الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wal-Hajj)
78. باب فِي رَمْىِ الْجِمَارِ
78. باب: رمی جمرات کا بیان۔
Chapter: Regarding Stoning The Jimar.
حدیث نمبر: 1966
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن مهدي، حدثني علي بن مسهر، عن يزيد بن ابي زياد، اخبرنا سليمان بن عمرو بن الاحوص، عن امه، قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرمي الجمرة من بطن الوادي وهو راكب يكبر مع كل حصاة، ورجل من خلفه يستره، فسالت عن الرجل: فقالوا: الفضل بن العباس، وازدحم الناس، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا ايها الناس، لا يقتل بعضكم بعضا، وإذا رميتم الجمرة فارموا بمثل حصى الخذف".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي وَهُوَ رَاكِبٌ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَرَجُلٌ مِنْ خَلْفِهِ يَسْتُرُهُ، فَسَأَلْتُ عَنِ الرَّجُلِ: فَقَالُوا: الْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَازْدَحَمَ النَّاسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا يَقْتُلْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَإِذَا رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ فَارْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ".
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوار ہو کر بطن وادی سے جمرہ پر رمی کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کنکری پر تکبیر کہتے تھے، ایک شخص آپ کے پیچھے تھا، وہ آپ پر آڑ کر رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے (یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المناسک 63 (3028)، (تحفة الأشراف: 18306)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/503، 5/270، 379، 6/379) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Sulaiman bin Amr bin al-Ahwas: On the authority of his mother: I saw the Messenger of Allah ﷺ throwing pebbles at the jamrah from the botton of wadi (valley) while he was riding (on a camel). He was uttering the takbir (Allah is most great) with each pebble. A man behind him was shading him. I asked about the man. They (the people) said: He is al-Fadl bin al-Abbas. The people crowded. The Prophet ﷺ said: 'O people, do not kill each other ; when you throw pebbled at the jamrah, throw small pebbles.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 1961


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (3028،3031)
يزيد بن أبي زياد ضعيف
والجمھور علي تضعيف حديثه (ھدي الساري ص 459)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 75

   سنن أبي داود1966أم جندبلا يقتل بعضكم بعضا إذا رميتم الجمرة ارموا بمثل حصى الخذف
   سنن ابن ماجه3028أم جندبإذا رميتم الجمرة ارموا بمثل حصى الخذف
   سنن ابن ماجه3031أم جندبيوم النحر عند جمرة العقبة استبطن الوادي رمى الجمرة بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة ثم انصرف
   مسندالحميدي361أم جندبأيها الناس عليكم السكينة لا يقتل بعضكم بعضا، وعليكم مثل حصى الخذف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3028  
´رمی کی کنکریاں کتنی بڑی ہونی چاہئیں؟`
سلیمان بن عمرو بن احوص کی والدہ (ام جندب الازدیہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کے پاس ایک خچر پر سوار دیکھا، آپ فرما رہے تھے: لوگو! جب جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارو تو ایسی ہوں جو دونوں انگلیوں کے درمیان آ جائیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3028]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔
اور اس کے شواہد کا ذکر کیا ہے۔
لیکن ان شواہد کی صحت و ضعف کی طرف اشارہ نہیں کیا جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قراردیا ہے اور اس کی بابت سیر حاصل بحث کی ہے۔
محققین کی اس بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
لہذا مذ کورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پرقابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 25/ 495 /496، وصحيح أبي داؤد (مفصل)
للألباني، رقم: 1715)


(2)
  عالم کو چاہیے کہ ہر مقام پر موقع کی مناسبت سے مسائل بیان کرے۔

(3)
حج کے دوران میں وعظ و نصیحت کرنا اور مسائل بیان کرنا درست ہے۔

(4)
وعظ یا مسائل بیان کرنے کے دوران میں مقام یا بلند چیز پر کھڑا ہونا مناسب ہےخاص طور پر جب کہ حاضرین کی تعداد زیادہ ہو تو منبر وغیرہ پر خطبہ دینا چاہیے۔
منبر نہ ہو تو زمین پر کھڑے ہوکر یا سواری پر بھی خطاب کیا جا سکتا ہے۔

(5)
  منی میں تین ستون بنے ہوئے ہیں۔
جنھیں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
ہر ستون جمرہ کہلاتا ہے۔
بڑے جمرے کا نام جمرة العقبة ہے۔
مسجد خیف کی طرف سے آئیں تویہ سب آخر میں پڑتا ہے۔
اور اگر طريق المشاة پر چلتے ہوئے مکہ سے منی پہنچیں تو یہ سب سے پہلے آتا ہے۔
دس ذی الحجہ کو صرف اس کی رمی کی جاتی ہے نیز اس کی رمی کے بعد دعا نہ کرنا سنت ہے۔
درمیانی جمرے کو الحمرة الوسطي اور چھوٹے جمرے کو الجمرة الاولي کہتے ہیں۔
مسجد خیف سے جمرات کی طرف آئیں تو سب سے پہلے یہی آتا ہے نیز دس ذوالحجہ کے سوا ایام میں سب سے پہلے اس کی رمی کی جاتی ہے۔

(4)
عام لوگ جمرات کو شیطان کہتے ہیں یہ درست نہیں۔
یہاں کنکریاں مارنا حج کی عبادت کا ایک حصہ ہے اور عبادت کی جگہ کو شیطان کہنا انتہائی نامناسب ہے۔

(5)
جمرات پر بڑی بڑی کنکریاں پتھر یا جوتے مارنا سنت کے خلاف اور غلو ہے جس سے عمل کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔

(6)
کنکریوں کی مقدار کے لیے حدیث میں (حصي الخذف)
کے الفاظ ہیں یعنی ایسی کنکریاں جنھیں دو انگلیوں میں پکڑ کر دور پھینکا جا سکےاس لیے ترجمہ چھوٹی کنکریاں کیا گیاہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3028   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1966  
´رمی جمرات کا بیان۔`
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوار ہو کر بطن وادی سے جمرہ پر رمی کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کنکری پر تکبیر کہتے تھے، ایک شخص آپ کے پیچھے تھا، وہ آپ پر آڑ کر رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے (یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1966]
1966. اردو حاشیہ:
➊ الجمرۃ کے لغت میں کئی معنی ہیں: دہکتا ہوا کوئلہ ایسا قبیلہ جوکسی اور سے ملا نہ ہو اور تین سو یا ایک ہزار سور ماؤں کی جماعت کو جمرہ کہتے ہیں۔ ایک قبیلے کا دوسروں کے مقابلہ میں جمع ہو جانا بھی جمرہ کہلاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سےان جگہوں کو جمرہ یا جمرات کہتے ہیں جہاں حاجی کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ مقام اصل میں چھوٹی کنکریاں کے ڈھیرسے تھے۔ (چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے) جو مکہ کی جانب میں ہے اسے جمرہ کبریٰ اور جمرۂ عقبہ کہتے ہیں۔ جومنی ٰ کی طرف ہے اسے جمرۂ صغریٰ اور ان کے درمیان والے کو جمرۂ وسطی کہا جاتا ہے۔
«حصى الخذف» کی توضیح کے لیے دیکھیے حدیث: 1905فائدہ:35)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1966   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.