الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
65. بَابُ إِذَا غَسَلَ الْجَنَابَةَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَمْ يَذْهَبْ أَثَرُهُ:
65. باب: اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے (تو کیا حکم ہے؟)۔
(65) Chapter. If the (traces of) Janaba (semen) or other spots are not removed completely on washing.
حدیث نمبر: 231
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى، قال: حدثنا عبد الواحد، قال: حدثنا عمرو بن ميمون، قال: سالت سليمان بن يسار في الثوب تصيبه الجنابة، قال: قالت عائشة:" كنت اغسله من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم يخرج إلى الصلاة واثر الغسل فيه بقع الماء".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ فِي الثَّوْبِ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" كُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِيهِ بُقَعُ الْمَاءِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن میمون نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کپڑے کے متعلق جس میں جنابت (ناپاکی) کا اثر آ گیا ہو، سلیمان بن یسار سے سنا وہ کہتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر نکلتے اور دھونے کا نشان یعنی پانی کے دھبے کپڑے میں ہوتے۔


Hum se Musa bin Ismail ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Abdul Waahid ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se ’Amr bin Maimoon ne, woh kehte hain ke main ne us kapde ke mutalliq jis mein janabat (na-paaki) ka asar aa gaya ho, Sulaiman bin Yasaar se suna woh kehte the ke Aisha Radhiallahu Anha ne farmaaya ke main Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ke kapde se mani ko dho daalti thi phir Aap Sallallahu Alaihi Wasallam Namaz ke liye bahar nikalte aur dhone ka nishaan yani paani ke dhabbe kapde mein hote.

Narrated Sulaiman bin Yasar: I asked `Aisha about the clothes soiled with semen. She replied, "I used to wash it off the clothes of Allah's Apostle and he would go for the prayer while water spots were still visible. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 231


   صحيح البخاري229عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء في ثوبه
   صحيح البخاري232عائشة بنت عبد اللهتغسل المني من ثوب النبي ثم أراه فيه بقعة أو بقعا
   صحيح البخاري230عائشة بنت عبد اللهأغسله من ثوب رسول الله فيخرج إلى الصلاة وأثر الغسل في ثوبه بقع الماء
   صحيح البخاري231عائشة بنت عبد اللهأغسله من ثوب رسول الله ثم يخرج إلى الصلاة وأثر الغسل فيه بقع الماء
   صحيح مسلم672عائشة بنت عبد اللهيغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب وأنا أنظر إلى أثر الغسل فيه
   سنن أبي داود373عائشة بنت عبد اللهتغسل المني من ثوب رسول الله قالت ثم أرى فيه بقعة أو بقعا
   سنن النسائى الصغرى296عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء لفي ثوبه
   بلوغ المرام25عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه
   مسندالحميدي186عائشة بنت عبد اللهولم غسله؟ إني كنت لأفرك المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 231  
´اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے`
«. . . حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ فِي الثَّوْبِ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " كُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِيهِ بُقَعُ الْمَاءِ " . . . .»
. . . ہم سے عمرو بن میمون نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کپڑے کے متعلق جس میں جنابت (ناپاکی) کا اثر آ گیا ہو، سلیمان بن یسار سے سنا وہ کہتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر نکلتے اور دھونے کا نشان یعنی پانی کے دھبے کپڑے میں ہوتے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِذَا غَسَلَ الْجَنَابَةَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَمْ يَذْهَبْ أَثَرُهُ:: 231]

تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاک کرنے کے بعد پانی کے دھبے اگر کپڑے پر باقی رہیں تو کچھ حرج نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 231   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 25  
´منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کپڑے پر لگی ہوئی) منی کو دھویا کرتے تھے۔ پھر اسی کپڑے کو زیب تن فرما کر نماز پڑھ لیتے تھے اور میں دھونے کے نشان اور اثر کو صاف طور پر (اپنی آنکھوں سے) دیکھتی تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 25]

لغوی تشریح:
«أَفْرُكُهُ» اس میں ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ را کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ جائز ہے۔ باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» اور «ضَرَبَ يَضْرِبُ» دونوں سے آتا ہے۔
«اَلْفَرْك» کے معنی ہیں: مَل کر صاف کرنا یہاں تک کہ نشان اور دھبہ وغیرہ زائل ہو جائے۔
«أَحُكُّهُ» میں بھی ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ حا کے ضمہ کے ساتھ «حَك» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی بھی ملنے اور کھرچنے کے ہیں۔
«يَابِسًا» حال واقع ہوا ہے جس کے معنی خشک کے ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس بارے میں وارد تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں، خواہ وہ خشک ہو یا تر، بلکہ اس کو زائل کرنے کے لئے جبکہ وہ تر ہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہاتھ، کپڑے، گھاس یا دیگر اشیاء، مثلاً: لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ سے صاف کر دیا جائے۔
➋ ایک گروہ نے ان احادیث کی روشنی میں یہ استدلال کیا ہے کہ منی پاک ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ منی پاک ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ «تَعَبُّدًا» منی کو دھو کر، ہاتھ کے ساتھ صاف کر کے، اسے مَل کر، کھرچ کر یا رگڑ کر زائل کرنا ثابت ہے۔ کسی چیز کے زائل کرنے کا حکم یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ چیز نجس ہے۔ پس صحیح موقف اور صائب مسلک یہی ہے کہ منی ناپاک ہے، لہٰذا مذکورہ بالا تمام طریقہ ہائے طہارت میں سے کسی ذریعے سے اس متاثرہ حصے کو پاک کیا جائے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ ہی نے السیل الجرار اور الدرر البھیّة میں منی کو پاک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نجاست پر کوئی نص نہیں۔ گویا اس بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔
➌ واضح رہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ منی آب بینی (ناک کی رطوبت) اور لعاب دہن کی طرح پاک ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام شافعی، داود ظاہری، امام احمد رحمها اللہ اور صحابہ میں سے سیدنا علی، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا ابن عمر اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کرتے ہیں۔ اور دوسرے مکتب فکر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خشک منی کھرچ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ پانی سے دھونا ضروری نہیں۔ دونوں مکتب فکر کے پاس دلائل ہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل اسے کھرچ دینا ہے۔ چونکہ اس کے بعد کپڑا دھویا نہیں گیا اس لیے یہ پاک ہے ورنہ کھرچنے کے بعد اسے دھویا ضرور جاتا۔ اور جس گروہ نے اسے ناپاک کہا ہے، ان کی دلیل منی سے آلودہ جگہ کو پانی سے دھونا ہے۔ اگر یہ پاک ہوتی تو دھونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اسے پاک کہنے والوں کا جواب یہ ہے کہ کپڑے کو دھویا تو صرف نظافت کی بنا پر گیا ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بدائع الفوائد، 3/ 119۔ 126 میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما ER ہجرت مدینہ سے دو سال قبل ماہ شوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی زوجیت میں لیا اور رخصتی شوال ایک ہجری میں ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ تعریف و توصیف سے مستغنیٰ ہیں۔ 57 یا 58 ہجری کے ماہ رمضان کی 17 تاریخ کو فوت ہوئیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ بہت سی احادیث کی راویہ ہیں۔ اشعار عرب سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ کی برأت آسمان سے نازل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے حجرے میں مدفون ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 25   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 229  
´ منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے `
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ فِي ثَوْبِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ: 229]

تخريج الحديث:
[165۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 64 باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب المراة 229، مسلم 289]
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ کھرچنے اور دھونے کے بعد بھی اگر منی کے کچھ نشان کپڑے پر باقی رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں اور اس اس کپڑے میں نماز درست ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ منی پاک ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ منی ناک کی رطوبت اور تھوک کی مانند ہے۔ اور تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ اسے کسی کپڑے یا اذخر گھاس سے صاف کر لو۔ [صحيح موقوف: الضعيفة 948، دار قطني 124/1، بيهقي 418/2]
امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [التعليق على سبل السلام للشيخ بسام 65/1، فتح الباري 332/1، نظم الفرائد 231/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 165   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 373  
´کپڑے میں منی لگ جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوتی تھیں، کہتی ہیں کہ پھر میں اس میں ایک یا کئی دھبے اور نشان دیکھتی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 373]
373۔ اردو حاشیہ:
➊ مرد کا مادہ منویہ اگر گاڑھا ہو تو اس کے جرم کا ازالہ کر دینا لازمی ہے، گیلا ہو تو کسی تنکے وغیرہ سے، خشک ہو تو مسلنے یا اکھیڑنے سے دور کر دیا جائے یا اسے دھویا بھی جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں عمل ثابت ہیں، لیکن اگر رقیق ہو تو دھو لینا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کہیں کوئی ویسا حکم نہیں دیا جیسے کہ عورتوں کو خون حیض کے بارے میں ہدایات دیں۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ منی بلغم کی مانند ہے، اسے دور کرو، خواہ گھاس کے تنکے سے ہو۔
➌ یہ بھی ثابت ہوا کہ صرف آلودہ حصے کو دھو لینا ہی کافی ہوتا ہے، باقی کپڑا پاک رہتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 373   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 296  
´کپڑے سے منی دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کا اثر دھوتی تھی ۱؎، پھر آپ نماز کے لیے نکلتے، اور پانی کے دھبے آپ کے کپڑے پر باقی ہوتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 296]
296۔ اردو حاشیہ:
➊ جنابت سے سبب جنابت، یعنی منی مراد ہے۔ منی کو کپڑے سے دھونے سے معلوم ہوتا ہے کہ منی پلید ہے اور یہ جمہور اہل علمم کا موقف ہے۔ ان کے بقول مخرج کے لحاظ سے بھی یہ بات زیادہ قوی ہے۔ سابقہ حدیث میں لفظ «أذي» بھی مؤید ہے کیونکہ یہ لفظ قرآن مجید میں حیض کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور حیض بالاتفاق پلید ہے، جب کہ بعض حضرات جن کے سرخیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، منی کو پاک سمجھتے ہیں۔ باقی رہا دھونا تو یہ نجاست کی دلیل نہیں، بلکہ نظافت کے لیے بھی دھویا جا سکتا ہے، جیسے ناک کی غلاظت یا بلغم وغیرہ کپڑے کو لگ جائے، تب بھی کپڑا دھویا جاتا ہے، خصوصاً جب کہ کئی دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف کپڑا ملنے اور رگڑنے کو کافی سمجھا ہے۔ ویسے بھی منی انبیاء و صلحاء کا مبدا ہے۔ یہ بدبو سے بھی پاک ہے، اس لیے اس مسلک کے حاملین کے نزدیک اسے دوسری پلید چیزوں کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
➋ سارا کپڑا دھونا ضروری نہیں۔ صرف آلودگی والی جگہ دھو لی جائے۔
➌ جس کپڑے سے منی دھوئی جائے، اس کے خشک ہونے سے پہلے نماز کے لیے مسجد میں جایا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 296   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:231  
231. عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سلیمان بن یسار سے منی آلود کپڑے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھو ڈالتی تھی، پھر آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ دھونے کا نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:231]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔
ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔
اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔
شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
۔
* پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 229)
* دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 230)
* پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 232)
ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔
پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔

امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔
البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:
اللہ کے رسول الله ﷺ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:
جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔
عرض کیا:
اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا:
پانی سے دھولینا کافی ہے۔
اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 365)
غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔
اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 231   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.