الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
33. بَابُ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ وَالإِفْطَارِ:
33. باب: سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا۔
(33) Chapter. To observe Saum (fast) or not to observe Saum during journeys.
حدیث نمبر: 1943
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان حمزة بن عمرو الاسلمي، قال للنبي صلى الله عليه وسلم:" ااصوم في السفر، وكان كثير الصيام؟ فقال: إن شئت فصم، وإن شئت فافطر".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَأَصُومُ فِي السَّفَرِ، وَكَانَ كَثِيرَ الصِّيَامِ؟ فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ فَصُمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ".
(دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) اور ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میں سفر میں روزہ رکھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔

Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) Hamza bin `Amr Al-Aslami asked the Prophet, "Should I fast while traveling?" The Prophet replied, "You may fast if you wish, and you may not fast if you wish."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 164


   صحيح البخاري4502عائشة بنت عبد اللهمن شاء صام ومن شاء أفطر
   صحيح البخاري1943عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   صحيح مسلم2625عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   صحيح مسلم2626عائشة بنت عبد اللهصم إن شئت وأفطر إن شئت
   جامع الترمذي711عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   سنن أبي داود2402عائشة بنت عبد اللهصم إن شئت وأفطر إن شئت
   سنن النسائى الصغرى2308عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   سنن النسائى الصغرى2309عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   سنن النسائى الصغرى2310عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   سنن النسائى الصغرى2386عائشة بنت عبد اللهصم إن شئت أو أفطر إن شئت
   سنن ابن ماجه1662عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   المعجم الصغير للطبراني389عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم وإن شئت فأفطر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم252عائشة بنت عبد اللهإن شئت فصم، وإن شئت فافطر
   بلوغ المرام547عائشة بنت عبد الله‏‏‏‏هي رخصة من الله فمن اخذ بها فحسن ومن احب ان يصوم فلا جناح عليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 252  
´سفر میں روزہ رکھنے کا اختیار ہے`
«. . . 465- وبه: عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن حمزة بن عمرو الأسلمي قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أأصوم فى السفر؟ وكان كثير الصيام، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: إن شئت فصم، وإن شئت فأفطر . . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں روزے رکھتا ہوں۔ کیا میں سفر میں بھی روزے رکھوں؟ وہ کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: اگر تم چاہو تو روزے رکھو اور چاہو توروزے رکھو اور چاہو تو افطار کرو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 252]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1943، من حديث مالك به ورواه مسلم 1121، من حديث هشام بن عروه به]

تفقه:
➊ ہر سفر میں روزہ افطار کرنا ضروری نہیں ہے، نیز یہ کہ سفر میں نفلی روزہ رکھا جا سکتا ہے۔
➋ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 50، 438]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 465   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 547  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں (اگر میں روزہ رکھ لوں) تو کیا مجھ پر کوئی حرج ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے جو اس کو لے لے تو بہتر ہے اور جو کوئی روزہ رکھنا پسند کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ (مسلم) اور اس حدیث کا اصل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی متفق علیہ حدیث میں یوں ہے کہ حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے سوال کیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 547]
فائدہ 547:
مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافر کے لیے سفر میں رمضان کا روزہ نہ رکھنا جائز ہے، تاہم دورانِ سفر میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اور بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے: بلاشبہ اللہ رب العزّت اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی عطاکردہ رخصتوں کو قبول کیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔ [مسند احمد: 108/4]
راوئ حدیث:
حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجاز کے رہنے والے صحابی ہیں جن کی کنیت ابوصالح یا ابومحمد ہے۔ ان سے ان کے فرزند محمد اور ام المؤمنین عائشہ صدیقۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا روایت کرتی ہیں۔ 61 ہجری میں فوت ہوے، اسوقت ان کی عمر 80 برس تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 547   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2402  
´سفر میں روزے رکھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! میں مسلسل روزے رکھتا ہوں تو کیا سفر میں بھی روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2402]
فوائد ومسائل:
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔
اس میں مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے، خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر، اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ، اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی ہو، خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہو یا نہ لگتی ہو۔
کیونکہ شریعت نے اس سفر میں نماز قصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلقا اجازت دی ہے اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے رمضان میں جہاد کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ سفر کیا تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا۔
اوراس کے بارے میں کسی نے بھی دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، البتہ اگر گرمی کی شدت، راستہ کی دشواری، دوری اور مسلسل سفر کی وجہ سے روزہ میں تکلیف ہو تو پھر مسافر کے لیے تاکید کے ساتھ حکم یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا، روزہ نہ رکھنے والے ہشاش بشاش تھے اور انہوں نے کام کیا جب کہ روزہ رکھنے والے کمزوور ہو گئے تھے اور وہ بعض کام نہ کر سکے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب حاصل کر لیا۔
(صحيح البخاري‘ الجهاد‘ حديث: 2890‘ وصحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:119) کبھی کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے یہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا اور جب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے دشمن کے بہت قریب ہو گئے ہو اور روزہ چھوڑ دینا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔
یہ ایک رخصت تھی اس لیے ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا، پھر ہم نے جب ایک دوسری منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے، روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔
لہذا چھوڑ دو۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1120) چونکہ آپ کی طرف سے یہ ایک تاکیدی حکم تھا اس لیے ہم سب نے روزہ چھوڑ دیا، راوی حدیث کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزے رکھے بھی تھے۔
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا، کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث: 1115) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کر لیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔
(مسند أحمد:108/3) اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہو تو پھر روزہ رکھنا مکروہ ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2402   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1943  
1943. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں سفر میں روزہ رکھ لوں؟ اور وہ بہت روزے رکھاکرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: (تمہاری مرضی ہے) چاہو تو رکھ لو چاہو تو چھوڑ دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1943]
حدیث حاشیہ:
اس مسئلہ میں سلف کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا کہ سفر میں اگر روزہ رکھے گا تو اس سے فرض روزہ ادا نہ ہوگا پھر قضا کرنا چاہئے اور جمہور علماءجیسے امام مالک اور شافعی اور ابوحنیفہ ؒ یہ کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا سفر میں افضل ہے اگر طاقت ہو اور کوئی تکلیف نہ ہو اور ہمارے امام احمد بن حنبل اور اوزاعی اور اسحق اور اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے بعض نے کہا دونوں برابر ہیں روزہ رکھے یا افطار کرے، بعض نے کہا جو زیادہ آسان ہو وہی افضل ہے۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر نے اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ حمزہ بن عمرو ؓ نے نفل روزہ کے بارے میں نہیں بلکہ رمضان شریف کے فرض روزوں ہی کے بارے میں دریافت کیا تھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم هي رخصة من اللہ فمن أخذ بها فحسن و من أحب أن یصوم فلا جناح علیه۔
(فتح الباري)
یعنی آنحضرت ﷺ نے اس کو جواب دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے جو اسے قبول کرے پس وہ بہتر ہے اور جو روزہ رکھنا ہی پسند کرے اس پر کوئی گناہ نہیں۔
حضرت علامہ ؒ فرماتے ہیں کہ لفظ رخصت واجب ہی کے مقابلہ پر بولا جاتا ہے اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ ابوداؤد اور حاکم کی روایت میں موجود ہے کہ اس نے کہا تھا کہ میں سفر میں رہتا ہوں اور ماہ رمضان حالت سفر ہی میں میرے سامنے آجاتا ہے اس سوال کے جواب میں ایسا فرمایا جو مذکور ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1943   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1943  
1943. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں سفر میں روزہ رکھ لوں؟ اور وہ بہت روزے رکھاکرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: (تمہاری مرضی ہے) چاہو تو رکھ لو چاہو تو چھوڑ دو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1943]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ اس روایت میں فرض روزے کی صراحت نہیں ہے، تاہم صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت حمزہ اسلمی ؓ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! مجھے دوران سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت ہے، اگر میں روزہ رکھ لوں تو کوئی گناہ ہو گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے جو اسے قبول کرے اس نے اچھا کیا اور جو روزہ رکھنا پسند کرتا ہے اس پر کوئی حرج نہیں۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2629(1121)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
رخصت، واجب کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے رمضان کے روزوں کے متعلق سوال کیا تھا۔
(2)
واضح رہے کہ حدیث میں مسلسل روزے رکھنے سے مراد وصال کے روزے نہیں ہیں کیونکہ اس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 229/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1943   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.