الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
85. بَابُ بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا:
85. باب: پھلوں کی پختگی معلوم ہونے سے پہلے ان کو بیچنا منع ہے۔
(85) Chapter. The sale of fruits before their benefit is evident (i.e., they are free from all the dangers of being spoilt or blighted).
حدیث نمبر: 2195
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا حميد الطويل، عن انس رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى انتباع ثمرة النخل حتى تزهو"، قال ابو عبد الله: يعني حتى تحمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْتُبَاعَ ثَمَرَةُ النَّخْلِ حَتَّى تَزْهُوَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: يَعْنِي حَتَّى تَحْمَرَّ.
ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حمید طویل نے اور انہیں انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکنے سے پہلے درخت پر کھجور کو بیچنے سے منع فرمایا ہے، ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ( «حتى تزهو‏.‏» سے) مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہو جائیں۔

Narrated Anas: Allah's Apostle forbade the sale of date fruits till they were ripe. Abu `Abdullah (Al-Bukhari) said, "That means till they were red (can be eaten).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 400


   صحيح البخاري2208أنس بن مالكنهى عن بيع ثمر التمر حتى يزهو
   صحيح البخاري2195أنس بن مالكتباع ثمرة النخل حتى تزهو
   صحيح البخاري2197أنس بن مالكبيع الثمرة حتى يبدو صلاحها عن النخل حتى يزهو
   صحيح البخاري1488أنس بن مالكعن بيع الثمار حتى تزهي قال حتى تحمار
   صحيح مسلم3977أنس بن مالكنهى عن بيع ثمر النخل حتى تزهو
   صحيح مسلم3978أنس بن مالكنهى عن بيع الثمرة حتى تزهي
   صحيح مسلم3979أنس بن مالكإن لم يثمرها الله فبم يستحل أحدكم مال أخيه
   جامع الترمذي1228أنس بن مالكنهى عن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد
   سنن أبي داود3371أنس بن مالكنهى عن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد
   سنن ابن ماجه2217أنس بن مالكنهى عن بيع الثمرة حتى تزهو وعن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم496أنس بن مالكحين تحمر
   صحيح البخاري2198أنس بن مالكبيع الثمار حتى تزهي
   بلوغ المرام715أنس بن مالكنهى عن بيع الثمار حتى تزهى
   بلوغ المرام716أنس بن مالكنهى عن بيع العنب حتى يسود وعن بيع الحب حتى يشتد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 496  
´کچا پھل بیچنے کی ممانعت`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي. فقيل له: يا رسول الله وما تزهي؟ قال حين تحمر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کے پکنے سے پہلے انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ پوچھا: گیا: یا رسول اللہ! پکنے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرخ ہو جانا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 496]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1488، 2198، ومسلم 1555/15، من حديث مالك به وصرح حميد بالسماع عند البخاري 2197]

تفقه:
➊ چونکہ اس طرح کے سودے میں کسی ایک فریق کے شدید نقصان کا اندیشہ رہتا ہے اور شدید اختلاف پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے لہٰذا عام لوگوں کو اس سے منع کر دیا گیا ہے۔
➋ اسلامی تجارت کے خصائص میں سے ہے کہ فریقین میں سے کسی فریق کو بھی کوئی نقصان نہ ہو۔
➌ شریعت اسلامیہ میں ہر انسان کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رہیں۔
➍ ایک چیز جو بعد میں نقصان دیتی ہے، سدِ ذرائع کے طور پر اس کے واقع ہونے سے پہلے منع کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 151   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2217  
´استعمال کے لائق ہونے سے پہلے درخت کے کچے پھل کو بیچنا منع ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ پکنے کے قریب ہو جائے، اور انگور کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ ہو جائے، اور غلے کی بیع سے (بھی منع کیا ہے) یہاں تک کہ وہ سخت ہو جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2217]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مختلف اجناس کا قابل فروخت ہونا مختلف انداز سے ظاہر ہوتا ہے۔

(2)
  باغ کے پھل جب کچے ہوتے ہیں تو سبز ہوتے ہیں، بعد میں آہستہ آہستہ ان کا اصلی رنگ ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
اس وقت ان پھلوں کو بیچنا درست ہے۔
رنگ بدلنے سے اصل مقصد یہی ہے کہ اتنے بڑے ہوجائیں کہ موسمی خطرات سے نکل آئیں۔

(3)
گندم وغیرہ کی بالیوں میں دانے نرم و نازک ہوتے ہیں، بعد میں آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
اور یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہےکہ کھیت میں کتنی پیداور ہوگی۔
اس وقت کھڑی فصل بیچنا جائز ہے، اس سے پہلے نہیں۔

(4)
پھل یا فصل کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد بھی فروخت کرنے کے بعد اگر کوئی آفت آجائے، مثلاً:
آندھی طوفان وغیرہ جس سے فصل تباہ ہوجائے تو فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت وصول نہ کرے، اگر وصول کرلی ہے تو واپس کردے۔ (دیکھیے، حدیث: 2219)

(5)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح، قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم 2217، و الإرواء للألبانی، رقم: 1364، 1366، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد 12/ 37)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2217   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 716  
´بیع عرایا، درختوں اور (ان کے) پھلوں کی بیع میں رخصت`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی اس کے بھی راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو سیاہ رنگ اختیار کرنے سے پہلے اور دانے کو سخت ہونے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 716»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في بيع الثمار قبل أن يبدو صلاحها، حديث:3371، والترمذي، البيوع، حديث:1228، وابن ماجه، التجارات، حديث:2217، وأحمد:3 /221، وابن حبان (الإحسان):7 /231 /حديث:4972، والحاكم:2 /19، حميد الطويل مدلس وعنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۲ /۳۷‘ والإرواء للألباني‘ رقم: ۱۳۶۴. ۱۳۶۶) 2.گندم وغیرہ کے دانے بالیوں میں نرم و نازک ہوتے ہیں‘ پھر آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے‘ نیز یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کھیت میں کتنی پیداوار ہو گی۔
اس وقت کھڑی فصل بیچنا جائز ہے‘ اس سے قبل نہیں۔
لیکن پھل یا فصل کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد بھی فروخت کرنے کے بعد اگر کوئی آفت وغیرہ آ جاتی ہے جس سے فصل تباہ ہو جاتی ہے تو فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت واپس کر دے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص باغ کا پھل وغیرہ فروخت کرے‘ پھر اس پر آفت آ جائے تو بیچنے والے کو چاہیے کہ اپنے بھائی کے مال سے کچھ نہ لے‘ یعنی اس کی قیمت وصول نہ کرے۔
آپ نے فرمایا: وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال کس وجہ سے لیتا ہے؟ (صحیح مسلم‘ المساقاۃ‘ باب وضع الجوائح‘ حدیث:۱۵۵۴) نیز اگلی روایت سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
بنابریں ان احادیث کی رو سے فروخت کرنے والے کے لیے آفت آنے کے بعد فصل کی قیمت اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 716   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2195  
2195. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پکنے سے پہلے کھجور کا پھل فروخت کرنے سے منع فرمایاہے۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ اس سے مراد ان کا سرخ ہونا ہے، یعنی سرخ ہونے سے قبل انھیں فروخت نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2195]
حدیث حاشیہ:
زہو کی تفسیر میں علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
یقال ذها النخل یزهو إذا ظهرت ثمرته و أزهی یزهي إذا احمر أو اصفر۔
یعنی جب کھجور کا پھل ظاہر ہو کر پختگی پر آنے کے لیے سرخ یا زرد ہو جائے تو اس پر زها النخل کا لفظ بولا جاتا ہے۔
اور اس کا موسم اساڑھ کا مہینہ ہے۔
اس میں عرب میں ثریا ستارہ صبح کے وقت نکلنے لگتا ہے۔
ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہے:
إذا طلع النجم صباحا رفعت العاهة عن کل بلد نجم سے مراد ثریا ہے یعنی جس موسم میں یہ ستارہ صبح کے وقت نکلنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ موسم اب پھلوں کے پکنے کا آگیا، اور اب پھلوں کے لیے خطرات کا زمانہ ختم ہو گیا۔
و النجم هو الثریا و طلوعها یقع في أول الصیف و ذلك عند اشتداد الحر في بلاد الحجاز و ابتداء نضج الثمار و أخرج أحمد من طریق عثمان بن عبداللہ بن سراقة سألت ابن عمر رضی اللہ عنهما عن بیع الثمار فقال نهی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم عن بیع الثمار حتی تذهب العاهة قلت و متی ذلك قال حتی تطلع الثریا۔
(نیل)
اس عبار ت کا اردو مفہوم وہی ہے جو پہلے لکھا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2195   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.