الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
طلاق کے مسائل
11. باب في عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا وَالْمُطَلَّقَةِ:
11. مطلقہ اور «متوفى عنها زوجها» کی حالت حمل میں عدت کا بیان
حدیث نمبر: 2316
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا يحيى بن سعيد، ان سليمان بن يسار اخبره، ان ابا سلمة بن عبد الرحمن اخبره: انه اجتمع هو وابن عباس عند ابي هريرة فذكروا الرجل يتوفى عن المراة فتلد بعده بليال قلائل، فقال ابن عباس: حلها آخر الاجلين. وقال ابو سلمة: إذا وضعت، فقد حلت، فتراجعا في ذلك بينهما، فقال ابو هريرة: انا مع ابن اخي يعني ابا سلمة، فبعثوا كريبا مولى ابن عباس إلى ام سلمة فسالها، فذكرت ام سلمة،"ان سبيعة بنت الحارث الاسلمية مات عنها زوجها، فنفست بعده بليال وان رجلا من بني عبد الدار يكنى ابا السنابل خطبها، واخبرها انها قد حلت فارادت ان تتزوج غيره، فقال لها ابو السنابل: فإنك لم تحلين، فذكرت سبيعة ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فامرها ان تتزوج".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ اجْتَمَعَ هُوَ وَابْنُ عَبَّاسٍ عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَذَكَرُوا الرَّجُلَ يُتَوَفَّى عَنِ الْمَرْأَةِ فَتَلِدُ بَعْدَهُ بِلَيَالٍ قَلَائِلَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حِلُّهَا آخِرُ الْأَجَلَيْنِ. وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: إِذَا وَضَعَتْ، فَقَدْ حَلَّتْ، فَتَرَاجَعَا فِي ذَلِكَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَبَعَثُوا كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَهَا، فَذَكَرَتْ أُمُّ سَلَمَةَ،"أَنَّ سُبَيْعَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةَ مَاتَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَنَفِسَتْ بَعْدَهُ بِلَيَالٍ وَأَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ يُكْنَى أَبَا السَّنَابِلِ خَطَبَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّهَا قَدْ حَلَّتْ فَأَرَادَتْ أَنْ تَتَزَوَّجَ غَيْرَهُ، فَقَالَ لَهَا أَبُو السَّنَابِلِ: فَإِنَّكِ لَمْ تَحِلِّينَ، فَذَكَرَتْ سُبَيْعَةُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ وہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے اور اس (حاملہ) عورت کے بارے میں تذکرہ ہوا جس کا شوہر وفات پا گیا ہو اور تھوڑے ہی دن کے بعد اس کی ولادت ہو جائے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس کی عدت کی مدت وہ ہوگی جو زیادہ ہے، اور ابوسلمہ نے کہا: جب وضع حمل ہوجائے تو وہ حلال ہوجائے گی (یعنی عدت ختم ہوگئی، وہ اب نکاح کرسکتی ہے)، اس بارے میں دونوں میں تکرار ہوئی تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں، پھر انہوں نے کریب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کو ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور انہوں نے ان سے یہ سوال پوچھا تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ سیدہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر نے وفات پائی اور اس کے چند دن بعد اس کو نفاس آ گیا (یعنی ولادت کے بعد خون جاری ہو گیا) اور بنو عبدالدار کے ایک شخص جن کی کنیت ابوالسنابل تھی انہوں نے سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دیا اور بتایا کہ (وضع حمل کے بعد) وہ شادی کے لئے حلال ہو چکی ہیں اور سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے انکو چھوڑ کر دوسرے شخص سے شادی کا ارادہ کر لیا تو ابوالسنابل نے کہا کہ تم حلال نہیں ہوئیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ قصہ ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ نکاح کر سکتی ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق على إسناده، [مكتبه الشامله نمبر: 2325]»
اس حدیث کی سند صحیح اور متفق علیہ روایت ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4909]، [مسلم 1486]، [ترمذي 1194]، ن [سائي 3511-3515]، [أبويعلی 6978]، [ابن حبان 4295]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2315)
عدت اس مدتِ انتظار کو کہتے ہیں جو عورت اپنے شوہر کی جدائی کے بعد طلاق کی وجہ سے یا فسخِ نکاح یا خاوند کی وفات کی وجہ سے گھر میں بیٹھ کر گزارتی ہے، اور اس کو سوگ منانا یا احداد کہتے ہیں۔
اس میں عورت کے لئے مخصوص مدت تک زیب و زینت اور آرائش سے دور رہنا ضروری رہتا ہے، اور ان ایام میں وہ نکاح بھی نہیں کر سکتی۔
متوفی عنہا زوجہا کی عدت چار ماہ دس دن، اور مطلقہ کی عدت تین حیض یا تین بار طہر کا ہونا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں وارد ہے [البقر: 228، 234] ۔
اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کا شوہر انتقال کر جائے تو اس کی عدت کتنے دن کی ہوگی؟ اس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے: « ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ .....﴾ [الطلاق: 4] » مذکور بالا حدیث سے بھی یہ ثابت ہوا کہ وہ حاملہ عورت جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو اس کی عدت وضعِ حمل ہے، یعنی ولادت کے بعد عدت ختم ہوجاتی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ متوفى عنہا زوجہا اگر حاملہ ہے تو دیکھا جائے گا کہ چار ماہ دس دن سے زیادہ جو مدت ہو وہی عدت عورت کو گذارنی پڑے گی، لیکن ان کا یہ خیال درست نہ تھا۔
سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہما نے جو کہا وہی صحیح ہے، ایسی حاملہ عورت وضعِ حمل کے بعد نکاح کر سکتی ہے لیکن نفاس کی حالت میں شوہر اس سے جماع نہیں کر سکتا۔
سیدہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر سیدنا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ تھے جو حجۃ الوداع سے چند روز بعد انتقال کر گئے تھے اور سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کی وفات کے کچھ دن بعد 15، 20، 40 یا پچاس دن بعد بچے کو جنم دیا تھا اور پھر انہوں نے شادی کر لی تھی۔
اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور مسائل میں ایک دوسرے سے رجوع کرنے کی قابلِ اتباع تعلیم ہے، پھر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات کو تسلیم کر لینا اس بات کی علامت ہے کہ حق جب واضح ہو جائے تو سمع و طاعت کے ساتھ سرِ تسلیم خم کر دینا چاہیے۔
سیدنا ابوالسنابل رضی اللہ عنہ نے پہلے اقرار پھر حلال ہونے کا انکار اس لئے کیا تھا کہ اہلِ خاندان جمع ہو جائیں اور انہیں سمجھائیں کہ سیدنا ابوالسنابل رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیں (راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق على إسناده


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.