الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
86. بَابُ بَيْعِ النَّخْلِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا:
86. باب: جب تک کھجور پختہ نہ ہو اس کا بیچنا منع ہے۔
(86) Chapter. The sale of date-palms (date trees) before their benefit is evident. (i.e., their dates are ripe).
حدیث نمبر: 2197
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني علي بن الهيثم، حدثنا معلى بن منصور الرازي، حدثنا هشيم، اخبرنا حميد، حدثنا انس بن مالك رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه" نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، وعن النخل حتى يزهو"، قيل: وما يزهو؟ قال: يحمار او يصفار.(مرفوع) حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، وَعَنِ النَّخْلِ حَتَّى يَزْهُوَ"، قِيلَ: وَمَا يَزْهُو؟ قَالَ: يَحْمَارُّ أَوْ يَصْفَارُّ.
مجھ سے علی بن ہشیم نے بیان کیا کہ ہم سے معلی بن منصور نے بیان کیا، ان سے ہشیم نے بیان کیا، انہیں حمید نے خبر دی اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے اور کھجور کے باغ کو «زهو» سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ «زهو» کسے کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا مائل بہ سرخی یا مائل بہ زردی ہونے کو کہتے ہیں۔

Narrated Anas bin Malik: The Prophet forbade the sale of fruits till their benefit is evident; and the sale of date palms till the dates are almost ripe. He was asked what 'are almost ripe' meant. He replied, "Got red and yellow."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 402


   صحيح البخاري2208أنس بن مالكنهى عن بيع ثمر التمر حتى يزهو
   صحيح البخاري2195أنس بن مالكتباع ثمرة النخل حتى تزهو
   صحيح البخاري2197أنس بن مالكبيع الثمرة حتى يبدو صلاحها عن النخل حتى يزهو
   صحيح البخاري1488أنس بن مالكعن بيع الثمار حتى تزهي قال حتى تحمار
   صحيح مسلم3977أنس بن مالكنهى عن بيع ثمر النخل حتى تزهو
   صحيح مسلم3978أنس بن مالكنهى عن بيع الثمرة حتى تزهي
   صحيح مسلم3979أنس بن مالكإن لم يثمرها الله فبم يستحل أحدكم مال أخيه
   جامع الترمذي1228أنس بن مالكنهى عن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد
   سنن أبي داود3371أنس بن مالكنهى عن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد
   سنن ابن ماجه2217أنس بن مالكنهى عن بيع الثمرة حتى تزهو وعن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم496أنس بن مالكحين تحمر
   صحيح البخاري2198أنس بن مالكبيع الثمار حتى تزهي
   بلوغ المرام715أنس بن مالكنهى عن بيع الثمار حتى تزهى
   بلوغ المرام716أنس بن مالكنهى عن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 496  
´کچا پھل بیچنے کی ممانعت`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي. فقيل له: يا رسول الله وما تزهي؟ قال حين تحمر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کے پکنے سے پہلے انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ پوچھا: گیا: یا رسول اللہ! پکنے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرخ ہو جانا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 496]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1488، 2198، ومسلم 1555/15، من حديث مالك به وصرح حميد بالسماع عند البخاري 2197]

تفقه:
➊ چونکہ اس طرح کے سودے میں کسی ایک فریق کے شدید نقصان کا اندیشہ رہتا ہے اور شدید اختلاف پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے لہٰذا عام لوگوں کو اس سے منع کر دیا گیا ہے۔
➋ اسلامی تجارت کے خصائص میں سے ہے کہ فریقین میں سے کسی فریق کو بھی کوئی نقصان نہ ہو۔
➌ شریعت اسلامیہ میں ہر انسان کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رہیں۔
➍ ایک چیز جو بعد میں نقصان دیتی ہے، سدِ ذرائع کے طور پر اس کے واقع ہونے سے پہلے منع کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 151   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2217  
´استعمال کے لائق ہونے سے پہلے درخت کے کچے پھل کو بیچنا منع ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ پکنے کے قریب ہو جائے، اور انگور کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ ہو جائے، اور غلے کی بیع سے (بھی منع کیا ہے) یہاں تک کہ وہ سخت ہو جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2217]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مختلف اجناس کا قابل فروخت ہونا مختلف انداز سے ظاہر ہوتا ہے۔

(2)
  باغ کے پھل جب کچے ہوتے ہیں تو سبز ہوتے ہیں، بعد میں آہستہ آہستہ ان کا اصلی رنگ ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
اس وقت ان پھلوں کو بیچنا درست ہے۔
رنگ بدلنے سے اصل مقصد یہی ہے کہ اتنے بڑے ہوجائیں کہ موسمی خطرات سے نکل آئیں۔

(3)
گندم وغیرہ کی بالیوں میں دانے نرم و نازک ہوتے ہیں، بعد میں آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
اور یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہےکہ کھیت میں کتنی پیداور ہوگی۔
اس وقت کھڑی فصل بیچنا جائز ہے، اس سے پہلے نہیں۔

(4)
پھل یا فصل کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد بھی فروخت کرنے کے بعد اگر کوئی آفت آجائے، مثلاً:
آندھی طوفان وغیرہ جس سے فصل تباہ ہوجائے تو فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت وصول نہ کرے، اگر وصول کرلی ہے تو واپس کردے۔ (دیکھیے، حدیث: 2219)

(5)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح، قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم 2217، و الإرواء للألبانی، رقم: 1364، 1366، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد 12/ 37)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2217   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 716  
´بیع عرایا، درختوں اور (ان کے) پھلوں کی بیع میں رخصت`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی اس کے بھی راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو سیاہ رنگ اختیار کرنے سے پہلے اور دانے کو سخت ہونے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 716»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في بيع الثمار قبل أن يبدو صلاحها، حديث:3371، والترمذي، البيوع، حديث:1228، وابن ماجه، التجارات، حديث:2217، وأحمد:3 /221، وابن حبان (الإحسان):7 /231 /حديث:4972، والحاكم:2 /19، حميد الطويل مدلس وعنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۲ /۳۷‘ والإرواء للألباني‘ رقم: ۱۳۶۴. ۱۳۶۶) 2.گندم وغیرہ کے دانے بالیوں میں نرم و نازک ہوتے ہیں‘ پھر آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے‘ نیز یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کھیت میں کتنی پیداوار ہو گی۔
اس وقت کھڑی فصل بیچنا جائز ہے‘ اس سے قبل نہیں۔
لیکن پھل یا فصل کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد بھی فروخت کرنے کے بعد اگر کوئی آفت وغیرہ آ جاتی ہے جس سے فصل تباہ ہو جاتی ہے تو فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت واپس کر دے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص باغ کا پھل وغیرہ فروخت کرے‘ پھر اس پر آفت آ جائے تو بیچنے والے کو چاہیے کہ اپنے بھائی کے مال سے کچھ نہ لے‘ یعنی اس کی قیمت وصول نہ کرے۔
آپ نے فرمایا: وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال کس وجہ سے لیتا ہے؟ (صحیح مسلم‘ المساقاۃ‘ باب وضع الجوائح‘ حدیث:۱۵۵۴) نیز اگلی روایت سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
بنابریں ان احادیث کی رو سے فروخت کرنے والے کے لیے آفت آنے کے بعد فصل کی قیمت اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 716   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2197  
2197. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے پھل فروخت کرنے سے منع فرمایا تاآنکہ وہ نفع کے قابل ہوجائے اور کھجور بیچنے سے منع فرمایا حتیٰ کہ وہ زہوہوجائے۔ عرض کیا گیا زہو کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا:سرخ ہوجائے یا زرد ہوجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2197]
حدیث حاشیہ:
گویا لفظ زہو خاص کھجور کے مائل بہ سرخی یا مائل بہ زردی ہونے پر بولا جاتاہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2197   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2197  
2197. حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے پھل فروخت کرنے سے منع فرمایا تاآنکہ وہ نفع کے قابل ہوجائے اور کھجور بیچنے سے منع فرمایا حتیٰ کہ وہ زہوہوجائے۔ عرض کیا گیا زہو کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا:سرخ ہوجائے یا زرد ہوجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2197]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اس عنوان سے مراد کھجوروں کے درخت فروخت کرنا ہے اور قبل ازیں پھل فروخت کرنے کا ذکر تھا،اس بنا پر یہ تکرار نہیں۔
(فتح الباري: 502/4)
لیکن ہمارے نزدیک اس عنوان سے مراد کھجور کا پھل فروخت کرنا ہی ہے کیونکہ زہو کا تعلق کھجور کے اس پھل سے ہوتا ہے جو تازہ ہو۔
قبل ازیں پھلوں کا ذکر تھا اور اس عنوان میں کھجور کے پھل کا بطور خاص ذکر ہوا ہے کیونکہ عر بوں کے ہاں علاقۂ حجاز میں کھجور ہی بکثرت پائی جاتی تھی۔
(2)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ سوال کرنے والے حضرت انس ؓ کے شاگرد خاص حضرت حمید ہیں اور جواب دینے والے حضرت انس ؓ ہیں۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2208)
(3)
بہرحال قابل انتفاع ہونے سے قبل کسی قسم کے پھل کی خریدوفروخت درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے کسی ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جس کی وضاحت آئندہ آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2197   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.