الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
41. بَابُ صَاحِبُ السِّلْعَةِ أَحَقُّ بِالسَّوْمِ:
41. باب: سامان کے مالک کو قیمت کہنے کا زیادہ حق ہے۔
(41) Chapter. The owner of a thing has to suggest a price.
حدیث نمبر: 2106
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الوارث، عن ابي التياح، عن انس رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا بني النجار، ثامنوني بحائطكم وفيه خرب ونخل".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ وَفِيهِ خِرَبٌ وَنَخْلٌ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے، ان سے ابوالتیاح نے، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے بنو نجار! اپنے باغ کی قیمت مقرر کر دو۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کو مسجد کے لیے خریدنا چاہتے تھے) اس باغ میں کچھ حصہ تو ویرانہ اور کچھ حصے میں کھجور کے درخت تھے۔

Narrated Anas: The Prophet said, "O Bani Najjar! Suggest a price for your garden." Part of it was a ruin and it contained some date palms.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 319


   صحيح البخاري2779أنس بن مالكثامنوني بحائطكم قالوا لا نطلب ثمنه إلا إلى الله
   صحيح البخاري2106أنس بن مالكثامنوني بحائطكم وفيه خرب ونخل
   صحيح البخاري1868أنس بن مالكثامنوني فقالوا لا نطلب ثمنه إلا إلى الله فأمر بقبور المشركين فنبشت ثم بالخرب فسويت وبالنخل فقطع فصفوا النخل قبلة المسجد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2106  
2106. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے بنو نجار! تم اپنے باغ کی قیمت بتاؤ۔ "اس باغ کا کچھ حصہ ویران اور کچھ نخلستان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2106]
حدیث حاشیہ:
یعنی مال کی قیمت پہلے وہی بیان کرے، پھر خریدار جو چاہے کہے، اس کا مطلب نہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے، کیوں کہ اوپر جابر کی حدیث میں گزرا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2106   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2106  
2106. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے بنو نجار! تم اپنے باغ کی قیمت بتاؤ۔ "اس باغ کا کچھ حصہ ویران اور کچھ نخلستان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2106]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ سامان کے مالک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے سامان کی قیمت بتائے اور اس کی مقدار مقرر کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے پوچھا:
تم اپنے باغ کی قیمت سے مجھے آگاہ کرو،اس لیے چیز کا مالک یا اس کا وکیل قیمت طے کرے گا اس کے بعد خریدار جوڑ توڑ کرکے اسے نتیجے تک پہنچائے گا۔
لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اونٹ خریدا تو اس کی قیمت بھی از خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے طے کی تھی،آپ نے فرمایا:
" مجھے ایک اوقیہ چاندی کے عوض فروخت کرو۔
"(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2097) (2)
واضح رہے کہ حدیث میں ذکر کردہ وہی باغ ہے جہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی ہے۔
(فتح الباری: 4/412)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. إقامة المسجد النبوي (السيرة)
2. فضل الأنصار (السيرة)
3. الأحق بالسوم (المعاملات)
4. بناء مسجد النبي (العبادات)
موضوعات 1. مسجد نبوی کی تعمیر (سیرت)
2. انصار کے فضائل (سیرت)
3. سودا کا زیادہ حقدار (معاملات)
4. مسجد نبوی کی تعمیر (عبادات)
Topics 1. Construction of the Nabvi Masjid (Prophet's Biography)
2. Honor of Ansar (Prophet's Biography)
3. The most deserved for a deal (Matters)
4. Construction of Prophet's Mosque (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/2106 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اے بنو نجار! تم اپنے باغ کی قیمت بتاؤ۔
"اس باغ کا کچھ حصہ ویران اور کچھ نخلستان تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ سامان کے مالک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے سامان کی قیمت بتائے اور اس کی مقدار مقرر کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے پوچھا:
تم اپنے باغ کی قیمت سے مجھے آگاہ کرو،اس لیے چیز کا مالک یا اس کا وکیل قیمت طے کرے گا اس کے بعد خریدار جوڑ توڑ کرکے اسے نتیجے تک پہنچائے گا۔
لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اونٹ خریدا تو اس کی قیمت بھی از خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے طے کی تھی،آپ نے فرمایا:
" مجھے ایک اوقیہ چاندی کے عوض فروخت کرو۔
"(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2097) (2)
واضح رہے کہ حدیث میں ذکر کردہ وہی باغ ہے جہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی ہے۔
(فتح الباری: 4/412)
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے، ان سے ابوالتیاح نے، اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اے بنو نجار! اپنے باغ کی قیمت مقرر کردو۔
(آپ ﷺ نے اس جگہ کو مسجد کے لیے خریدنا چاہتے تھے)
اس باغ میں کچھ حصہ تو ویرانہ اور کچھ حصے میں کھجور کے درخت تھے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی مال کی قیمت پہلے وہی بیان کرے، پھر خریدار جو چاہے کہے، اس کا مطلب نہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے، کیوں کہ اوپر جابر کی حدیث میں گزرا ہے۔
(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA)
:
The Prophet (ﷺ) said, "O Bani Najjar! Suggest a price for your garden." Part of it was a ruin and it contained some date palms. حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
یعنی مال کی قیمت پہلے وہی بیان کرے، پھر خریدار جو چاہے کہے، اس کا مطلب نہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے، کیوں کہ اوپر جابر کی حدیث میں گزرا ہے۔
(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2124٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2106٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1964٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2106٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
2000٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2045٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2106٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2106١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2106 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔
اور سود کو حرام قراردیا ہے۔
" نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)
" فائدہ:
سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔
جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔
اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔
اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔
اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔
دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔
انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔
معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔
لفظ بيوع بيع کی جمع ہے۔
اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔
بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔
یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں:
(1)
مشتری (خریدار) (2)
بائع (فروخت کار) (3)
بیع(مال تجارت) (4)
بیع (معاہدۂ تجارت)
۔
قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾ )
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔
"(النساء29: 4)
باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔
اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔
اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:
(1)
فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔
(2)
خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
(3)
قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
(4)
فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔
(5)
کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔
(6)
اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔
(7)
اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔
کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔
ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔
عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔
معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔
(عمدۃ القاری: 8/291)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔
(فتح الباری: 4/364)
امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔
ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔
مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔
ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔
قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔
آمين سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:
" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔
اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔
(عمدۃ القاری: 8/292)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2106   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.