الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
1171. تتمة مسند عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
حدیث نمبر: 25626
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، قال: الزهري ، واخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة ، قالت: لم اعقل ابواي قط إلا وهما يدينان الدين، ولم يمرر علينا يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية، فلما ابتلي المسلمون، خرج ابو بكر مهاجرا قبل ارض الحبشة حتى إذا بلغ برك الغماد لقيه ابن الدغنة وهو سيد القارة، فقال ابن الدغنة: اين تريد يا ابا بكر؟ فقال ابو بكر: اخرجني قومي، فذكر الحديث، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمسلمين:" قد رايت دار هجرتكم، اريت سبخة ذات نخل بين لابتين" وهما حرتان، فخرج من كان مهاجرا قبل المدينة حين ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجع إلى المدينة بعض من كان هاجر إلى ارض الحبشة من المسلمين، وتجهز ابو بكر مهاجرا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" على رسلك، فإني ارجو ان يؤذن لي"، فقال ابو بكر: او ترجو ذلك بابي انت وامي؟، قال:" نعم"، فحبس ابو بكر نفسه على رسول الله صلى الله عليه وسلم لصحبته، وعلف راحلتين كانتا عنده من ورق السمر اربعة اشهر. قال الزهري: قال عروة، قالت عائشة: فبينا نحن يوما جلوسا في بيتنا في نحر الظهيرة، قال قائل لابي بكر: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا متقنعا في ساعة لم يكن ياتينا فيها، فقال ابو بكر: فداء له ابي وامي، إن جاء به في هذه الساعة لامر. فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستاذن، فاذن له، فدخل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين دخل لابي بكر:" اخرج من عندك"، فقال ابو بكر: إنما هم اهلك بابي انت وامي يا رسول الله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" فإنه قد اذن لي في الخروج"، فقال ابو بكر: فالصحبة بابي انت يا رسول الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم"، فقال ابو بكر: فخذ بابي انت يا رسول الله إحدى راحلتي هاتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بالثمن". قالت: فجهزناهما احب الجهاز، وصنعنا لهما سفرة في جراب، فقطعت اسماء بنت ابي بكر من نطاقها فاوكت الجراب، فلذلك كانت تسمى ذات النطاقين، ثم لحق رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر بغار في جبل، يقال له: ثور فمكثا فيه ثلاث ليال" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، قَالَ: الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَايَ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمْرُرْ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيْ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ، خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا قِبَلَ أَرْضِ الْحَبَشَةِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ بِرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ، فَقَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ: أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْرَجَنِي قَوْمِي، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْلِمِينَ:" قَدْ رَأَيْتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، أُرِيتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ" وَهُمَا حَرَّتَانِ، فَخَرَجَ مَنْ كَانَ مُهَاجِرًا قِبَلَ الْمَدِينَةِ حِينَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ بَعْضُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَوَ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟، قَالَ:" نَعَمْ"، فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصُحْبَتِهِ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ مِنْ وَرَقِ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ. قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ عُرْوَةُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَيْنَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسًا فِي بَيْتِنَا فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، قَالَ قَائَل لِأَبِي بَكْرٍ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا مُتَقَنِّعًا فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِدَاءٌ لَهُ أَبِي وَأُمِّي، إِنْ جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ لَأَمْرٌ. فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنَ لَهُ، فَدَخَلَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَخَلَ لِأَبِي بَكْرٍ:" أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَالصُّحْبَةَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَخُذْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَيَّ هَاتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِالثَّمَنِ". قَالَتْ: فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَبَّ الْجِهَازِ، وَصَنَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ، فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ نِطَاقِهَا فَأَوْكَتْ الْجِرَابَ، فَلِذَلِكَ كَانَتْ تُسَمَّى ذَاتَ النِّطَاقَيْنِ، ثُمَّ لَحِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلٍ، يُقَالُ لَهُ: ثَوْرٌ فَمَكَثَا فِيهِ ثَلَاثَ لَيَالٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو دین کی پیروی کرتے ہوئے ہی پایا اور کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا کہ دن کے دونوں حصوں میں یعنی صبح شام رسول اللہ ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔ لیکن جب مسلمانوں کو زیادہ ایذا دی جانے لگی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سرزمین حبش کی طرف ہجرت کرنے کے ارادہ سے چل دیئے، مقام برک الغماد پر ابن دغنہ سردار قبیلہ قارہ ملا اور کہنے اے ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے ................ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں مکہ مکرمہ میں ہی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرما دیا تھا کہ تمہاری ہجرت گاہ مجھے خواب میں دکھا دی گئی ہے جو دو پتھریلی زمینوں کے درمیان واقع ہے اور اس میں کجھور کے درخت بہت ہیں چنانچہ جن لوگوں نے مدینہ کو ہجرت کی انہوں نے تو کر ہی لی، باقی جو لوگ ترک وطن کرکے ملک حبش کو چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ کو لوٹ آئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تیاری کرلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ذرا ٹھہرو! امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کے میرے ماں باپ نثار، کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی امید ہے؟ فرمایا ہاں! چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لینے کے لئے رک گئے اور دو اونٹنیوں کو کیکر کے پتے کھلا کر چار مہینے تک پالتے رہے۔ ایک روز دوپہر کی سخت گرمی کے وقت ہم مکان کے اندر بیٹھے تھے کہ کسی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم منہ لپیٹے ایسے وقت میں تشریف لائے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا وقت نہ تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے والدین حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نثار، اس وقت کسی اہم کام کی وجہ سے تشریف لائے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی تو اندر تشریف لا کر فرمایا: ان پاس والے آدمیوں کو باہر کردو کیونکہ ایک پوشیدہ بات کرنا ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا یہ تو صرف گھر والے ہی ہیں ارشاد فرمایا مجھے یہاں سے ہجرت کر جانے کی اجازت مل گئی، حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے کہا کیا مجھے رفاقت کا شرف ملے گا؟ فرمایا: ہاں! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والدین نثار، ان دونوں اونٹنیوں میں سے آپ ایک لے لیجئے فرمایا میں مول لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے دونوں کے سفر کا سامان نہایت جلد تیار کردیا اور ایک تھیلا کھانے کا تیار کر کے رکھ دیا، اسماء نے اپنے کمر بند کا ٹکڑا کاٹ کر اس سے تھیلے کا منہ باندھ دیا، اسی وجہ سے ان کا نام ذات النطاق ہوگیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوہ ثور کے غار میں چلے گئے اور تین رات دن تک وہیں چھپے رہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5807


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.