الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Jihad
34. باب مَا جَاءَ فِي الْمَشُورَةِ
34. باب: جنگ میں مشورہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1714
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، قال: لما كان يوم بدر، وجيء بالاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما تقولون في هؤلاء الاسارى؟ "، فذكر قصة في هذا الحديث طويلة، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عمر، وابي ايوب، وانس، وابي هريرة، وهذا حديث حسن، وابو عبيدة لم يسمع من ابيه، ويروى عن ابي هريرة، قال: ما رايت احدا اكثر مشورة لاصحابه من رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، وَجِيءَ بِالْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟ "، فَذَكَرَ قِصَّةً فِي هَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ہے،
۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتا ہو ۲؎،
۴- اس حدیث میں عمر، ابوایوب، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (3084)، (تحفة الأشراف: 9628) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت:
۱؎: قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا، ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں، انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سر قلم کرے، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سوکھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلا دیا جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کی باتیں سن کر خاموش رہے، اندر گئے پھر باہر آ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کر دیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کر دیتا ہے، ابوبکر رضی الله عنہ کی مثال ابراہیم و عیسیٰ سے دی، عمر رضی الله عنہ کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ کی موسیٰ علیہ السلام سے، پھر آپ نے ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا، دوسرے دن جب عمر رضی الله عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی الله عنہ کو روتا دیکھ کر عرض کیا، اللہ کے رسول! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں بھی شامل ہو جاتا، یا روہانسی صورت بنا لیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہو گیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» (الأنفال: ۶۷)۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہو گی، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (5 / 47 - 48)، وسيأتي (5080 // 598 / 3293 // بزيادة في المتن)

قال الشيخ زبير على زئي: (1714) إسناده ضعيف / يأتي:3084
أبوعبيدة لم يسمع من أبيه كما تقدم (1061) والأعمش عنعن (تقدم: 169)

   جامع الترمذي3084عبد الله بن مسعودما تقولون في هؤلاء الأسارى
   جامع الترمذي1714عبد الله بن مسعودما تقولون في هؤلاء الأسارى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1714  
´جنگ میں مشورہ کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1714]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرمﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا،
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑدیا جائے،
عمر نے کہا:
یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں،
انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے،
بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سرقلم کرے،
جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سو کھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلادیا جائے،
نبی اکرمﷺ سب کی باتیں سن کر خاموش رہے،
اندر گئے پھر باہر آکر فرمایا:
اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کر دیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کردیتاہے،
ابوبکر کی مثال ابراہیم وعیسیٰ سے دی،
عمر کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ کی موسیٰ علیہ السلام سے،
پھر آپ نے ابوبکر کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا،
دوسرے دن جب عمر آئے تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر کو روتا دیکھ کر عرض کیا،
اللہ کے رسولﷺ! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں بھی شامل ہوجاتا،
یا روہانسی صورت بنا لیتا،
آپ ﷺ نے فرمایا:
بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہوگیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں،
پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ﴾ (الأنفال: 67).
2؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے،
اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہوگی،
اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہوگی۔

نوٹ:
(ابوعبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1714   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.