أهلله علينا باليمن والإيمان والسلامة والإسلام ربي وربك الله

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3451 کے فوائد و مسائل
  حافظ ابویحییٰ نورپوری حفظہ الله، فوائد و مسائل،سنن ترمذی 3451  
ضعیف جمع ضعیف = حسن
متقدمین محدثین میں سے کسی ایک سے بھی ضعیف جمع ضعیف = حسن والا اصول ثابت نہیں، مزید یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ امام ترمذیکی اصطلاحِ حسن کو اس ضمن میں پیش کرنا درُست نہیں کیونکہ ان کی اصطلاحِ حسن کا یہ معنیٰ خود اُن کے نزدیک بھی نہیں۔
اس قسط میں ان شاء اللہ ہم اس حوالے سے متقدمین اور متاخرین کے منہج میں موجود فرق کی نشاندہی کریں گے کہ جن روایات کو متاخرین ضعیف جمع ضعیف = حسن کے اُصول کے تحت حسن قرار دیتے ہیں، متقدمین محدثین ان کی تمام تر ضعیف اسانید کے باوجود ان پر ضعیف ہی کا حکم لگاتے رہے ہیں۔ انہوں نے متاخرین کی طرح اُن احادیث کو حسن یا قابلِ حجت قرار نہیں دیا۔
نیا چاند دیکھ کر دُعا:
یہ حدیث بہت سے صحابہ کرام سے مروی ہے اور ہر صحابی سے اس کی کئی کئی سندیں ہیں لیکن ہم بعض احباب کی لگائی ہوئی شرطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف وہ سندیں پیش کرتے ہیں جو اُن کی شرطوں پر پُور ا اُترتی ہوں گی، پھر بھی پہلے زمانے میں ان سب پر ضعیف کا حکم لگایا گیا لیکن بعد والے زمانے میں انہیں حسن قرار دے دیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
امام ابوجعفر عقیلی  (م: 322) سلیمان بن سفیان المدینی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«… حدّثناسليمان بن سفيان قال: حدّثني بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن أبيه، عن جده: أنّ النبيّ صلّى الله عليه وسلّم كان إذا رأى الهلال قال: اللّهم أهله علينا باليمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ربّي وربّك الله، ولا يتابع عليه إلّا من جهة تقاربه فى الضعف، وفي الدعاء لرؤية الهلال أحاديث كأنّ هذا عندي من أصلحها إسنادا، وكلّها ليّنة الأسانيد»
ہمیں سلیمان بن سفیان نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے بلال بن یحییٰ بن طلحہ بن عبید اللہ نے اپنے باپ کے واسطے سے اپنے داداسے حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو یہ دُعا پڑھتے: «اللّهم أهله علينا باليمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ربّي وربّك الله» لیکن اس (سلیمان بن سفیان کی) متابعت صرف ان ہی راویوں نے کی ہے جو کمزوری میں اس سے ملتے جلتے ہیں۔ پہلی رات کے چاند کو دیکھ کر دُعا پڑھنے کے حوالے سے بہت سی احادیث ہیں۔ میرے خیال میں سند کے اعتبار سے یہ اُن سب سے اچھی ہے۔ لیکن ان سب احادیث کی سندیں کمزور ہیں۔ [الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/340]
قارئین کرام! دیکھا آپ نے کہ چوتھی صدی کے محدث و ناقد امام عُقَیلی  نے کتنے واضح الفاظ میں یہ بات بتائی ہے کہ پہلی رات کے چاند کو دیکھ کر دُعا پڑھنے کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن وہ سب کی سب سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اور ملتے جلتے تھوڑے ضعف والی ضعیف روایات مل کر قابلِ حجت نہیں بنتی۔ امام صاحب کی تحقیق سے کسی کو سو مرتبہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس عبارت سے اُن کی یہ بات بہرحال نمایاں ہو رہی ہے کہ اُن کی لغت میں ضعیف ضعیف = حسن نام کی کوئی چیز نہیں تھی ورنہ وہ اس حدیث کو اس اُصول کی بنا پر حسن قرار دیتے اور اس کی ہر متابعت کے ضعیف ہونے کا خصوصی ذکر نہ فرماتے۔
متقدمین محدثین کے نزدیک «ضعیف ضعیف = حسن» والا اُصول رائج نہیں تھا اور اس حوالے سے متقدمین اور متاخرین کے منہج میں فرق آ گیا ہے، اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ محدث العصر علامہ البانی  امام عُقَیلی کی مذکورہ بالا بات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
«لكنّ الحديث حسن لغيره، بل هو صحيح لكثرة شواهده الّتي أشار إليها العقيلي .» لیکن یہ حدیث اُن شواہد کی وجہ سے حسن لغیرہ بلکہ صحیح ہے جن کی طرف امام عُقَیلی نے اشارہ فرمایا ہے۔ [سلسلة الاحاديث الصحيحة للالباني: 4/430]
یاد رہے کہ یہاں بحث کسی خاص دُعا کی نہیں ہو رہی بلکہ پہلی رات کا چاند دیکھ کر مطلق دُعا کے بارے میں امام عُقَیلینے سب سندوں کے ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے جبکہ علامہ البانی نے ضعیف ضعیف = حسن والے اُصول کے تحت پہلی رات کا چاند دیکھ کر دُعا پڑھنے کو حسن لغیرہ بلکہ صحیح قرار دیا ہے۔ آئیے اس حدیث کی ایسی سندوں کا مطالعہ کریں جو بعض احباب کی مقرر کردہ شرائط پر بھی پوری اُترتی ہیں:
➊ علامہ البانی فرماتے ہیں:
«أخرجه ابن السني (رقم 639) عن الوليد بن مسلم، عن عثمان بن أبى العاتكة، عن شيخ من أشياخهم، عن أبى فروة حدير السلمي، وهذا إسناد ضعيف، لجهالة الشيخ الذى لم يسمّ، و بقية رجاله موثقون .»
ابن السنّی نے اسے ولید بن مسلم سے، عثمان بن ابی العاتکہ، اُن کی شیوخ میں سے کسی شیخ اور ابوفر وہ حُدَیر السلمی کے واسطے سے بیان کیا ہے لیکن یہ سند ضعیف ہے کیونکہ وہ شیخ مجہول ہے جس کاسند میں نام نہیں لیا گیا۔ باقی سب راوی ثقہ ہیں۔ [سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة: الرقم: 3504]
➋ اس کی ایک اور سند علامہ البانی کی ہی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
«وروى الطبرانيّ في الأوسط عن عبد الله بن هشام قال: كان أصحاب رسول الله – صلّى الله عليه وسلّم – يتعلّمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر: اللّهم! أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان . قال الهيثمي: وإسناده حسن، وعلى هامشه مانصه: قلت: فيه رشدين بن سعد، وهو ضعيف . ابن حجر
امام طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں عبداللہ بن ہشام سے بیان کیا ہے کہ سال یا مہینے کے آغاز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام یہ دُعا سیکھا کرتے تھے: «اللّهم! أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان» علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔ اس کے حاشیے پر ایک عبارت لکھی ہے جس کا مضمون یہ ہے: میں ابنِ حجر کہتا ہوں کہ اس میں رشدین بن سعد راوی ضعیف ہے۔ [سلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة: الرقم: 3504]
یعنی اس روایت میں وجۂ ضعف صرف صرف رشدین بن سعد راوی ہے جو کہ نیک ہونے کے باوجود حافظے کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہے اور اتفاقی طور پر حافظے کی کمزوری ضعفِ شدید شمار نہیں ہوتی۔
➌ ایک تیسری سند اور اس پر علامہ البانی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
«أخرجه أبو داود (2/ 328) من طريق قتادة: أنّه بلغه: أنّ النبيّ – صلّى الله عليه وسلّم – كان … إلخ، وهذا إسناد مرسل، ورجاله كلّهم ثقات رجال الشيخين .»
اس حدیث کو امام ابوداود  نے قتادہ کی سند سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دُعا پڑھا کرتے تھے۔۔۔ یہ سند مرسل ہے۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور بخاری و مسلم کے راویوں میں سے ہیں۔ [السلسلة الضعيفة للالباني: الرقم: 3506]
اس سند میں وجۂ ضعف صرف یہ ہے کہ یہ مرسل ہے، یعنی تابعی ڈائریکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہا ہے، یوں سند منقطع ہے۔
➍ اس حدیث کی ایک چوتھی سند بھی پیشِ خدمت ہے:
«أخبرنا حامد بن شعيب: حدثناسريج بن يونس: حدثنا مروان بن معاوية الفزاري: حدثني شيخ، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن مطرف قال: كان رسول الله – صلّى الله عليه وسلّم – من أقلّ الناس غفلة، كان إذا رأى … إلخ»
اس کے بارے میں علامہ البانی لکھتے ہیں:
«أخرجه ابن السني [641] وإسناده ضعيف لجهالة الشيخ الّذى لم يسمّ، و بقيّة رجاله ثقات رجال الشيخين غير حامد بن شعيب ؛ وهو حامد بن محمّد ابن شعيب البلخيّ، وثّقه الدارقطني وغيره .»
اس حدیث کو ابن السنّی نے بیان کیا ہے۔ اس کی سند اس شیخ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے جس کا نام سند میں نہیں لیا گیا۔ اس کے باقی تمام راوی ثقہ ہیں اور بخاری و مسلم کے راویوں میں سے ہیں سوائے حامد بن شعیب کے اور وہ حامد بن محمد بن شعیب بلخی ہیں۔ انہیں امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔
یعنی اس سند میں بھی وجۂ ضعیف صرف ایک راوی کا مجہول ہونا ہے۔
ان سب اور دیگر کئی سندوں کو بیان کرنے کے بعد شیخ البانی فرماتے ہیں:
«و بالجملة ؛ فهذه طرق كثيرة يثبت بها أنه عليه السلام كان يدعو إذا رأى الهلال .»
الغرض یہ ایسی بہت سی سندیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو دُعا پڑھتے تھے۔ [السلسلة الضعيفة للالباني: 8/9]
کتنا واضح فرق ہے متقدمین اور متاخرین میں ضعیف ضعیف = حسن کے حوالے سے کہ اُسی حدیث کو امام عُقَیلی  سب سندوں سے ضعیف قرار دے رہے ہیں جبکہ علامہ البانی اُن کا قول نقل کرنے کے بعد اُن کے برعکس اس پر ضعیف ضعیف = حسن کے اُصول کے تحت حسن لغیرہ بلکہ صحیح تک کا حکم لگا رہے ہیں۔ ہم نے اس سلسلے میں چار ایسی سندیں پیش کی ہیں جن میں ضعف خفیف ہے۔ متقدمین تو سرے سے ضعیف ضعیف= حسن کے قائل نہ تھے اور جن متاخرین نے اس اُصول کو بیان کیا ہے، ان کے نزدیک بھی اگر دو سندیں ایسی ہوں جن میں کوئی سخت ضعیف راوی نہ ہو تو وہ حسن بن جاتی ہیں۔ البتہ بعض احباب نے متاخرین کی اس کاوش پر بے شمار اسباب و شرائط کا اضافہ کر دیا ہے۔
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . .
ضعیف ضعیف = صحیح، شمارہ السنہ جہلم 31
   ماہنامہ السنہ جہلم، حدیث/صفحہ نمبر: 31   

  الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 3451  
فقہ الحدیث:
یہ حدیث: سنن الترمذی، مسند احمد 1397، سنن الدارمی 1730،امام طبرانی رحمہ اللہ نے الدعاء 903،امام ابوبکر ابن السنی رحمہ اللہ نے عمل الیوم واللیلۃ میں روایت کی ہے۔
شیخ الالبانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حدیث شواہد کے سبب صحیح ہے،
اور شیخ زبیر علی زئی کے نزدیک ضعیف ہے، جیسا کہ انوارالصحیفہ میں انہوں نے لکھا ہے:
«قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:»
«(3451) إسناده ضعيف سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما»
------------------
«قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1816)، الكلم الطيب (161 / 114)»
«وقال الشیخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف سليمان بن سفيان»
یعنی سنن دارمی کی تحقیق میں علامہ حسین سلیم اسد حفظہ اللہ اسے سلیمان کے سبب ضعیف کہتے ہیں۔
------------------
اور عصر حاضر کے نامور محقق ابو اسامہ عید بن سلیم الھلالی (عمل الیوم واللیلۃ) کی تخریج میں اس حدیث کے ذیل میں بہترین تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اس کے مجموعی طرق سے یہ حدیث حسن ہے،)
«إسناده ضعيف؛ (وهو حسن)؛ أخرجه أبو يعلى في مسنده (2/ 25 - 26/ 661، 662) -وعنه ابن عدي في الكامل في الضعفاء (3/ 112)، والضياء المقدسي في الأحاديث المختارة (3/ 22/ 820) - بسنده سواء.
لكن الضياء رواه من طريق أبي يعلى عن هارون بن عبد الله وحده ولم يقرن معه موسى بن محمد.
وأخرجه الطبراني في الدعاء (2/ 1223/ 903) عن موسى بن هارون بن عبد الله الحمال عن أبيه به.
وأخرجه الترمذي (5/ 504/ 3451)، وأحمد في مسنده (1/ 162) -ومن طريقه الضياء المقدسي في الأحاديث المختارة (3/ 22 - 23/ 821)، والطبراني في الدعاء (2/ 1223/ 903) -، وعبد بن حميد في مسنده (1/ 153/ 103 - منتخب)، وإسحاق بن راهويه في مسنده، كما في الأحاديث المختارة (3/ 23)، و الفتوحات الربانية (4/ 329) -وعنه الدارمي في سننه (7/ 255/ 1811 - فتح المنان)، والبخاري في التاريخ الكبير (2/ 109)، والطبراني في الدعاء (2/ 1223/ 903) -، وابن أبي عاصم في السُّنة (1/ 165/ 376)، والبخاري في التاريخ الكبير (2/ 109)، والدارمي في سننه (7/ 255/ 1811)، والبزار في البحر الزخار (3/ 161 - 162/ 947)، والعقيلي في الضعفاء الكبير (2/ 136)، والحاكم (4/ 285)، والخطيب في تاريخ بغداد (14/ 324 - 325)، والبغوي في شرح السُّنة (5/ 128/ 1335)، والبيهقي في الدعوات الكبير (2/ 242/ 467) بطرق كثيرة عن أبي عامر العقدي به. قال الترمذي: هذا حديث حسن غريب .
وقال الحافظ ابن حجر؛ كما في الفتوحات الربانية (4/ 329) -: هذا حديث حسن؛ أخرجه أحمد وإسحاق في مسنديهما، وأخرجه الترمذي وقال: حديث حسن غريب .
وأخرجه الحاكم، وقال: صحيح الإسناد!، وغلط في ذلك، فإن سليمان ضعفوه، وإنما حسنه الترمذي؛ لشواهده.
وقوله: غريب، أي: بهذا السند أ. هـ.
قلت: الذي رأيته في مطبوع المستدرك: أن الحاكم سكت عليه هو والذهبي؛ فلعله سقط من المطبوع.
وقال شيخنا العلامة الألباني - رحمه الله - في ظلال الجنة (1/ 165): حديث حسن، وإسناده ضعيف من أجل سليمان بن سفيان وبلال بن يحيى؛ فإنهما ضعيفان، لكن له شاهد من حديث ابن عمر صححه ابن حبان .
قلت: وهو كما قال، ونحوه في الصحيحة (4/ 431).
وله شاهد من حديث ابن عمر - رضي الله عنهما - وهو الذي أشار إليه شيخنا - رحمه الله - آنفًا: أخرجه الدارمي في سننه (7/ 254/ 1810 - فتح المنان)، والطبراني في المعجم الكبير (12/ 273/ 13330)، وابن حبان في صحيحه (2374 - موارد) من طريق عبد الرحمن بن عثمان بن إبراهيم: حدثني أبي عن أبيه وعمه عن ابن عمر به.
قلت: هذا إسناد ضعيف؛ فإن عبد الرحمن وأباه ضعيفان.
قال الهيثمي في مجمع الزوائد (10/ 139): وعثمان بن إبراهيم الحاطبي فيه ضعف، وبقية رجاله ثقات!! .
وتعقبه شيخنا العلامة الألباني - رحمه الله - في الصحيحة (4/ 431) بقوله: كذا قال، وعبد الرحمن بن عثمان، قال الذهبي: مُقِلّ، ضعّفه أبو حاتم الرازي، وأما ابن حبان فذكره في الثقات أ. هـ.
وبالجملة، فالحديث بمجموعهما حسن - إن شاء الله -.»

------------------
اور اس کے دو راویوں (سلیمان اور بلال) کا ترجمہ یعنی جرح و تعدیل میں درجہ اور حالت درج ذیل ہے:
امام ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:
«سليمان بن سفيان، [ت] أبو سفيان المدني.
عن عبد الله بن دينار، وبلال بن يحيى.
قال ابن معين: ليس بشئ.
وقال - مرة: ليس بثقة.
وكذا قال النسائي.
وقال أبو حاتم والدارقطني: ضعيف.
العقدى، حدثنا سليمان بن سفيان، حدثنا بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن أبيه، عن جده - أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا رأى الهلال قال: اللهم أهله علينا بالامن والايمان والإسلام، ربى وربك الله.»

یعنی سلیمان بن سفیان جن کی کنیت ابوسفیان ہے اور مدنی ہیں، وہ عبداللہ بن دینار اور بلال بن یحیٰ سے روایت کرتے ہیں،
امام ابن معین فرماتے ہیں کہ سلیمان بن سفیان (کوئی شئی نہیں) اور فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں،امام نسائی بھی یہی کہتے ہیں،امام ابو حاتمؒ اور امام دارقطنی بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں ؛
آگے امام ذھبیؒ نے ان کی چاند دیکھ پڑھی جانے والی دعاء کی روایت لکھی ہے،
------------------
اور علامہ ابن حجر تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں:
«سليمان بن سفيان التيمي أبو سفيان المدني مولى آل طلحة بن عبيد الله روى عن بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله وعبد الله بن دينار وعنه سليمان التيمي وابنه معتمر بن سليمان وأبو داود الطيالسي قال الدوري عن ابن معين روى عنه أبو عامر العقدي حديث الهلال وليس بثقة وقال ابن أبى خيثمة عن ابن معين ليس بشيء وقال ابن المديني روى أحاديث منكرة وقال أبو حاتم ضعيف الحديث يروي عن الثقات أحاديث مناكير وقال أبو زرعة منكر الحديث روى عن عبد الله بن دينار ثلاثة أحاديث كلها يعني مناكير قال وإذا روى المجهول المنكر عن المعروفين فهو كذا كلمة ذكرها وقال الدولابي ليس بثقة وذكره ابن حبان فى الثقات وقال كان يخطىء قلت وقال يعقوب بن شيبة له أحاديث مناكير وقال الترمذي فى العلل المفرد عن البخاري منكر الحديث وقال النسائي ليس بثقة وقال الدارقطني ضعيف.»
حافظ ابن حجرؒ ان کا ابتدائی تعارف کروانے کے بعد لکھتے ہیں:
سلیمان بن سفیان سے ابو عامر العقدی نے رؤیت ھلال (کی دعاء والی) روایت نقل کی ہے لیکن وہ ثقہ نہیں، اور ابن معین کا دوسرا قول ان کے متعلق یہ ہے کہ سلیمان ( «لیس بشئی») اور ابوزرعہ ؒ فرماتے ہیں: یہ منکر الحدیث ہیں،اس نے عبداللہ بن دینار سے تین احادیث روایت کی ہیں جو سب منکر ہیں، اور فرماتے ہیں کہ جب مجہول معروفین سے روایت کرتا ہے تو وہ ایسی ہوتی ہیں، دولابی بھی ان کے متعلق کہتے ہیں وہ ثقہ نہیں، امام ابن حبان نے ثقات میں ذکر فرمایا ہے اور کہا ہے کہ وہ خطا کرتے ہیں، اور یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں: اس کی کچھ منکر احادیث ہیں، امام ترمذی علل الکبیر میں امام بخاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ سلیمان منکر الحدیث ہے اور نسائی کہتے ہیں کہ ثقہ نہیں،اور امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ ضعیف ہیں ت [ھذیب التھذیب]
------------------
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں ان کے متعلق لکھتے ہیں:
«بلال ابن يحيى ابن طلحة ابن عبيد الله التيمي المدني لين من السابعة ت»
یعنی بلال بن یحی کمزور، ضعیف راوی ہیں، اور ساتویں رتبہ سے تعلق رکھتے ہیں، ترمذی کے رواۃ میں سے ہیں۔
اور حافظ صاحب تقریب کے مقدمہ میں ساتویں رتبہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
«من روى اكثر من واحد ولم يوثق و اليه الاشارة بلفظ:مستور، مجهول الحال»
کہ ساتویں طبقہ میں وہ راوی ہیں جن کی کسی نے توثیق نہیں کی، اور اسی درجہ کے راوی کیلئے مستور اور مجہول الحال کے الفاظ سے اشارہ ہے۔
------------------
لیکن تقریب التھذیب کی تحریر میں ڈاکٹر بشار عواد اور شیخ شعیب ارناؤط نے بلال بن یحی کے ترجمہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ:
«بل مجهول، تفرد سليمان بن سفيان المديني-- وهو ضعيف -- بالرواية عنه،ولم يوثقه سوى ابن حبان،وحديثه الواحد الذي اخرجه الترمذي ضعيف»
یعنی بلال بن یحی (صرف کمزور نہیں) بلکہ مجہول ہے،کیونکہ اس سے سوائے سلیمان بن سفیان کے۔۔ جو خود ضعیف ہے۔۔اور کسی نے روایت نقل نہیں کی، اور ابن حبان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی، اس کی ترمذی میں اکیلی منقول روایت ضعیف ہے۔
------------------
یہ آخر والا گمان درست ہے، اس کے تمام طرق ضعف سے خالی نہیں،
امام ابو جعفر العقیلی الضعفاء الکبیر میں لکھتے ہیں:
«وفي الدعاء لرؤية الهلال أحاديث كان هذا عندي من أصلحها إسنادا، وكلها لينة الأسانيد» کہ رؤیت ہلال کی دعاء میں منقول تمام احادیث میں یہی (سلیمان بن سفیان) والی کچھ بہتر اسناد کی تھی، ویسے اس کے تمام طرق کمزور اسانید پر مبنی ہیں۔
------------------
اس میں نیا چاند کس لفظ کا ترجمہ ہے، تو امام عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
«قوله (كان إذا رأى الهلال) وهو يكون من الليلة الأولى والثانية والثالثة ثم هو قمر» [تحفہ الاحوذی]
کہ اس حدیث میں جو کہا کہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ھلال دیکھتے) تو واضح رہے کہ صرف پہلی، دوسری اور تیسری رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں، اس کے بعد وہ قمر کہلاتا ہے۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 36523   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.