الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
17. بَابُ مَنْ أَمَرَ خَادِمَهُ بِالصَّدَقَةِ وَلَمْ يُنَاوِلْ بِنَفْسِهِ:
17. باب: اس کے بارے میں کہ جس نے اپنے خدمت گار کو صدقہ دینے کا حکم دیا اور خود اپنے ہاتھ سے نہیں دیا۔
(17) Chapter. Whoever ordered his servant to give something in charity and did not give it himself.
حدیث نمبر: Q1425
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابو موسى , عن النبي صلى الله عليه وسلم , هو احد المتصدقين.وَقَالَ أَبُو مُوسَى , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , هُوَ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ.
‏‏‏‏ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں بیان کیا کہ خادم بھی صدقہ دینے والوں میں سمجھا جائے گا۔

حدیث نمبر: 1425
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن شقيق، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا انفقت المراة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها اجرها بما انفقت، ولزوجها اجره بما كسب، وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم اجر بعض شيئا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا كَسَبَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے۔ ان سے شقیق نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے کچھ خرچ کرے اور اس کی نیت شوہر کی پونجی برباد کرنے کی نہ ہو تو اسے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور شوہر کو بھی اس کا ثواب ملے گا اس نے کمایا ہے اور خزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرتا۔

Narrated `Aisha: Allah's Apostle said, "When a woman gives in charity some of the foodstuff (which she has in her house) without spoiling it, she will receive the reward for what she has spent, and her husband will receive the reward because of his earning, and the storekeeper will also have a reward similar to it. The reward of one will not decrease the reward of the others . "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 506


   صحيح البخاري1437عائشة بنت عبد اللهإذا تصدقت المرأة من طعام زوجها غير مفسدة كان لها أجرها ولزوجها بما كسب وللخازن مثل ذلك
   صحيح البخاري1440عائشة بنت عبد اللهإذا أطعمت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله وللخازن مثل ذلك له بما اكتسب ولها بما أنفقت
   صحيح البخاري1425عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها أجرها بما أنفقت ولزوجها أجره بما كسب وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا
   صحيح البخاري1441عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة فلها أجرها وللزوج بما اكتسب وللخازن مثل ذلك
   صحيح البخاري2065عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها أجرها بما أنفقت ولزوجها بما كسب وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا
   صحيح مسلم2364عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان لها أجرها بما أنفقت ولزوجها أجره بما كسب وللخازن مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا
   صحيح مسلم2366عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما أنفقت وللخازن مثل ذلك من غير أن ينتقص من أجورهم شيئا
   جامع الترمذي671عائشة بنت عبد اللهإذا تصدقت المرأة من بيت زوجها كان لها به أجر وللزوج مثل ذلك وللخازن مثل ذلك ولا ينقص كل واحد منهم من أجر صاحبه شيئا له بما كسب ولها بما أنفقت
   جامع الترمذي672عائشة بنت عبد اللهإذا أعطت المرأة من بيت زوجها بطيب نفس غير مفسدة كان لها مثل أجره لها ما نوت حسنا وللخازن مثل ذلك
   سنن أبي داود1685عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجر ما أنفقت ولزوجها أجر ما اكتسب ولخازنه مثل ذلك لا ينقص بعضهم أجر بعض
   سنن النسائى الصغرى2540عائشة بنت عبد اللهإذا تصدقت المرأة من بيت زوجها كان لها أجر وللزوج مثل ذلك وللخازن مثل ذلك ولا ينقص كل واحد منهما من أجر صاحبه شيئا للزوج بما كسب ولها بما أنفقت
   سنن ابن ماجه2294عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة وقال أبي في حديثه إذا أطعمت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان لها أجرها وله مثله بما اكتسب ولها بما أنفقت وللخازن مثل ذلك من غير أن ينقص من أجورهم شيئا
   بلوغ المرام514عائشة بنت عبد اللهإذا انفقت المراة من طعام بيتها،‏‏‏‏ غير مفسدة،‏‏‏‏ كان لها اجرها بما انفقت،‏‏‏‏ ولزوجها اجره بما اكتسب،‏‏‏‏ وللخازن مثل ذلك،‏‏‏‏ لا ينقص بعضهم من اجر بعض شيئا
   مسندالحميدي278عائشة بنت عبد اللهإذا أنفقت المرأة من بيت زوجها غير مفسدة كان له بما اكتسب، وكان لها بما أنفقت، وللخازن مثل ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2294  
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں خرچ کرے کے بجائے جب عورت کھلائے ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہو گا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2294]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
گھر میں کما کر لانا مرد کا فرض ہے۔

(2)
اگرچہ کمائی مرد کی ہوتی ہے تاہم عورت کو خرچ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔

(3)
عورت کو خرچ کرتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ مال فضول ضائع نہ کیا جائے اور ناجائز کاموں میں خرچ نہ کیا جائے، اور وہاں خرچ نہ کیا جائے۔
جہاں خاوند پسند نہ کرتا ہو کیونکہ اس سے گھر کے مالی حالات میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔

(4)
خزانچی سے مراد وہ شخص ہے جو مالک کی اجازت سے گھر کی ضروریات کے لیے خرچ کرتا ہے، خواہ وہ ملازم ہو یا گھر کا کوئی فرد، مثلاً:
چھوٹا بھائی یا بیٹا وغیرہ۔

(5)
خازن کو یہ ثواب اس وقت ملے گا جب وہ خوشی سے خرچ کرے، اگر وہ صرف حکم کی تعمیل کے طور پر کسی مستحق کو دیتا ہے لیکن دل میں ناراضی محسوس کرتا ہے کہ میرا مالک یہاں کیوں خرچ کرتا ہے تو اسے ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2294   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 514  
´نفلی صدقے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے مال سے فضول خرچی کئے بغیر خرچ کرے تو اسے خرچ کرنے کے بدلے میں اجر و ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کیلئے کمانے کا ثواب اور اسی طرح خزانچی کیلئے بھی اجر ہے ہر ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 514]
لغوی تشریح 514:
غَیرَ مُفسِدَۃٍ یعنی فضول خرچی، اسراف وتبذیر کے بغیر، نیز یہ خرچ کرنا خاوند اور اس کے زیرِ کفالت افراد کے اخراجات پر اثر انداز نہ ہو۔ بیوی کو خاوند کے مال سے خرچ کرنے کی اجازت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ شوہر اپنی بیوی کو صریح طور پر اجازت دے دے یا اشارتًا جیسا کہ معاشرے میں یہ چیز معروف و معلوم ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر معمولی چیزوں کو خیرات میں دے دینا قابلِ مؤاخذہ تصور نہیں کیا جاتا۔ ایسا سمجھاجاتا ہے کہ گویا اس کی بیوی کو اجازت دے دی گئی ہے۔

فوائد و مسائل 514:
➊ عورت کو خاوند کی اجازت کے بغیر اتنا صدقہ و خیرات نہیں کرنا چاہیے کہ خاوند کے گھر کا معاشی نظام متأثر ہو کر برباد ہو جائے اور شوہر کے لیے معاشی مشکلات اور دشواریاں کھڑی ہو جائیں۔
➋ معمولی صدقہ، مثلًا: سائل کو روٹی دے دی یا تھوڑا بہت آٹا دے دیا یا پڑوسی کو تھوڑا بہت نمک مرچ دے دی وغیرہ، اس صدقے میں بیوی کے ساتھ ساتھ اس کا شوہر کما کر لانے کی وجہ سے، خزانچی اس کی حفاظت کرنے کی وجہ سے اور خادم خدمت گاری کی بنا پر اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔ کسی کے اجر میں سے کمی نہیں کی جائے گی، ہر ایک کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 514   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1685  
´عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کسی فساد کی نیت کے بغیر خرچ کرے تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور مال کمانے کا ثواب اس کے شوہر کو اور خازن کو بھی اسی کے مثل ثواب ملے گا اور ان میں سے کوئی کسی کے ثواب کو کم نہیں کرے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1685]
1685. اردو حاشیہ: شوہر کی صریح اجازت نہ بھی ہوتو اس کے مزاج زوق عادت اور عرف سے سمجھی جاسکتی ہے۔ اور اس کے برعکس جہاں شوہر دینا چاہتا ہو مگر بیوی بخیل ہو۔۔۔اس کا حال خود سمجھا جاسکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1685   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1425  
1425. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب کوئی عورت اپنے گھر کی اشیائے خور و نوش سے خیرات کرے اور اس کی نیت گھر کواجاڑنے کی نہ ہوتو اس کو خیرات کرنے کا ثواب ہوگا، اسکے شوہر کو کمائی کرنے کااجر ملے گا اورخزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1425]
حدیث حاشیہ:
مطلب ظاہر ہے کہ مالک کے مال کی حفاظت کرنے والے اور اس کے حکم کے مطابق اسی میں سے صدقہ خیرات نکالنے والے ملازم، خادم، خزانچی سب ہی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ثواب کے مستحق ہوں گے۔
حتیٰ کہ بیوی بھی جو شوہر کی اجازت سے اس کے مال سے صدقہ خیرات کرے، وہ بھی ثواب کی مستحق ہوگی۔
اس میں ایک طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور دیانت وامانت کی تعلیم وتلقین ہے۔
آیت شریفہ:
لَن تَنَالُوا البِرَّ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1425   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1425  
1425. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جب کوئی عورت اپنے گھر کی اشیائے خور و نوش سے خیرات کرے اور اس کی نیت گھر کواجاڑنے کی نہ ہوتو اس کو خیرات کرنے کا ثواب ہوگا، اسکے شوہر کو کمائی کرنے کااجر ملے گا اورخزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1425]
حدیث حاشیہ:
(1)
اشیائے خورد و نوش سے ایسی چیزیں مراد ہیں جو دیر تک رکھنے سے خراب ہونے کا اندیشہ ہو یا ان کے علاوہ ایسی خیرات جو خاوند کو ناگوار نہ گزرے اور نہ اسے زیادہ نقصان ہی پہنچنے کا خطرہ ہو، کیونکہ حدیث میں غیر مفسدہ کی شرط ہے، یعنی اصلاح کی نیت ہو، گھر کو بے آباد کرنا اور اجاڑنا مقصود نہ ہو، نیز گھر کی اصلاح بیوی اور میاں کے باہمی تعاون ہی سے ہو سکتی ہے۔
خازن کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ مال اسی کے قبضے میں ہوتا ہے۔
افساد اور اسراف سے دونوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔
(2)
حدیث میں خادم کا لفظ نہیں ہے اور عنوان میں خدمت گزار کا ذکر ہے۔
اس کی تطبیق یوں ہے کہ امام بخاری ؒ نے خازن اور بیوی پر خدمت گزار کو قیاس کیا ہے، کیونکہ خدمت گزاری ان سب میں علت مشترکہ ہے۔
الغرض مالک مال، خزانچی اس کی حفاظت اور بیوی صحیح مصرف میں خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات نکالنے کی وجہ سے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔
اسی طرح خرچ کرنے کی ترغیب اور امانت و دیانت کی تعلیم و تلقین بھی ہے۔
(3)
ابن رشید نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے تنبیہ کی ہے کہ خازن، خادم اور بیوی، حقیقی مالک کے امین ہیں۔
انہیں مالک کی اجازت ہی سے اس کے مال میں تصرف کرنا چاہیے، وہ اجازت عرفا ہو یا اجمالا یا تفصیلا۔
(فتح الباري: 371/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1425   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.