الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
طلاق کے مسائل
10. باب في الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثاً أَلَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ أَمْ لاَ:
10. مطلقہ ثلاثہ کے لئے سکن اور خرچہ ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 2315
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا حفص، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن الاسود، قال: قال عمر: "لا نجيز قول امراة في دين الله: المطلقة ثلاثا لها السكنى والنفقة". قال ابو محمد: لا ارى السكنى والنفقة للمطلقة.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: "لَا نُجِيزُ قَوْلَ امْرَأَةٍ فِي دِينِ اللَّهِ: الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: لَا أَرَى السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ.
اسود سے مروی ہے امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اللہ کے دین میں کسی عورت کی بات نہیں مانیں گے۔ تین طلاق والی عورت کے لئے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ایسی مطلقہ کے لئے میرے نزدیک نہ سکنی ہے اور نہ نفقہ۔

تخریج الحدیث: «قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «لَا أَرَى السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ» ، [مكتبه الشامله نمبر: 2324]»
اس حدیث کی تخریج اور کچھ تفصیل اوپر حدیث نمبر (2312) میں گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2311 سے 2315)
ان احادیثِ صحیحہ میں کئی مسائل ہیں۔
کچھ یہاں بیان کئے جاتے ہیں۔
ان احادیث میں مذکور ہے: «فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا» اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تین طلاق ایک ساتھ دی گئی تھی، کیونکہ دیگر روایات میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ اس سے پہلے ان کو دو طلاق دی جا چکی تھی اور یہ تیسری طلاق تھی۔
ایک ساتھ تین طلاق دینے کا مسئلہ بعض علماء نے بڑا پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک بار میں تین طلاق دینا ہی غلط اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
قرآن پاک میں ہے «‏‏‏‏ ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ [البقره: 229] » باری باری طلاق دی جائے، اور سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ کسی صحابی نے اپنی بیوی کو یکبارگی تین طلاق دے دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں اٹھے اور فرمایا: اللہ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے اور ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔
یہ اور اس طرح کی دیگر احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک بار میں تین طلاق دینا حرام ہے۔
اگر کسی نے تین طلاق دے دی تو وہ واقع ہوگی یا نہیں، اس بارے میں چار اقوال ہیں:
(1) ایک بھی واقع نہ ہوگی کیونکہ ایسا کرنا حرام ہے۔
(2) عورت مدخولہ بہا ہے تو تین واقع ہوگی اور صحبت نہ کی گئی ہو تو ایک واقع ہوگی۔
دلیل کے اعتبار سے یہ دونوں مذہب بہت کمزور ہیں۔
(3) ائمۂ اربعہ اور جمہور کے نزدیک ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں تینوں واقع ہو جائیں گی اور میاں بیوی میں جدائی ہو جائے گی۔
دلیل کی رو سے یہ قول قرآن و سنّت کے خلاف ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا جس کی بہت سے صحابہ کرام نے مخالفت کی ہے۔
(4) چوتھا قول اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ایک وقت اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک ہی طلاقِ رجعی شمار ہوگی۔
عہدِ نبوی میں خلافتِ صدیقی اور خلافت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی سالوں میں یہ حکم رائج و نافذ رہا، جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں ہے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے طور پر اجتہاد کر کے لوگوں کو سزا دینے کے لئے تین کو تین ہی نافذ کر دیا، لیکن بہت سے صحابہ سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن الزبیر، سیدنا ابن عوف، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ کا وہی فتویٰ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، اور امام ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ نے بھی اسی مسلک کو ترجیح دی ہے، اور مفتی اعظم سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے اور سعودیہ کی عدالتوں میں بھی یہی فیصلہ ہوتا ہے، اور صحیح ترین قول یہی ہے۔
رہی بات طلاق شدہ عورت کا نان نفقہ اور سکنی کی تو طلاقِ رجعی میں کسی کا اختلاف نہیں کہ مطلقہ کا سکنی و نفقہ شوہر کے ذمے ہوگا اور اس کی حکمت « ﴿لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا﴾ » میں پوشیدہ ہے، لیکن طلاقِ ثلاثہ کے بعد سکنی و نفقہ کا شوہر ذمہ دار ہوگا یا نہیں تو اس بارے میں بعض صحابہ و تابعین، جمہور علماء اور حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کے لئے بھی نان نفقہ شوہر پر واجب ہوگا، لیکن امام احمد، ابوثور، اہل الحدیث اور بہت سے علماء وفقہاء کا قول یہ ہے کہ مطلقہ بائنہ ثلاثہ کے لئے نہ سکنی ہے اور نہ نفقہ۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ترجیح دی ہے اور یہی صحیح مسلک ہے جیسا کہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے جو بالکل صحیح ہے، اور سیدنا عمر و سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے جو کتاب کا حوالہ دیا وہ فرمانِ الٰہی: «‏‏‏‏ ﴿لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ .....﴾ [الطلاق: 1] » اور «‏‏‏‏ ﴿أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ .....﴾ [الطلاق: 6] » اور «‏‏‏‏ ﴿وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ .....﴾ [البقره: 241] » سے استدلال کیا اور کہا کہ ہم ان آیات کے ہوتے ہوئے ایک عورت کا قول نہیں مانیں گے، پتہ نہیں اسے صحیح طور پر یاد ہے یا بھول گئی ہے۔
تو اس کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ مذکورہ بالا آیات میں طلاقِ رجعی والی عورت کے لئے نان نفقہ کا حکم ہے، جو گرچہ عام ہے لیکن حدیث صحیح سے قواعد کے تحت اس کی تخصیص ہو جاتی ہے۔
نیز یہ کہ مطلقہ عورت اگر حاملہ ہے تو وضعِ حمل تک نان و نفقہ شوہر کے ذمہ ہوگا چاہے تین طلاق ہی کیوں نہ دے دی ہوں جیسا کہ آیتِ شریفہ: « ﴿وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ .....﴾ [الطلاق: 6] » میں ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «لَا أَرَى السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ»

   صحيح البخاري5270جابر بن عبد اللهيرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة جمز حتى أدرك بالحرة فقتل
   صحيح البخاري6820جابر بن عبد اللهاعترف بالزنا فأعرض عنه النبي حتى شهد على نفسه أربع مرات قال له النبي أبك جنون قال لا قال آحصنت قال نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له النبي خير
   صحيح البخاري6814جابر بن عبد اللهرجلا من أسلم أتى رسول الله فحدثه أنه قد زنى فشهد على نفسه أربع شهادات فأمر به رسول الله فرجم وكان قد أحصن
   جامع الترمذي1429جابر بن عبد اللهأحصنت قال نعم قال فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له رسول الله خيرا ولم يصل عليه
   سنن أبي داود4438جابر بن عبد اللهأمر به النبي فجلد الحد ثم أخبر أنه محصن فأمر به فرجم
   سنن أبي داود4420جابر بن عبد اللهإنا لما خرجنا به فرجمناه فوجد مس الحجارة صرخ بنا يا قوم ردوني إلى رسول الله فإن قومي قتلوني وغروني من نفسي وأخبروني أن رسول الله غير قاتلي فلم ننزع عنه حتى قتلناه فلما رجعنا إلى رسول الله وأخبرناه
   سنن أبي داود4430جابر بن عبد اللهأبك جنون قال لا قال أحصنت قال نعم قال فأمر به النبي فرجم في المصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له النبي خيرا ولم يصل عليه
   سنن النسائى الصغرى1958جابر بن عبد اللهأمر به النبي فرجم فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم فمات فقال له النبي خيرا ولم يصل عليه

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.