الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
Marriage (Kitab Al-Nikah)
13. باب مَا يُكْرَهُ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ
13. باب: ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔
Chapter: Women Whom It Is Disliked To Combine Between (In Marriage).
حدیث نمبر: 2071
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، وقتيبة بن سعيد المعنى، قال احمد: حدثنا الليث، حدثني عبد الله بن عبيد الله بن ابي مليكة القرشي التيمي، ان المسور بن مخرمة حدثه، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، يقول:" إن بني هشام بن المغيرة استاذنوني ان ينكحوا ابنتهم من علي بن ابي طالب، فلا آذن، ثم لا آذن، ثم لا آذن، إلا ان يريد ابن ابي طالب ان يطلق ابنتي وينكح ابنتهم، فإنما ابنتي بضعة مني يريبني ما ارابها ويؤذيني ما آذاها". والإخبار في حديث احمد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْمَعْنَى، قَالَ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ التَّيْمِيُّ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ:" إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَلَا آذَنُ، ثُمَّ لَا آذَنُ، ثُمَّ لَا آذَنُ، إِلَّا أَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يُرِيبُنِي مَا أَرَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا". وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ أَحْمَدَ.
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے ۱؎ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرانے کی اجازت مجھ سے مانگی ہے تو میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، ہاں اگر علی ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں، کیونکہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اسے برا لگتا ہے وہ مجھے بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المناقب 12 (3714)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 14 (2449)، سنن الترمذی/المناقب 61 (3867)، سنن النسائی/الکبری/ المناقب (8370، 8371)، (تحفة الأشراف: 11267)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/328) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں سے مراد ابوالحکم عمرو بن ہشام جسے ابوجہل کہتے ہیں کے بھائی حارث بن ہشام اور سلمہ بن ہشام ہیں جو فتح مکہ کے سال اسلام لے آئے تھے اور اس میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بھی داخل ہیں جو سچے مسلمان تھے۔

Al Miswar bin Makramah said that he heard the Messenger of Allah ﷺ say on the pulpit Banu Hashim bin Al Mughirah sought permission from me to marry their daughter to Ali bin Abi Talib. But I do not permit, again, I do not permit, again, I do not permit except that Ibn Abi Talib divorces my daughter and marries their daughter. My daughter is my part, what makes her uneasy makes me uneasy and what troubles her troubles me. The full information rests with the tradition narrated by Ahmad.
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2066


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5230) صحيح مسلم (2449)

   صحيح البخاري5230مسور بن مخرمةاستأذنوا في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   صحيح البخاري3714مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح البخاري5278مسور بن مخرمةاستأذنوا في أن ينكح علي ابنتهم فلا آذن
   صحيح البخاري3729مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني أكره أن يسوءها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد
   صحيح البخاري3110مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله أبدا
   صحيح البخاري3767مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح مسلم6309مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فأوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   صحيح مسلم6308مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني يؤذيني ما آذاها
   صحيح مسلم6310مسور بن مخرمةأنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني فصدقني فاطمة بنت محمد مضغة مني أكره أن يفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   صحيح مسلم6307مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يحب ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   جامع الترمذي3867مسور بن مخرمةاستأذنوني في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داود2071مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم من علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داود2069مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   سنن ابن ماجه1999مسور بن مخرمةفاطمة بنت محمد بضعة مني أكره أن تفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   سنن ابن ماجه1998مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يريد علي بن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   المعجم الصغير للطبراني491مسور بن مخرمة أن على بن أبى طالب ، خطب بنت أبى جهل ، فقال النبى صلى الله عليه وآله وسلم : إن كنت تزوجها ، فرد علينا ابنتنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5278  
´اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان`
«. . . عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ بَنِي الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يَنْكِحَ عَلِيٌّ ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ . . .»
. . . مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5278]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5278 کا باب: «بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں میاں بیوی کے مابین ناچاکی اور نااتفاقی کے امور کی وضاحت فرمائی ہے , جبکہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ وارد نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔

علامہ کرمانی رقمطراز ہیں:
«توخز مطابقة الترجمة من كون فاطمۃ ما كانت ترضيٰ بذالك، فكان الشقاق بينهما وبين على متوقعاً فاراد رضى الله عنه دفع وقوعه.» [شرح كرماني: 159/19]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس نکاح پر راضی نہ تھیں، اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نکاح کر لیتے تو دونوں کے مابین شقاق اور اختلافات کا خدشہ پیدا ہوتا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نکاح سے روک کر دونوں کے درمیان واقع ہونے والے شقاق و اختلاف کو روک دیا ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ اس عورت سے نکاح کر لیتے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے درمیان شدید اختلافات نمودار ہو جاتے، لہٰذا اس اختلافات کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، امام کرمانی کی تطبیق پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهي مناسبة جيدة.» [فتح الباري لابن حجر: 345/90]
یہ ایک بہترین مناسبت ہے۔
ابن التین میں ترجمۃ الباب پر اعتراض فرمایا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ:
«واعترضه ابن التين بأنه ليس فيه دلالة على ترجم به، ونقل ابن بطال قبله عن المهلب قال: انما حاول البخاري يايراده ان يجعل قول النبى صلى الله عليه وسلم فلا اذن» [فتح الباري لابن حجر: 340/10]

ابن التین نے ترجمۃ الباب پر یہ کہا کہ حدیث سے اس کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے، اس کو ابن بطال اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ ابن مہلب نے فرمایا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ارادے سے اس حدیث کو پیش فرمایا ہے تحت الترجمۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت اسی وجہ سے نہیں دے رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کو ان میاں بیوی میں ناچاکی اور نااتفاقی کا اندیشہ تھا، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ نے بھی یہی مناسب دی ہے۔ دیکھیے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 327/24]

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کا احتمال (ترجمۃ الباب سے) اس حدیث پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، «فلا أذن لهم» پس یہ اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے اس عورت سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔ [المتوري: ص 299]

دراصل وہ حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب فرمایا ہے اس حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح میں درج کیا ہے، حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب تطبیق میں مزید اضافہ ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا ڈر اس چیز پر منحصر نہیں تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسرا نکاح کر رہے تھے کیونکہ اس دور میں آدمی کا دوسری یا تیسری شادی کرنا ایک عام رجحان تھا لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناپسندیدگی کا اظہار اس عمل پر موقوف تھا کہ وہ لڑکی ابوجہل کی بیٹی تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے دوست کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کس طرح سے جمع ہو سکتی تھیں؟
یہی وجہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 105   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2071  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے ۱؎ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرانے کی اجازت مجھ سے مانگی ہے تو میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، ہاں اگر علی ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں، کیونکہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اسے برا لگتا ہے وہ مجھے بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی ہوتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2071]
فوائد ومسائل:
اس میں نبی ﷺ نے وہ وجہ بیان فرما دی جس کی بنا پر آپ نے حضرت علی رضی اللہ کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دی۔
اور وہ یہ کہ دوسرا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے اذیت کا باعث ہو سکتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہو تا ہے اگر ایسا ہوتا تو اس سے پھر رسول ﷺکو بھی اذیت پہنچتی، جو حضرت علی کے ایمان کے لئے خطرے کا باعث ہوتی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2071   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2069  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2069]
فوائد ومسائل:
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسول ﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لئے ہلاکت کا باعث ہوتی۔
اس لیے انہیں بطورخاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول ﷺکو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔
قرآن مجید میں ہے کہ (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ) (الأحزاب:35) تمہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو۔

2:عترت رسول ﷺکو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول ﷺکی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضی کو مستلزم ہے۔
مگر لازمی شرط ہے کہ آل رسول کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔

3: حضرت فاطمہ رضی اللہ رسول ﷺکی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول ﷺاور حضرت فاطمہ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغوقیاس ہے۔

5: صاحب فضل داماد کی مدح وتوصیف کی جاسکتی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2069   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1998  
´غیرت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۱؎ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1998]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔

(2)
  رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔
اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔
گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔

(3)
منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔
اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔
اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔

(4)
  اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور شفقت کا ثبوت ہے۔
اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1998   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.