الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
12. بَابُ الْهِبَةِ لِلْوَلَدِ:
12. باب: باپ کا اپنے لڑکے کو کچھ ہبہ کرنا۔
(12) Chapter. Giving gifts to one’s sons.
حدیث نمبر: Q2586
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وإذا اعطى بعض ولده شيئا لم يجز حتى يعدل بينهم ويعطي الآخرين مثله، ولا يشهد عليه، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: اعدلوا بين اولادكم في العطية، وهل للوالد ان يرجع في عطيته وما ياكل من مال ولده بالمعروف ولا يتعدى، واشترى النبي صلى الله عليه وسلم من عمر بعيرا، ثم اعطاه ابن عمر، وقال: اصنع به ما شئت.وَإِذَا أَعْطَى بَعْضَ وَلَدِهِ شَيْئًا لَمْ يَجُزْ حَتَّى يَعْدِلَ بَيْنَهُمْ وَيُعْطِيَ الْآخَرِينَ مِثْلَهُ، وَلَا يُشْهَدُ عَلَيْهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ فِي الْعَطِيَّةِ، وَهَلْ لِلْوَالِدِ أَنْ يَرْجِعَ فِي عَطِيَّتِهِ وَمَا يَأْكُلُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا يَتَعَدَّى، وَاشْتَرَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عُمَرَ بَعِيرًا، ثُمَّ أَعْطَاهُ ابْنَ عُمَرَ، وَقَالَ: اصْنَعْ بِهِ مَا شِئْتَ.
‏‏‏‏ اور اپنے بعض لڑکوں کو اگر کوئی چیز ہبہ میں دی تو جب تک انصاف کے ساتھ تمام لڑکوں کو برابر نہ دے، یہ ہبہ جائز نہیں ہو گا اور ایسے ظلم کے ہبہ پر گواہ ہونا بھی درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عطایا کے سلسلہ میں اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اور کیا باپ اپنا عطیہ واپس بھی لے سکتا ہے؟ اور باپ اپنے لڑکے کے مال میں سے دستور کے مطابق جب کہ ظلم کا ارادہ نہ ہو لے سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک اونٹ خریدا اور پھر اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو عطا فرمایا اور فرمایا کہ اس کا جو چاہے کر۔

حدیث نمبر: 2586
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، ومحمد بن النعمان بن بشير، انهما حدثاه، عن النعمان بن بشير،" ان اباه اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما، فقال: اكل ولدك نحلت مثله، قال: لا، قال: فارجعه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أنهما حدثاه، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ،" أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا، فَقَالَ: أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْجِعْهُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے، وہ حمید بن عبدالرحمٰن اور محمد بن نعمان بن بشیر سے اور ان سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے کہا ان کے والد انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بطور ہبہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کیا ایسا ہی غلام اپنے دوسرے لڑکوں کو بھی دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ پھر (ان سے بھی) واپس لے لے۔

Narrated An-Nu`man bin Bashir: that his father took him to Allah's Apostle and said, "I have given this son of mine a slave." The Prophet asked, "Have you given all your sons the like?" He replied in the negative. The Prophet said, "Take back your gift then."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 759


   صحيح البخاري2650نعمان بن بشيرألك ولد سواه قال نعم قال فأراه قال لا تشهدني على جور
   صحيح البخاري2587نعمان بن بشيرأعطيت سائر ولدك مثل هذا قال لا قال فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم
   صحيح البخاري2586نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثله قال لا قال فارجعه
   صحيح مسلم4178نعمان بن بشيرأكل بنيك نحلت قال لا قال فاردده
   صحيح مسلم4185نعمان بن بشيرأكل بنيك قد نحلت مثل ما نحلت النعمان قال لا قال فأشهد على هذا غيري ثم قال أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   صحيح مسلم4181نعمان بن بشيرأفعلت هذا بولدك كلهم قال لا قال اتقوا الله واعدلوا في أولادكم
   صحيح مسلم4186نعمان بن بشيرأكل ولدك أعطيته ما أعطيت هذا فقال لا فكره رسول الله أن يشهد له
   صحيح مسلم4182نعمان بن بشيرألك ولد سوى هذا قال نعم فقال أكلهم وهبت له مثل هذا قال لا قال فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   صحيح مسلم4177نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال رسول الله فارجعه
   صحيح مسلم4183نعمان بن بشيرألك بنون سواه قال نعم قال فكلهم أعطيت مثل هذ
   صحيح مسلم4184نعمان بن بشيرلأبيه لا تشهدني على جور
   صحيح مسلم4180نعمان بن بشيركل إخوته أعطيته كما أعطيت هذا قال لا قال فرده
   جامع الترمذي1367نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل ما نحلت هذا قال لا قال فاردده
   سنن أبي داود3542نعمان بن بشيركلهم أعطيت مثل ما أعطيت النعمان قال لا هذا جور وقال بعضهم هذا تلجئة فأشهد على هذا غيري
   سنن أبي داود3544نعمان بن بشيراعدلوا بين أولادكم اعدلوا بين أبنائكم
   سنن النسائى الصغرى3715نعمان بن بشيرألك ولد غيره قال نعم وصف بيده بكفه أجمع كذا ألا سويت بينهم
   سنن النسائى الصغرى3702نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت قال لا قال فاردده
   سنن النسائى الصغرى3703نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته قال لا قال رسول الله فارجعه
   سنن النسائى الصغرى3704نعمان بن بشيرأكل بنيك نحلت قال لا قال فارجعه
   سنن النسائى الصغرى3706نعمان بن بشيرأباه نحله نحلا فقالت له أمه أشهد النبي على ما نحلت ابني فأتى النبي فذكر ذلك له فكره النبي أن يشهد له
   سنن النسائى الصغرى3710نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل ما نحلته قال لا قال فلا أشهد على شيء أليس يسرك أن يكونوا إليك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   سنن النسائى الصغرى3709نعمان بن بشيركل بنيك نحلت مثل الذي نحلت النعمان
   سنن النسائى الصغرى3711نعمان بن بشيرألك ولد سوى هذا قال نعم فقال رسول الله أفكلهم وهبت لهم مثل الذي وهبت لابنك هذا قال لا قال رسول الله فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   سنن النسائى الصغرى3712نعمان بن بشيرألك ابن غير هذا قال نعم قال فوهبت له مثل ما وهبت لهذا قال لا قال فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   سنن النسائى الصغرى3717نعمان بن بشيراعدلوا بين أبنائكم
   سنن ابن ماجه2375نعمان بن بشيركل بنيك نحلت مثل الذي نحلت النعمان قال لا قال فأشهد على هذا غيري أليس يسرك أن يكونوا لك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   سنن ابن ماجه2376نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته قال لا قال فاردده
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم283نعمان بن بشيراكل ولدك نحلته مثل هذا؟
   بلوغ المرام788نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل هذا ؟
   مسندالحميدي948نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل هذا؟
   مسندالحميدي951نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل هذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 283  
´ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل`
«. . . عن النعمان بن بشير انه قال: إن اباه اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اكل ولدك نحلته مثل هذا؟ فقال: لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارجعه. . . .»
. . . سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ابا انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام اپنی مرضی سے تحفہ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح غلام تحفے میں دئیے ہیں؟ تو انہوں (نعمان بن بشیر کے والد رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس (غلام) کو واپس لے لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 283]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2586، ومسلم 1623/9، من حديث مالك به .]

تفقه:
➊ اگر کوئی شخص بیماری سے پہلے اپنی اولاد کو کوئی چیز برابر برابر انصاف کے ساتھ بطور تحفہ ہبہ کرے تو جائز ہے۔ بیماری کی حالت میں کیا گیا ہبہ وصیت ہوتا ہے۔ صحیح احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
«والوصية للوارث باطلة» اور وارث کے لئے وصیت باطل ہے۔ [التمهيد 225/7]
➋ ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل ہے۔ اگر بعض اولاد کو دوسروں کی نسبت زیادہ تحفہ دیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک یہ جائز ہے بشرطیکہ دوسری اولاد راضی ہو اورضرر نہ پایا جائے لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ برابر برابر ہی ہو۔
➌ ایک آدمی تحفہ دینے میں اپنی بعض اولاد کو بعض پر فضیلت دینا چاہتا تھا تو قاضی شریح رحمہ اللہ نے اسے ظلم قرار دیا اور گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 221/11، 222/11 ح 30989 وسنده صحيح، سعيد بن حيان تيمي ثقته]
➍ اس حدیث سے اشارتاً اور دوسری حدیث سے صراحتاً ثابت ہے کہ ہبہ واپس کرنا جائز نہیں ہے سوائے والد کے، وہ اپنی اولاد سے ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود: 3539 وسنده صحيح، سنن الترمذي 1299، وقال: حسن صحيح، وصححه ابن الجارود: 994 وابن حبان، الاحسان:5101 5123 والحاكم 46/2 والذهبي]
● بعض علماء کے نزدیک والدہ کا بھی یہی حکم ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 33   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2376  
´اپنی اولاد کو عطیہ دینے اور ہبہ کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ایک غلام دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسے ہی دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب اس کو واپس لے لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2376]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اولاد سے برابراسلوک کرنا چاہيے۔
روز مرہ کی ضروریات میں برابری یہ ہے کہ ہر ایک کواس کی ضرورت کےمطابق دیا جائے، مثلاً:
جس بچے کولباس کی ضرورت ہو اسےلباس مہیا کیا جائے۔
جسے علاج کی ضرورت ہو اس کاعلاج کرایا جائے۔
اس کے علاوہ عطیات میں برابر ضروری ہے۔

(2)
وراثت میں لڑکے اورلڑکی کےحصے میں فرق ہے لیکن عطیے میں یہ فرق نہیں۔

(3)
خریدوفروخت کی طرح قیمتی چیز ہبہ کرتے وقت بھی گواہ بنا لینا مناسب ہے۔

(4)
اولاد سے برابر حسن سلوک کا یہ فائدہ ہے کہ سب بچوں کےدل میں والدین کی محبت برابر ہو گی لہٰذا وہ بھی برابر احترام اورخدمت کرنے کی کوشش کریں گے۔

(5)
شرعی حکم بیان کرکے اس کی حکمت بھی بیان کردینے کا یہ فائدہ ہے کہ سائل مطمئن ہوجاتا ہےاورخوشی سےاس پرعمل کرتا ہے۔

(6)
والدین اپنی اولاد کوبہہ کی ہوئی چیز واپس لےسکتے ہیں۔

(7)
اگر لاعلمی میں کوئی ایسا کام ہو جائے جوشرعاً ممنوع ہوتو اس کی ہرممکن تلافی کرنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2376   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 788  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنا ذاتی غلام اپنے اس بیٹے کو ہبہ کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح (غلام) ہبہ کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اسے واپس کر لو اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ میرے والد صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میرے ہبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا تو نے ایسا اپنی ساری اولاد کے ساتھ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو چنانچہ میرے والد نے وہ ہبہ واپس کر لیا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر میرے سوا کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تیری ساری اولاد تیرے ساتھ یکساں بھلائی کا سلوک کرے؟ وہ بولا کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ایسا مت کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 788»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب الإشهاد في الهبة، حديث:2587، ومسلم، الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة،حديث:1623.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ اولاد کو‘ خواہ مذکر ہو یا مؤنث‘ عطیہ دینے میں مساویانہ سلوک کرنا چاہیے۔
امام احمد‘ ثوری اور اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ جب برابری نہ ہو تو ہبہ باطل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا کہ غلام کو واپس لے لو اسی کی تائید کرتا ہے۔
مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ برابری مستحب ہے‘ واجب نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 788   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1367  
´عطیہ دینے اور اولاد کے درمیان برابری کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ۱؎ جیسا اس کو دیا ہے؟ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: تو اسے واپس لے لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1367]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اولاد کو ہبہ کر نے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے،
موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے مرض الموت میں عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا إني كنت نحلت نحلا فلو كنت اخترتيه لكان لك وإنما هو اليوم للوارث (میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہو جاتا،
اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے،
)
اسی طرح عمر رضی الله عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا،
امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے،
یہ لوگ شیخین (ابوبکر وعمر رضی الله عنہما) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1367   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3542  
´باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3542]
فوائد ومسائل:

والدین پرواجب ہے عطیہ وہدیہ کے سلسلے میں سب اولاد لڑکے اور لڑکیوں میں بلا امتیاز برابری رکھیں۔
اور اگر کوئی بچہ زیادہ خدمت کرتا ہو۔
تو وہ اس کی اپنی سعادت ہے۔
جس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا۔
علاوہ ازیں اسے ماں باپ کی شفقت اور دعایئں بھی زیادہ حاصل ہوں گی۔
لیکن والدین مالی لحاظ سے اسے دوسروں پرترجیح نہیں دے سکتے۔
اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔


اولاد پر واجب ہے کہ اپنے والدین کی خدمت اور احسان مندی کو سعادت جانیں اور اس طرح مت سوچیں کہ فلاں تو کرتا نہیں۔
بلکہ یوں سوچیں کہ یہ خدمت میں نے ہی کرنی ہے۔


ظلم کا گواہ بننا بھی ناجائز اور گناہ میں تعاون ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
(وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) (المائدة: 2) یعنی گناہ اورزیادتی پر ایک دوسرے پر تعاون مت کرو

داعی اور مربی پر لازم ہے کہ حق سمجھانے میں مخاطب کو فکری اور نظری اعتبار سے قائل اور مطمین کرے۔


اس روایت میں مجالد کے الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔
(علامہ البانی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3542   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2586  
2586. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس جیسا (غلام) دیا ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اپنا عطیہ واپس لے لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2586]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اولاد کے لیے ہبہ یا عطیہ کے سلسلے میں انصاف ضروری ہے جو دیا جائے سب کو برابر برابر دیا جائے، ورنہ ظلم ہوگا۔
والد کے لیے ثابت ہوا کہ وہ اولاد سے اپنا عطیہ واپس بھی لے سکتا ہے اور اولاد کے مال میں سے ضرورت کے وقت دستور کے موافق کھا بھی سکتا ہے۔
ابن حبان اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا، میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔
ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی قول ہے کہ اولاد میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ نعمان کے باپ نے اس کو باغ دیا تھا اور اکثر روایتوں میں غلام مذکور ہے۔
حافظ نے کہا، طاؤس اور ثوری اور اسحاق بھی امام احمد کے ساتھ متفق ہیں۔
بعض مالکیہ کہتے ہیں کہ ایسا ہبہ ہی باطل ہے اور امام احمد صحیح کہتے ہیں پر رجوع واجب جانتے ہیں اور جمہور کا قول یہ ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں عدل اور انصاف کرنا مستحب ہے۔
اگر کسی اولاد کو زیادہ دے تو ہبہ صحیح ہوگا لیکن مکروہ ہوگا، حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر نے یہاں عمل الخلیفتین کو نقل کیا ہے اور بتلایا ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں مساوات کا حکم استحباب کے لیے ہے۔
مؤطا میں سند صحیح کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؒ نے اپنے مرض وفات میں حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا، إنی کنت نحلت نحلا فلولا کنت أخترتیي لکان لك و إنما هو الیوم للوارث یعنی میں نے تجھ کوکچھ بطور بخشش دیناچاہا تھا، اگر تم اس کو قبول کرلیتیں تو وہ تمہارا ہوجاتا اور اب تو وہ وارثوں ہی میں تقسیم ہوگا۔
حضرت عمر ؓ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ بطور بخشش دیا تھا۔
مانعین نے ان کا یہ جواب دیا ہے کہ شیخین کے ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے سب راضی تھے۔
اس صورت میں جواز میں کوئی شبہ نہیں۔
بہر حال بہتر و اولیٰ مساوات ہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2586   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2586  
2586. حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس جیسا (غلام) دیا ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: اپنا عطیہ واپس لے لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2586]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ روایت اپنے مفہوم میں واضح ہے، البتہ فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کو عطیہ دیتے وقت فرق کر سکتا ہے یا نہیں؟ امام احمد ؒ اور دیگر کئی ائمہ کا موقف ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دینا جائز ہے، تاہم جمہور کا موقف یہ ہے کہ اولاد میں مساوات اور عدل و انصاف ضروری ہے۔
انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ فرق نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرق پر مبنی عطیہ واپس لینے کا حکم دیا، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں اس ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا۔
(صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2650) (2)
اگر کوئی بیٹا وغیرہ معذور ہے، وہ کام کاج کے قابل نہیں تو عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی اولاد کو باپ امتیازی حیثیت سے کچھ دے۔
اگر مساوات کا خیال رکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں دے گا تو زندگی کے مسائل سلجھانے کے لیے اس نے معذور اولاد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
ایسا کرنا دین اسلام کے خلاف ہے۔
باپ کو چاہیے کہ معذور اولاد کے لیے کوئی رقم یا جائیداد مختص کر دے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2586   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.