الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نکاح کے مسائل
13. باب اسْتِئْمَارِ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ:
13. کنواری اور شادی شدہ لڑکی سے شادی کی اجازت لینے کا بیان
حدیث نمبر: 2227
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثني عبيد الله بن عبد الرحمن بن موهب، اخبرنا نافع بن جبير بن مطعم، عن ابن عباس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "الايم املك بامرها من وليها، والبكر تستامر في نفسها، وصمتها إقرارها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "الْأَيِّمُ أَمْلَكُ بِأَمْرِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، وَصَمْتُهَا إِقْرَارُهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شوہر دیدہ عورت ولی سے زیادہ اپنے معاملے کی مختار ہے، اور کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور اس کا چپ رہنا ہی اس کا اقرار ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2236]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔ دیکھئے: رقم: (2225)۔ مزید دیکھئے: [أحمد 274/1]، [شرح معاني الآثار 11/3]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2225 سے 2227)
شادی کی جانے والی لڑکی دو حال سے خالی نہیں: یا کنواری یا ثیبہ، پھر ہر ایک کی دو قسمیں ہیں: جوان بالغہ ہوگی یا نابالغہ، اہلِ حدیث کے نزدیک ہر صورت میں لڑکی کو اختیار ہے چاہے تو قبول کرے یا انکار کر دے، نیز یہ کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کا باپ کرا سکتا ہے اور کم سنی میں عورت کا نکاح کر دینا درست ہے، لیکن بلوغت کے بعد اس کو خیار حاصل ہوگا جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کم سنی میں کر دیا تھا۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں عورت کی بہت اہمیت ہے اور اسلام نے اس عورت کو جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا، اسے پستی سے نکال کر بلندی پر پہنچایا، اس کی اہمیت کو دوبالا کیا، عورت کو شادی بیاہ کے معاملے میں اس سے مشورہ لینا تو دور اسے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت نہ تھی، سربراہ و ولی اپنی مرضی سے جس سے چاہتے تھے نکاح کر دیتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اس کا صحیح معاشرتی مقام و منصب دیا اور سرپرستوں کو حکم دیا کہ شوہر دیده (ثیبہ) سے مشورہ ضرور کیا جائے، اور کنواری سے اس کی رضا حاصل کی جائے، اور ثیبہ کا اس کی رضا و مشورہ کے بغیر نکاح کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بغیر ولی کے اپنا نکاح کر سکتی ہے۔
ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ ثیبہ کے بارے میں ولی کا کوئی اختیار نہیں یعنی ولی شوہر دیدہ عورت کو کسی سے نکاح کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔
مزید تفصیل آگے ملاحظہ کیجئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

   صحيح البخاري7416مغيرة بن شعبةلأنا أغير منه الله أغير مني ومن أجل غيرة الله حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن لا أحد أحب إليه العذر من الله ومن أجل ذلك بعث المبشرين والمنذرين لا أحد أحب إليه المدحة من الله ومن أجل ذلك وعد الله الجنة
   صحيح البخاري6846مغيرة بن شعبةلأنا أغير منه والله أغير مني
   صحيح مسلم3764مغيرة بن شعبةلأنا أغير منه الله أغير مني من أجل غيرة الله حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن لا شخص أغير من الله لا شخص أحب إليه العذر من الله من أجل ذلك بعث الله المرسلين مبشرين ومنذرين لا شخص أحب إليه المدحة من الله من أجل ذلك وعد الله

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.