الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: سجود قرآن کے مسائل
The Book of Prostration During The Recitation of The Quran.
3. بَابُ سَجْدَةِ {ص} :
3. باب: سورۃ ص میں سجدہ کرنا۔
(3) Chapter. To prostrate while reciting Surat Sad (No.38).
حدیث نمبر: 1069
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، وابو النعمان، قالا: حدثنا حماد، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" ص ليس من عزائم السجود، وقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم يسجد فيها".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" ص لَيْسَ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ، وَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِيهَا".
ہم سے سلیمان بن حرب اور ابوالنعمان بن فضل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سورۃ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

Narrated Ibn `Abbas: The prostration of Sa`d is not a compulsory one but I saw the Prophet prostrating while reciting it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 19, Number 175


   صحيح البخاري4807عبد الله بن عباسأو ما تقرأ ومن ذريته داود وسليمان أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده
   صحيح البخاري3422عبد الله بن عباسليس ص من عزائم السجود ورأيت النبي يسجد فيها
   صحيح البخاري1069عبد الله بن عباسص ليس من عزائم السجود وقد رأيت النبي يسجد فيها
   جامع الترمذي577عبد الله بن عباسيسجد في ص
   سنن أبي داود1409عبد الله بن عباسليس ص من عزائم السجود وقد رأيت رسول الله يسجد فيها
   سنن النسائى الصغرى958عبد الله بن عباسسجد في ص وقال سجدها داود توبة ونسجدها شكرا
   بلوغ المرام271عبد الله بن عباس(ص) ليست من عزائم السجود وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يسجد فيها
   مسندالحميدي483عبد الله بن عباسرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في ص وليست من عزايم السجود

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 958  
´سورۃ «‏‏‏‏ص» ‏‏‏‏ میں سجدوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ «ص» میں سجدہ کیا، اور فرمایا: داود علیہ السلام نے یہ سجدہ توبہ کے لیے کیا تھا، اور ہم یہ سجدہ (توبہ کی قبولیت پر) شکر ادا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 958]
958 ۔ اردو حاشیہ:
➊ قرآن مجید میں بعض آیات ایسی آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی فرمانبرداری اور ان کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے یا ان میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے یا اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، بندگی اور سجدے کی تعریف کی گئی ہے یا ان میں سجدے کا حکم ہے۔ ان آیات کو پڑھتے وقت ایک مومن شخص بے ساختہ سجدے میں گر پڑتا ہے۔ انہیں سجدے کی آیات کہا جاتا ہے اور اس سجدے کو سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔ اگر قاری سجدے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے سجدہ کرنا چاہیے، ویسے نہ گزر جائے۔ اگر سجدہ کرنے کی حالت میں نہیں تو سر جھکا لے اور اشارے سے سجدہ کرے، مثلاً: سائیکل یا گاڑی چلانے والا۔ نیچے اتر کر سجدہ کرنا ممکن ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اگر کوئی شخص قرأت کر رہا ہو اور اس کے لیے سجدے کی استطاعت ہو، تو وہ بھی سجدہ کرے۔ سجدۂ تلاوت مستحب ہے۔ اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے۔ سجدۂ تلاوت کے تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: [سنن ابوداود اردو سجود القرآن، كا ابتدائيه، طبع دارالسلام، و ذخيرة العقبي شرح سنن النسائي: 196-190/12]
➋ سورۂ صٓ کا سجدہ امام شافعی رحمہ اللہ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہاں آیت میں سجدے کا لفظ ہی نہیں، بس یہ الفاظ ہیں: « ﴿خَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ﴾ » [ص: 24: 38]
جبکہ دیگر اہل علم اس سجدے کے قائل ہیں کیونکہ یہاں معنی تو سجدے ہی کا ہے اگرچہ لفظ «‏‏‏‏رَاكِعًا» ‏‏‏‏ کے ہیں۔ امام مالک بھی امام شافعی کے ہم نوا ہیں۔
➌ حضرت داود علیہ السلام سے کوئی (اجتہادی) غلطی ہو گئی تھی جس کی تفصیل قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں نہیں ہے، لہٰذا ہمیں بھی اس کی کرید نہیں کرنی چاہیے۔ جب انہیں غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے بطور توبہ سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو اس کے شکرانے کے طور پر ہم سجدہ کرتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 958   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 271  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورۃ «ص» کا سجدہ ان میں سے نہیں ہے جن کا ذکر ضروری ہے، البتہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 271»
تخریج:
«أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب سجدة ص، حديث:1069.»
تشریح:
1. اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ صٓ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا ہے‘ البتہ آپ نے اس کا حکم نہیں فرمایا اور اس کی تاکید نہیں کی۔
2. اس سے معلوم ہوا کہ بعض اعمال اگرچہ مسنون ہیں مگر ان کے بارے میں تاکید نہیں۔
وہ بھی سنت خیرالانام کے زمرے میں آتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 271   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 577  
´سورۃ ص کے سجدے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ ص میں سجدہ کرتے دیکھا۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہ واجب سجدوں میں سے نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 577]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یہ نبی داؤد علیہ السلام تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 577   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1069  
1069. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں، البتہ میں نے نبی ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1069]
حدیث حاشیہ:
نسائی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سورۃ ص میں سجدہ کیا اور فرمایا کہ یہ سجدہ داؤد ؑ نے توبہ کے لیے کیا تھا ہم شکر کے طور پر یہ سجدہ کرتے ہیں اس حدیث میں ''لیس من عزائم السجود'' کا بھی یہی مطلب ہے کہ سجدہ تو داؤد ؑ کا تھا اور انہیں کی سنت پر ہم بھی شکر کے لیے یہ سجدہ کر تے ہیں۔
اللہ تعالی نے حضرت داؤد ؑ کی توبہ قبول کر لی تھی۔
والمراد بالعزائم ما وردت العزیمة علی فعله کصیغة الأمر الخ۔
(فتح الباري)
یعنی عزائم سے مراد وہ جن کے لیے صیغہ امر کے ساتھ تاکید وارد ہوئی ہو۔
سورۃ ص کا سجدہ ایسا نہیں ہے، ہاں بطور شکر سنت ضرور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1069   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1069  
1069. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں، البتہ میں نے نبی ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1069]
حدیث حاشیہ:
عزائم سجود سے مراد وہ سجودِ تلاوت ہیں جنہیں بجا لانے کی تاکید کی گئی ہے۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حم سجدہ، النجم، اقراء، الم تنزیل کے سجود عزائم سے ہیں۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 315/2، و المصنف لابن أبي شیبة: 378/1، رقم: 4349)
سورۂ ص کے سجدے کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ سجدہ عزائم سجود میں سے نہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جن انبیاء کی پیروی کرنے کا حکم ہے ان میں حضرت داود ؑ ہیں، چونکہ انہوں نے سجدہ کیا تھا، اس لیے سورۂ ص میں سجدہ کرنا چاہیے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3421)
سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدۂ ص کے متعلق فرمایا:
حضرت داود ؑ کا یہ سجدہ بطور توبہ تھا اور ہم ان کی پیروی میں بطور شکر سجدہ کرتے ہیں۔
'' (سنن النسائي، الافتتاح، حدیث: 958)
ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورۂ ص کو منبر پر تلاوت فرمایا، جب مقام سجدہ پر پہنچے تو نیچے اتر کر سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا، پھر کسی اور دن اسے تلاوت فرمایا، لوگ حسب سابق سجدے کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے فرمایا:
یہ سجدہ تو ایک نبی کی توبہ کی بنا پر تھا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ تم سجدے کے لیے تیار ہو چکے ہو۔
اس لیے آپ منبر سے نیچے اترے اور سجدہ کیا۔
(سنن أبي داود، سجودالقرآن، حدیث: 1410)
لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ ادا کیا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سجدہ تو ہے لیکن اس کے متعلق تاکید نہیں ہے۔
(فتح الباري: 714/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1069   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.