الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
نماز کے احکام
नमाज़ के नियम
3. باب شــروط الصلاة
3. شرائط نماز کا بیان
३. “ नमाज़ के नियम ”
حدیث نمبر: 166
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن عامر بن ربيعة رضي الله عنه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت به.متفق عليه،‏‏‏‏ زاد البخاري: يومىء براسه ولم يكن يصنعه في المكتوبة. ولابي داود من حديث انس رضي لله عنه: وكان إذا سافر فاراد ان يتطوع استقبل بناقته القبلة فكبر،‏‏‏‏ ثم صلى حيث كان وجه ركابه. وإسناده حسن.وعن عامر بن ربيعة رضي الله عنه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت به.متفق عليه،‏‏‏‏ زاد البخاري: يومىء برأسه ولم يكن يصنعه في المكتوبة. ولأبي داود من حديث أنس رضي لله عنه: وكان إذا سافر فأراد أن يتطوع استقبل بناقته القبلة فكبر،‏‏‏‏ ثم صلى حيث كان وجه ركابه. وإسناده حسن.
سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اونٹنی جس طرف بھی رخ کرتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے۔ (بخاری و مسلم)
اور بخاری نے اتنا اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر مبارک سے اشارہ کے ساتھ (نماز ادا) فرما رہے تھے۔ فرض نماز میں ایسا نہ کرتے تھے۔ اور ابوداؤد میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کرتے اور نماز نفل ادا کرنا چاہتے تو (ایک مرتبہ) اپنی اونٹنی کا رخ قبلہ کی طرف موڑ دیتے اس کے بعد پھر سواری کا رخ جس جانب بھی ہو جاتا نماز پڑھتے رہتے۔ اس حدیث کی سند حسن ہے۔
हज़रत अमीर बिन रबिया रज़िअल्लाहुअन्ह फ़रमाते हैं कि मैं ने रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को अपनी ऊँटनी पर नमाज़ पढ़ते देखा है । ऊँटनी जिस तरफ़ भी मोड़ लेती आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम नमाज़ पढ़ते रहते । (बुख़ारी और मुस्लिम)
और बुख़ारी ने इतनी बढ़ोतरी भी की है कि आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम अपने सिर से इशारे के साथ (नमाज़ पढ़) रहे थे । फ़र्ज़ नमाज़ में ऐसा न करते थे ।
और अबू दाऊद में हज़रत अनस रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि जब आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम यात्रा करते और नमाज़ नफ़िल पढ़ना चाहते तो (एक मर्तबा) अपनी ऊँटनी को मोड़ कर क़िबला की दिशा कर देते इस के बाद फिर सवारी दिशा बदल कर जिस तरफ़ भी जाती नमाज़ पढ़ते रहते । इस हदीस की सनद हसन है ।

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب صلاة التطوع علي الدواب وحيثما توجهت، حديث:1093-1097، ومسلم، صلاة المسافرين، باب جواز صلاة النافلة علي الدابة في السفر حيث توجهت، حديث:701، وحديث أنس أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1225، وإسناده حسن كما قال الحافظ رحمه الله.»

Narrated 'Aamir bin Rabi'ah (RA): I saw Allah's Messenger (ﷺ) praying while mounted on his riding animal facing whatever direction it faced. [Agreed upon]. al-Bukhari added: "Making gestures with his head and he did not do that (pray while mounted) with obligatory prayers." Narrated Anas in another narration of the Hadith reported by Abu Dawud: When [he (ﷺ)] traveled, and intended to pray a voluntary prayer, he used to direct his riding camel towards the Qiblah, say, "Allahu Akbar" and pray facing whatever direction it faced. [Its chain is Hasan (good)].
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري1100أنس بن مالكيصلي على حمار ووجهه من ذا الجانب يعني عن يسار القبلة
   صحيح مسلم1620أنس بن مالكيصلي على حمار ووجهه ذلك الجانب
   سنن أبي داود1225أنس بن مالكإذا سافر فأراد أن يتطوع استقبل بناقته القبلة فكبر ثم صلى حيث وجهه ركابه
   سنن النسائى الصغرى742أنس بن مالكيصلي على حمار وهو راكب إلى خيبر والقبلة خلفه
   بلوغ المرام166أنس بن مالكيصلي على راحلته حيث توجهت به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 166  
´سفر کی حالت میں نفل نماز سواری پر ادا کرنا`
«. . . وعن عامر بن ربيعة رضي الله عنه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت به . . .»
. . . سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اونٹنی جس طرف بھی رخ کرتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 166]

لغوی تشریح:
«يُومِئُ بِرَأْسِهِ» اپنے سر سے رکوع و سجود کے لیے اشارہ کرتے اور سجدے کے لیے رکوع کی بہ نسبت ذرا زیادہ جھکتے۔
«الْمَكْتُوبَة» لکھی ہوئی، یعنی فرض نماز۔
«اَلرِّكَابِ» را کے کسرہ اور کاف مخففہ کے ساتھ ہے۔ سواری کو کہتے ہیں، یعنی اونٹنی یا ہر وہ چیز جس سے سواری کا کام لیا جائے۔ یہاں اونٹنی مراد ہے۔

فائدہ:
حدیث ہذا سے معلوم ہوا کہ سفر کی حالت میں نفل نماز سواری پر ادا کی جا سکتی ہے، فرض نہیں، نیز ایک دفعہ سواری کا رخ یا اپنا رخ قبلہ کی طرف کر کے شروع کر لے، پھر اگر سواری کا رخ کسی دوسری جانب ہو جائے تب بھی نماز درست ہے۔ مگر یہ اس وقت ہے جب سواری مسافر کے اپنے تصرف میں ہو۔ ہمارے دور کی سواریاں، مثلاً: ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ چونکہ مسافروں کے اپنے تصرف میں نہیں ہوتے، اس لیے ایسے سفروں میں جمع تقدیم (ظہر اور عصر کو اکٹھا ظہر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا مغرب کے وقت میں پڑھنا) یا جمع تاخیر (ظہر اور عصر کو اکٹھا عصر کے وقت میں اور مغرب و عشاء کو اکٹھا عشاء کے وقت میں پڑھنا) کی سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر سفر اتنا لمبا ہو کہ دو نمازوں (ظہر و عصر یا مغرب و عشاء) کا وقت دوران سفر ہی میں گزر جائے گا تو پھر سواری پر فرض بھی ادا کر سکتے ہیں، جیسے کشتی یا بحری جہاز میں اگر ساحل قریب نہ ہو تو بالاتفاق ان میں فرض نماز جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 166   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 742  
´گدھے پر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ سوار ہو کر خیبر کی طرف جا رہے تھے، اور قبلہ آپ کے پیچھے تھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن یحییٰ کی ان کے قول «يصلي على حمار» میں متابعت کی ہو ۱؎ اور یحییٰ بن سعید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے ۲؎ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 742]
742 ۔ اردو حاشیہ:
➊ بات یہ ہے کہ دوسرے راوی گدھے کی بجائے اونٹ کا ذکر کرتے ہیں، صرف عمرو بن یحیی گدھے کا ذکر کرتے ہیں۔ (یہ بحث حدیث: 741 سے متعلق ہے) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عمرو ثقہ راوی ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی آپ گدھے پر سوار ہوں، کبھی اونٹ پر، جب کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ عمرو کی روایت شاذ ہے، گدھے کا ذکر صحیح نہیں۔ حدیث: 742 میں بھی اگرچہ گدھے کا ذکر ہے مگر اس کے بارے میں امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ دراصل حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اپنا فعل ہے، یعنی وہ خود گدھے پر سوار نفل نماز پڑھ رہے تھے۔ راوی نے غلطی سے اسے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو «يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ» کے اضافے کے ساتھ ناقابل حجت سمجھنا یقیناًً محل نظر ہے کیونکہ اس میں دیگر ثقات راویوں کی کون سی مخالفت ہے بلکہ اس میں تو ایک زائد امر ہے۔ پھر عمرو نامی راوی بھی ثقہ ہے۔ اور ثقہ کی زیادتی، جبکہ دیگر روایات کے منافی نہ ہو، قابل قبول ہوتی ہے، نیز یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک بھی صحیح ہے۔ [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الصلاۃ في الرحال في المطر، حدیث: (35) 770]
مزید برآں یہ کہ اس حدیث کی تائید حضرت انس بن مالک کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، جسے اصطلاح میں شاہد کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں تعارض اس لیے بھی نہیں رہتاکہ ممکن ہے کبھی گدھے پر سوار ہوں اور کبھی اونٹ پر، گویا یہ دو مختلف اوقات کی بات ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، اس لیے روایت کو ناقابل حجت قرار دینے کی بجائے، جبکہ راوی بھی ثقہ ہو، تطبیق دینا ہی بہتر ہے۔ پھر یہ اعتراض کہ حدیث انس کا مرفوع ہونا درست نہیں اور وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید کے سوا دیگر رواۃ اسے حضرت انس سے موقوفاً ذکر کرتے ہیں جیسا کہ انس بن سیرین کی روایت میں ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 702]
یہ بھی محل نظر ہے کیونکہ اگر ایک نے موقوفاً بیان کیا ہو اور دوسرے نے مرفوعاً اور بیان کرنے والا ثقہ ہو تو یہ کوئی قابل جرح بات نہیں بلکہ ایک مزید فائدہ ہے۔ گویا یہ روایت موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح ثابت ہے اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ یوں سمجھئے، اگر ایک روایت مرسلا منقول ہو اور دوسری موصولاً، یا ایک منقطع ہو دوسری متصل، کیا آپس میں ان کا کوئی تضاد ہے؟ قطعاً نہیں بلکہ متصل اور موصول ہی کو قبول کیا جائے گا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے بلکہ اس موقوف روایت کا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع شاہد بھی ملتا ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ بہرحال حق یہی ہے کہ دونوں احادیث صحیح ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی دونوں کو صحیح قرار دیا ہے بلکہ انہوں نے ان روایات کو ایک دوسری کا شاہد بنایا ہے۔ دیکھیے: [فتح الباري: 576/2، حدیث: 1100]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ان دونوں روایات کو صحیح کہا ہے۔ دیکھیے: [صحیح سنن النسائي]
➋ یہ نفل نماز کی بات ہے۔ چونکہ نفل ہر وقت پڑھے جا سکتے ہیں، لہٰذا نفل کے لیے سہولتیں رکھی گئی ہیں کہ کھڑا ہو کر نہ پڑھنا چاہے تو بیٹھ کر پڑھ لے، اتر کر نہیں پڑھ سکتا تو سواری ہی پر پڑھ لے اور رکوع اور سجدہ کی بجائے اشارہ ہی کر لے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خیبر کی طرف تشریف لے جا رہے تھے اور خیبر شمال کی جانب ہے جب کہ مدینہ منورہ سے قبلہ جنوب کی جانب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 742   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1225  
´سواری پر نفل اور وتر پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور نفل پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی قبلہ رخ کر لیتے اور تکبیر کہتے پھر نماز پڑھتے رہتے خواہ آپ کی سواری کا رخ کسی بھی طرف ہو جائے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1225]
1225۔ اردو حاشیہ:
➊ دوران سفر میں نفل پڑھنا اپنے وقت کا بہترین مصرف اور اللہ ذوالجلال کے ہاں تقرب کا بہترین عمل ہے۔
➋ سواری پر نفل ہی پڑھے جا سکتے ہیں، فرائض نہیں۔ مگر یہ اس وقت جب سواری مسافر کے اپنے تصرف میں ہو۔ ہمارے دور کی سواریاں اور نظام سفر ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ۔ چونکہ مسافروں کے اپنے تصرف میں نہیں ہوتے، اس لئے ان پر فرض بھی ادا کر سکتے ہیں۔ بہرحال جہاں تک ممکن ہو، فرائض قریب ترین پڑاؤ پر ادا کئے جائیں، جیسے کشتی یا بحری جہاز میں اگر ساحل قریب نہ ہو تو بالاتفاق ان میں فرض نماز جائز ہے۔ ایسے ہی بس اور ہوائی جہاز وغیرہ کا معاملہ ہے۔ گویا جس طرح بھی ممکن ہو، فرض نماز کی ادائیگی کر لی جائے یا پھر جمع تقدیم یا جمع تاخیر پر عمل کر لیا جائے۔
➌ اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوا کہ وتر فرض نہیں ہیں بلکہ تاکیدی نفل ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1225   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.