الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: علم اور فہم دین
Chapters on Knowledge
16. باب مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ
16. باب: سنت کی پابندی کرنے اور بدعت سے بچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2677
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا محمد بن عيينة، عن مروان بن معاوية الفزاري، عن كثير بن عبد الله هو ابن عمرو بن عوف المزني، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال بن الحارث: " اعلم "، قال: ما اعلم يا رسول الله، قال: " اعلم يا بلال "، قال: ما اعلم يا رسول الله، قال: " إنه من احيا سنة من سنتي قد اميتت بعدي فإن له من الاجر مثل من عمل بها من غير ان ينقص من اجورهم شيئا، ومن ابتدع بدعة ضلالة لا يرضاها الله ورسوله كان عليه مثل آثام من عمل بها لا ينقص ذلك من اوزار الناس شيئا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ومحمد بن عيينة هو مصيصي شامي، وكثير بن عبد الله هو ابن عمرو بن عوف المزني.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ: " اعْلَمْ "، قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " اعْلَمْ يَا بِلَالُ "، قَالَ: مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّهُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَا يَرْضَاهَا اللَّهَ وَرَسُولَهُ كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ هُوَ مَصِّيصِيٌّ شَامِيٌّ، وَكَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ.
عمرو بن عوف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث رضی الله عنہ سے کہا: سمجھ لو (جان لو) انہوں نے کہا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: سمجھ لو اور جان لو، انہوں نے عرض کیا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی و خوش نہیں، تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہو گا، اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- محم بن عیینہ مصیصی شامی ہیں،
۳- اور کثیر بن عبداللہ سے مراد کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 15 (210) (تحفة الأشراف: 10776) (ضعیف) (سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (210) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (37)، تخريج " السنة " لابن أبي عاصم (42)، المشكاة (1682)، ضعيف الجامع الصغير (965) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2677) إسناده ضعيف جدًا / جه 209
كثير بن عبدالله: متروك (تقدم: 490)

   جامع الترمذي2677عمرو بن عوفمن أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا من ابتدع بدعة ضلالة لا يرضاها الله ورسوله كان عليه مثل آثام من عمل بها لا ينقص ذلك من أوزار الناس شيئا
   سنن ابن ماجه210عمرو بن عوفمن أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل أجر من عمل بها من الناس لا ينقص من أجور الناس شيئا من ابتدع بدعة لا يرضاها الله ورسوله فإن عليه مثل إثم من عمل بها من الناس لا ينقص من آثام الناس شيئا
   سنن ابن ماجه209عمرو بن عوفمن أحيا سنة من سنتي فعمل بها الناس كان له مثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيئا من ابتدع بدعة فعمل بها كان عليه أوزار من عمل بها لا ينقص من أوزار من عمل بها شيئا
   مشكوة المصابيح168عمرو بن عوفمن احيا سنة من سنتي قد اميتت بعدي فإن له من الاجر مثل اجور من عمل بها
   مشكوة المصابيح169عمرو بن عوف‏‏‏‏ورواه ابن ماجه عن كثير بن عبد الله بن عمرو عن ابيه عن جده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 168  
´سنت کو زندہ کرنے کا ثواب`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أُجُورِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لَا يَرْضَاهَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ من أوزارهم شَيْئا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .»
. . . سیدنا بلال بن حارث مزفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری کسی ایسی سنت کو عمل کر کے زندہ کر دیا جو میرے بعد بےعملی کی وجہ سے مردہ کر کے چھوڑ دی گئی تھی تو اس زندہ کرنے والے کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ ان لوگوں کو ملے جنہوں نے اس پر عمل کیا ہے اور ان عمل کرنے والوں کے ثوابوں میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے گمراہی کی ایسی نئی بات نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی نہیں ہیں تو اس کو اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا کہ ان لوگوں کو ہو گا جنہوں نے اس پر عمل کیا ہے اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں سے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 168]

تحقیق الحدیث
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔
اس روایت کی سند کا ایک بنیادی راوی کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جس کے بارے میں امام أحمد بن حنبل نے فرمایا:
وہ کسی چیز کے برابر نہیں ہے۔ الخ [كتاب العلل و معرفيه الرجال 3213ت 4922 ملخصا]
◄ امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
«ليس بشئي» وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ [تاريخ عثمان بن سعيد الدارمي: 713]
ان کے علاوہ جمہور محدثین نے کثیر مذکور پر جرح کی ہے۔
◄ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں:
«وهو ضعيف عند الجمهور» اور وہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ [مجمع الزوائد68/6]
نيز ديكهئے مجمع الزوئد [130/6، 286] اور [فتح الباري 451/4، 19/5، 280/7]
◄ حافظ ابن حبان نے فرمایا:
وہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے، اس نے اپنے باپ سے «عن جده:» دادا کی سند کے ساتھ ایک موضوع نسخہ بیان کیا ہے۔ الخ [كتاب المجروحين221/2] نیز ديكهئے: [حدیث 167 سابق اضواء المصابیح 158]
وہ اس سخت ضعیف روایت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 168   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 169  
´سنت کو زندہ کرنے کا ثواب`
«. . . ‏‏‏‏وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ . . .»
. . . اس حدیث کو ترمذی نے اور ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمرو سے اور عمرو اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 169]

تحقیق الحدیث
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔
کثیر بن عبداللہ کے حالات ديكهيے کے لیے دیکھیے مشكوة المصابيح 168
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 169   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث209  
´مردہ سنت کو زندہ کرنے والے کا ثواب۔`
عوف مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کیا، اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، اور اس سے عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہ ہو گی، اور جس کسی نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہ ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 209]
اردو حاشہ:
(1)
مردہ سنت سے مراد وہ ثابت شدہ شرعی عمل ہے جس کو لوگوں نے جہالت یا سستی کی وجہ سے ترک کر دیا ہو، خواہ وہ فرض و واجب ہو یا مستحب و مندوب۔
اور اسے زندہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے دوبارہ معاشرے میں رواج دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے ظاہر ہے کہ دعوت دینے والے کو خود بھی اس پر سختی سے عمل پیرا ہونا پڑے گا اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کرنی ہو گی۔
پھر جب لوگ اس پر تعجب کا اظہار کریں گے اور اس سے روکنے کی کوشش کریں گے تو اسقامت کا مظاہرہ کرنا ہو گا، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔

(2)
اس روایت میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو بدعات کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور مسلمانوں میں اسے رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اہل علم کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کا سخت مقابلہ کریں کیونکہ بدعت سنت کی مخالف ہے، جیسے جیسے بدعت رائج ہوتی ہے لوگوں کی توجہ سنت کی طرف سے ہٹتی چلی جاتی ہے، جس کے نتیجہ میں ایک وقت وہ آتا ہے کہ سنت مردہ ہو جاتی ہے، چنانچہ اسے زندہ کرنے کے لیے نئے سرے سے محنت کرنی پڑتی ہے، چنانچہ سنتوں کو قائم رکھنے کے لیے بدعتوں کی پرزور تردید کی ضرورت ہے۔

(3)
بعض ائمہ نے شواہد کی بنیاد پر اس روایت کی تصحیح کی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 209   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2677  
´سنت کی پابندی کرنے اور بدعت سے بچنے کا بیان۔`
عمرو بن عوف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث رضی الله عنہ سے کہا: سمجھ لو (جان لو) انہوں نے کہا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: سمجھ لو اور جان لو، انہوں نے عرض کیا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا، یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2677]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں کثیر ضعیف راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2677   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.