3651. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں۔ پھر وہ جو ان کے متصل ہوں گے۔ پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔ پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ گواہی دینے سے پہلے قسم ان کی زبان پر آئے گی اور قسم دینے سے پہلے گواہی دینے کے لیے تیار ہوں گے۔“ (راوی حدیث) ابراہیم نخعی ؒنے کہا: جب ہم چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے تو ہمارے بزرگ ہمیں گواہی دینے اور عہد وپیمان کرنے پر مارتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3651]
حدیث حاشیہ: 1۔
صحابہ کرام ؓ کی تین قسمیں ہیں:
۔
مہاجرین،جنھوں نے دین کے لیے مصیبتیں برداشت کیں بالآخر وہ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔
۔
انصار،جنھوں نے مہاجرین کواپنے ہاں جگہ دی اور دین اسلام کے لیے مالی قربانی دی۔
۔
دیگر صحابہ کرام ؓ جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے۔
دین کے لیے انھیں کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
شرف صحابیت میں سب برابر ہیں،البتہ دیگر اعتبار سے مسلمان ہوئے۔
دین کے لیے انھیں کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
شرف صحابیت میں سب برابر ہیں،البتہ دیگر اعتبار سے ان میں ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔
2۔
حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ دین سے بے پروائی کی وجہ سے ان میں حرص اور لالچ کا غلبہ ہوگا بس یہی ہوگا کہ کس سے ابتدا کریں شہادت سے یا قسم سے،گویا ان دونوں کی وجہ سے ایک دوڑ لگی ہوگی۔
اس کا مصداق دیکھنا ہوتو ہماری عدالتوں میں تیار شدہ گواہوں کو دیکھ لیا جائے۔
دولت کے لالچ میں وہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی قسم دینے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں،حالانکہ گواہی چشم دید واقعہ اور قسم یقینی امر کی ہوتی ہے لیکن انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
3۔
حضرت ابراہیم نخعی ؒ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بزرگ ہمیں تادیباً مارتے تھے کہ ہم لوگ گواہی اور قسم کو اپنا معمول نہ بنائیں اور وہ ہمیں احتیاط کی روش اختیار کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔