الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
حدیث نمبر: 2503
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن علي بن الاقمر، عن ابي حذيفة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما احب اني حكيت احدا وان لي كذا وكذا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو حذيفة هو كوفي من اصحاب ابن مسعود ويقال اسمه: سلمة بن صهيبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ أَحَدًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حُذَيْفَةَ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَيُقَالُ اسْمُهُ: سَلَمَةُ بْنُ صُهَيْبَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (4857 / التحقيق الثانى)

   جامع الترمذي2503عائشة بنت عبد اللهما أحب أني حكيت أحدا وأن لي كذا وكذا
   جامع الترمذي2502عائشة بنت عبد اللهمزجت بكلمة لو مزجت بها ماء البحر لمزج
   سنن أبي داود4875عائشة بنت عبد اللهقلت كلمة لو مزجت بماء البحر لمزجته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2502  
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے۔‏‏‏‏ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیشک صفیہ ایک عورت ہیں، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، گویا یہ مراد لے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قد ہیں۔ آپ نے فرمایا: بیشک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا رنگ بدل جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2502]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے،
اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2502   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4875  
´غیبت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ کے لیے تو صفیہ رضی اللہ عنہا کا یہ اور یہ عیب ہی کافی ہے، یعنی پستہ قد ہونا تو آپ نے فرمایا: تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آ جائے اور میں نے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اگرچہ میرے لیے اتنا اور اتنا (مال) ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4875]
فوائد ومسائل:
کسی کی فطری خلقت پر عیب لگانا اور تمسخر اور ٹھٹھا کرنا حرام ہے۔
یہ گو یا اللہ عزوجل پر عیب لگانا اور اپنی بڑائی کا اظہار ہے۔
جب فطری امور پر عیب لگانا حرام ہے تو اعمال پر تبصرہ بھی جائز نہیں الا یہ کہ کوئی مصیبت کا عمل ہوتا کہ عبرت ہو۔
اگر اس نے توبہ کرلی ہو تو ذکر کرنا بالاولٰی جائز نہیں۔
البتہ اعمالِ خیر کا ذکر جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4875   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.