الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
59. بَابُ هَلْ يَشْتَرِي صَدَقَتَهُ:
59. باب: کیا آدمی اپنی چیز کو جو صدقہ میں دی ہو پھر خرید سکتا ہے؟
(59) Chapter. Can one buy the thing which he has given in charity?
حدیث نمبر: Q1489
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لان النبي صلى الله عليه وسلم: إنما نهى المتصدق خاصة عن الشراء ولم ينه غيره.لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا نَهَى الْمُتَصَدِّقَ خَاصَّةً عَنِ الشِّرَاءِ وَلَمْ يَنْهَ غَيْرَهُ.
‏‏‏‏ اور دوسرے کا دیا ہوا صدقہ خریدنے میں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص صدقہ دینے والے کو پھر اس کے خریدنے سے منع فرمایا۔ لیکن دوسرے شخص کو منع نہیں فرمایا۔

حدیث نمبر: 1489
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن سالم، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما كان يحدث ," انعمر بن الخطاب تصدق بفرس في سبيل الله، فوجده يباع، فاراد ان يشتريه"، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم فاستامره، فقال: لا تعد في صدقتك، فبذلك كان ابن عمر رضي الله عنهما لا يترك ان يبتاع شيئا تصدق به إلا جعله صدقة".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يُحَدِّثُ ," أَنَّعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ تَصَدَّقَ بِفَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَوَجَدَهُ يُبَاعُ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهُ"، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْمَرَهُ، فَقَالَ: لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ، فَبِذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَا يَتْرُكُ أَنْ يَبْتَاعَ شَيْئًا تَصَدَّقَ بِهِ إِلَّا جَعَلَهُ صَدَقَةً".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سالم نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں صدقہ کیا۔ پھر اسے آپ نے دیکھا کہ وہ بازار میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس لیے ان کی خواہش ہوئی کہ اسے وہ خود ہی خرید لیں۔ اور اجازت لینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ اسی وجہ سے اگر ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنا دیا ہوا کوئی صدقہ خرید لیتے ‘ تو پھر اسے صدقہ کر دیتے تھے۔ (اپنے استعمال میں نہ رکھتے تھے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے)۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: `Umar bin Al-Khattab gave a horse in charity in Allah's Cause and later he saw it being sold in the market and intended to purchase it. Then he went to the Prophet and asked his permission. The Prophet said, "Do not take back what you have given in charity." For this reason, Ibn `Umar never purchased the things which he had given in charity, and in case he had purchased something (unknowingly) he would give it in charity again.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 566


   صحيح البخاري2775عبد الله بن عمرلا تبتعها ولا ترجعن في صدقتك
   صحيح البخاري3002عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاري2971عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   صحيح البخاري1489عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك
   صحيح مسلم4169عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك يا عمر
   صحيح مسلم4167عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   جامع الترمذي668عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك
   جامع الترمذي2131عبد الله بن عمرمثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كالكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد فرجع في قيئه
   سنن أبي داود1593عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد في صدقتك
   سنن النسائى الصغرى2617عبد الله بن عمرلا تعرض في صدقتك
   سنن النسائى الصغرى2618عبد الله بن عمرلا تعد في صدقتك
   سنن ابن ماجه2386عبد الله بن عمرالعائد في هبته كالكلب يعود في قيئه
   سنن ابن ماجه2392عبد الله بن عمرلا تبتع صدقتك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم286عبد الله بن عمرلا تبتعه ولا تعد فى صدقتك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 286  
´صدقہ دے کر واپس لینے کی وعید`
«. . . وبه: أن عمر بن الخطاب حمل على فرس عتيق فى سبيل الله، فوجده يباع، فأراد أن يبتاعه فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: لا تبتعه ولا تعد فى صدقتك . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستے میں ایک بہترین گھوڑا صدقہ کیا تھا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنے کا ارادہ کیا، پھر انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 286]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2971، ومسلم 1620، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نیز دیکھئے: [حديث: 214]
② جو شخص کسی کو صدقہ دے تو اسے واپس (یعنی دوبارہ) خرید نہیں سکتا۔
③ جسے صدقہ دیا جائے وہ ضرورت کے وقت اسے بیچ سکتا ہے۔
④ صدقہ واپس لینا جائز نہیں ہے۔
⑤ شریعت نے حیل (حیلہ بازی) کا سدباب کیا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 214   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2392  
´صدقہ کر دینے کے بعد کیا اسے بکتا ہوا پا کر خرید سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک گھوڑا صدقہ کیا، پھر دیکھا کہ اس کا مالک اس کو کم دام میں بیچ رہا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ مت خریدو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2392]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خریدنا اگرچہ واپس لینا نہیں ہے لیکن اس سے ظاہری طور پرمشابہت رکھتا ہے اس لیے اس بھی منع کردیا گیا تاکہ یہ صدقہ واپس لینےکا ایک حیلہ نہ بن جائے۔

(2)
صدقہ کی ہوئی چیز واپس خریدنے کی خواہش سےمعلوم ہوتا ہے کہ ابھی دل اس میں اٹکا ہوا ہے۔
یہ مناسب نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جو کچھ دے دیا، دےدیا، اب دوبارہ حصول کی خواہش کیوں کی جائے۔

(3)
صدقہ کی ہوئی چیز جب سستی مل رہی ہوتو جتنی رقم کم خرچ کی گویا اتنی رقم صدقہ دے کر اپنی چیز واپس لےلی اس لیے یہ جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2392   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 668  
´صدقہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا صدقہ واپس نہ لو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 668]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے،
ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے،
لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں،
قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے،
نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ((لَا تَحِلُّ الصَّدقَةُ إلَّا لِخَمْسَةٍ:
 لِعَامِلٍ عَلَيْهَا أَوْ رَجُلِِ اِشْتَرَاهَا بِمَالِهِ...الحديث)
)
کے معارض ہے،
تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائیگی اور ابو سعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر،
یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 668   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1593  
´زکاۃ دے کر پھر اس کو خریدنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں ایک گھوڑا دیا، پھر اسے بکتا ہوا پایا تو خریدنا چاہا تو اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے مت خریدو، اپنے صدقے کو مت لوٹاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1593]
1593. اردو حاشیہ:
➊ جو مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہو۔ پھر دوبارہ اس میں طمع نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اللہ سے اجر کی اُمید رکھنی چاہیے۔ (نیکی کردریا میں ڈال) کا یہی مفہوم ہے۔ بعض لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اس کے معاملے پر نظر رکھتے ہیں۔ جو مناسب نہیں۔ اسی حدیث میں اسی لیے صدقہ شدہ مال کے خریدنے سے منع کیا گیا ہے۔ تاہم جہاں یہ بات نہ ہو وہاں جمہور کے نزدیک اس کا جواز ہے۔ جیسے کسی تیسرے شخص سے اسے خرید لیا جائے۔ یا وراثت میں وہ چیز اس کے پاس آجائے۔ [شرح سنن أبي داود۔ علامہ بدر الدین عینی: 294/6)
➋ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کسی بھی نئے اقدام سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرلیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کے تمام امور ضابطہ اسلام سے مربوط ہیں۔ چنانچہ ہر مسلمان کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اور قرآن وسنت سے رہنمائی لینی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1593   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1489  
1489. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں صدقہ کردیا، پھر دیکھا کہ اسے فروخت کیا جارہاہے تو انھوں نے اس کے خریدنے کا ارادہ کیا، پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا:اپنے صدقے کو واپس نہ لو۔ اس بنا پر حضرت ابن عمر ؓ جب اپنی کسی صدقہ کردہ چیز کو فروخت ہوتا دیکھتے تو اسے خرید کر صدقہ کردیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1489]
حدیث حاشیہ:
(1)
فی سبیل اللہ دینے کے دو مفہوم ہیں:
٭ اس گھوڑے کو آپ نے وقف کر دیا تھا، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ وقف کردہ چیز کو خریدنا منع ہے۔
٭ آپ نے اس گھوڑے کو غازی کی ملک کر دیا تھا، اس نے اسے فروخت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عمر ؓ نے اسے خریدنا چاہا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آپ کو منع کر دیا۔
اسے خریدنے سے منع کرنے کی دو وجہیں ممکن ہیں:
٭ صدقہ کرنے والے کی غرض آخرت میں ثواب لینا تھا، جب اسے سستے داموں خریدے گا تو گویا اس نے آخرت سے روگردانی کر کے دنیا کو اختیار کیا۔
اور ایسا کرنا نیک لوگوں کے شایان شان نہیں۔
٭ مفت میں حاصل کرنے والا شخص جب اسے فروخت کرتا ہے تو سستے داموں بیچتا ہے، صدقہ کرنے والے کو تو مزید سستا دے گا، تو جتنی مقدار کم ہو گی گویا صدقے کی اتنی مقدار اس سے واپس لے رہا ہے اور ایسا کرنا سخت منع ہے۔
شرعا اس کی اجازت نہیں۔
ہاں اگر کوئی شخص صدقہ شدہ چیز کا وارث بن جائے یا کسی تیسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے کے بعد صدقہ کرنے والا خرید لے تو اس صورت میں کوئی کراہت نہیں۔
(2)
حضرت ابن عمر ؓ کا موقف تھا کہ اسے خرید کر اپنی ملکیت بنانا منع ہے، اگر خرید کر آگے صدقہ کر دیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممنوعہ صورت نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1489   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.