الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Jihad
36. باب مَا جَاءَ فِي الْفِرَارِ مِنَ الزَّحْفِ
36. باب: میدان جنگ سے فرار ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1716
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابن عمر، قال: " بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية، فحاص الناس حيصة، فقدمنا المدينة، فاختبينا بها وقلنا: هلكنا، ثم اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلنا: يا رسول الله، نحن الفرارون "، قال: " بل انتم العكارون وانا فئتكم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن لا نعرفه إلا من حديث يزيد بن ابي زياد، ومعنى قوله: فحاص الناس حيصة، يعني: انهم فروا من القتال، ومعنى قوله: " بل انتم العكارون "، والعكار: الذي يفر إلى إمامه لينصره، ليس يريد الفرار من الزحف.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَاخْتَبَيْنَا بِهَا وَقُلْنَا: هَلَكْنَا، ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحْنُ الْفَرَّارُونَ "، قَالَ: " بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ وَأَنَا فِئَتُكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، يَعْنِي: أَنَّهُمْ فَرُّوا مِنَ الْقِتَالِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ "، وَالْعَكَّارُ: الَّذِي يَفِرُّ إِلَى إِمَامِهِ لِيَنْصُرَهُ، لَيْسَ يُرِيدُ الْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا، (پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے، مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اور ہم نے کہا: ہلاک ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم بھگوڑے ہیں، آپ نے فرمایا: بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف یزید بن ابی زیاد کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- «فحاص الناس حيصة» کا معنی یہ ہے کہ لوگ لڑائی سے فرار ہو گئے،
۳- اور «بل أنتم العكارون» اس کو کہتے ہیں: جو فرار ہو کر اپنے امام (کمانڈر) کے پاس آ جائے تاکہ وہ اس کی مدد کرے نہ کہ لڑائی سے فرار ہونے کا ارادہ رکھتا ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 106 (2647)، (تحفة الأشراف: 7298) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1203)

قال الشيخ زبير على زئي: (1716) إسناده ضعيف / د 2647

   جامع الترمذي1716عبد الله بن عمرأنتم العكارون وأنا فئتكم
   سنن أبي داود2647عبد الله بن عمربل أنتم العكارون قال فدنونا فقبلنا يده فقال إنا فئة المسلمين
   مسندالحميدي704عبد الله بن عمربل أنتم العكارون وأنا فئتكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1716  
´میدان جنگ سے فرار ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا، (پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے، مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اور ہم نے کہا: ہلاک ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم بھگوڑے ہیں، آپ نے فرمایا: بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1716]
اردو حاشہ:
نوٹ:

(اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1716   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2647  
´میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا میں سے کسی سریہ میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ تیزی کے ساتھ بھاگے، بھاگنے والوں میں میں بھی تھا، جب ہم رکے تو ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کریں؟ ہم کافروں کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے، پھر ہم نے کہا: چلو ہم مدینہ چلیں اور وہاں ٹھہرے رہیں، (پھر جب دوسری بار جہاد ہو) تو چل نکلیں اور ہم کو کوئی دیکھنے نہ پائے، خیر ہم مدینہ گئے، وہاں ہم نے اپنے دل میں کہا: کاش! ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2647]
فوائد ومسائل:
امام ترمذی نے (العکار) کا ترجمہ یہ لکھا ہے۔
جو شخص امام کی طرف بھاگ آئے۔
تاکہ وہ اس کی مد د کرے۔
محض لڑائی سے بھاگ جانا مراد نہیں ہے۔
(جامع ترمذی، الجهاد، حدیث: 1716)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2647   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.