الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب الانبساط إلى الناس
124. بَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ
124. لوگوں کے ساتھ ہنس مکھ چہرے کے ساتھ پیش آنا
حدیث نمبر: 246
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن سنان، قال‏:‏ حدثنا فليح بن سليمان، قال‏:‏ حدثنا هلال بن علي، عن عطاء بن يسار قال‏:‏ لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص فقلت‏:‏ اخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم في التوراة، قال‏:‏ فقال‏:‏ اجل والله، إنه لموصوف في التوراة ببعض صفته في القرآن‏:‏ ‏ ﴿يا ايها النبي إنا ارسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا﴾ ‏[الاحزاب: 45]، وحرزا للاميين، انت عبدي ورسولي، سميتك المتوكل، ليس بفظ ولا غليظ، ولا صخاب في الاسواق، ولا يدفع بالسيئة السيئة، ولكن يعفو ويغفر، ولن يقبضه الله تعالى حتى يقيم به الملة العوجاء، بان يقولوا‏:‏ لا إله إلا الله، ويفتحوا بها اعينا عميا، وآذانا صما، وقلوبا غلفا‏.‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ‏:‏ لَقِيتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقُلْتُ‏:‏ أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ، قَالَ‏:‏ فَقَالَ‏:‏ أَجَلْ وَاللَّهِ، إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِبَعْضِ صِفَتِهِ فِي الْقُرْآنِ‏:‏ ‏ ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا﴾ ‏[الأحزاب: 45]، وَحِرْزًا لِلأُمِّيِّينَ، أَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي، سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ، لَيْسَ بِفَظٍّ وَلاَ غَلِيظٍ، وَلاَ صَخَّابٍ فِي الأَسْوَاقِ، وَلاَ يَدْفَعُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ تَعَالَى حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ، بِأَنْ يَقُولُوا‏:‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَيَفْتَحُوا بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا‏.‏
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ملا تو ان سے عرض کیا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفات کے متعلق بتایئے جو تورات میں مذکور ہیں۔ انہوں نے کہا: ضرور! اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تورات میں کئی صفات ایسی ہیں جو قرآن میں بھی بعینہ مذکور ہیں (جیسے قرآن میں ہے:) اے نبی! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور ان پڑھوں کو (گمراہی سے) بچانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور رسول ہو، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ آپ سخت گو، تند مزاج اور بازاروں میں شور مچانے والے نہیں ہیں۔ اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ عفو و درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت تک فوت نہیں کرے گا جب تک آپ کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے، اس طرح کہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیں۔ اور لوگ اس کے ذریعے سے اندھی آنکھیں، بہرے کان اور بند دل نہ کھول لیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع، باب كراهية السخب فى السوق: 2125، 4838 - المشكاة: 5752»

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 246  
1
فوائد ومسائل:
(۱)حدیث کی باب سے مناسبت اس طرح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت گو اور تند مزاج نہیں تھے، نیز عفو و درگزر کرنا بھی آپ کا امتیازی وصف تھا تو ایسی صفات کا حامل انسان یقیناً خوش اخلاق اور ہنس مکھ ہوتا ہے۔ امت کو بھی ایسا ہی عمدہ اخلاق اپنانے کا درس ہے۔
(۲) بائبل وغیرہ قدیم مذہبی کتابوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور صفات کے حوالے سے بہت کچھ مذکور تھا جسے سالہا سال سے ختم کرنے اور تبدیل کرنے کی سعی لا حاصل کی جارہی ہے لیکن آج بھی آپ کا تذکرہ مختلف انداز میں دیکھا جاسکتا ہے جو آپ کی صداقت کی دلیل ہے بلکہ قرآن نے تو اہل کتاب کے متعلق واضح فرمایا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹوں کی طرح جانتے تھے، یعنی جس طرح انہیں اپنی اولاد کے متعلق یقین تھا کہ یہ ہماری ہے اسی طرح وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے برحق ہونے کا بھی یقین رکھتے تھے۔
(۳) آپ کی صفت شاہد کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے والے ہیں اور اپنی امت کے بارے میں کہ میں نے انہیں دین پہنچا دیا اور سابقہ انبیاء علیہم السلام کے بارے میں کہ انہوں نے بھی پہنچا دیا۔
(۴) مبشراً کا مطلب ہے کہ اہل ایمان کو اجر و ثواب کی بشارت دینے والے اور نذیراً سے مراد کافروں کو عذاب سے ڈرانے والے اور امیوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔
(۵) امی کو امی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنی اسی حالت پر ہوتا ہے جس پر اس کی ماں نے اس کو جنا تھا کہ اس نے حساب کتاب نہیں سیکھا، یعنی اپنی وہ اصلی جبلت پر ہے۔
(۶) آپ کو اس وقت فوت نہیں کرے گا.... کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ دین غالب نہ آجائے اور لوگ اپنے دلوں کو منور اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک نہ پہنچا لیں۔ اور واقعی ایسے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو اسلام جزیرۃ العرب میں پھیل چکا تھا اور پھر بہت جلد ہی دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیل گیا کہ آج دنیا کا کوئی علاقہ اس سے ناواقف نہیں ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 246   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.