الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: علم اور فہم دین
Chapters on Knowledge
15. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى فَاتُّبِعَ أَوْ إِلَى ضَلاَلَةٍ
15. باب: ہدایت اور گمراہی کی طرف بلانے والوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2675
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا المسعودي، عن عبد الملك بن عمير، عن ابن جرير بن عبد الله، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سن سنة خير فاتبع عليها فله اجره ومثل اجور من اتبعه غير منقوص من اجورهم شيئا، ومن سن سنة شر فاتبع عليها كان عليه وزره ومثل اوزار من اتبعه، غير منقوص من اوزارهم شيئا " , وفي الباب عن حذيفة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن جرير بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وقد روي هذا الحديث عن المنذر بن جرير بن عبد الله، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم , وقد روي عن عبيد الله بن جرير، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ، غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا " , وفي الباب عن حُذَيْفَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا.
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو گا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے جریر بن عبداللہ سے آئی ہے، اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- یہ حدیث منذر بن جریر بن عبداللہ سے بھی آئی ہے، جسے وہ اپنے والد جریر بن عبداللہ سے اور جریر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،
۴- یہ حدیث عبیداللہ بن جریر سے بھی آئی ہے، اور عبیداللہ اپنے والد جریر سے اور جریر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے،
۵- اس باب میں حذیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 20 (1017)، والعلم 6 (1017/15)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 14 (203) (تحفة الأشراف: 13976) و مسند احمد (4/357، 358، 361، 362)، وسنن الدارمی/المقدمة 44 (518) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان، توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا، اسی طرح شر و فساد اور قتل و غارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (203)

   سنن النسائى الصغرى2555جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها من غير أن ينقص من أوزارهم شيئا
   صحيح مسلم2351جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء
   صحيح مسلم6800جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها ولا ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شيء
   جامع الترمذي2675جرير بن عبد اللهمن سن سنة خير فاتبع عليها فله أجره ومثل أجور من اتبعه غير منقوص من أجورهم شيئا ومن سن سنة شر فاتبع عليها كان عليه وزره ومثل أوزار من اتبعه غير منقوص من أوزارهم شيئا
   سنن ابن ماجه203جرير بن عبد اللهمن سن سنة حسنة فعمل بها كان له أجرها ومثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيئا ومن سن سنة سيئة فعمل بها كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص من أوزارهم شيئا
   مشكوة المصابيح210جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيء
   مسندالحميدي824جرير بن عبد اللهمن سن سنة حسنة فعمل بها، كان له من الأجر مثل أجر من عمل بها لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه مثل وزر من عمل بها لا ينقص ذلك من أوزارهم شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 210  
´کار خیر کی طرف رہنمائی کرنے والے کے لئے اجر و ثواب`
«. . . وَعَن جرير قَالَ: (كُنَّا فِي صدر النهارعند رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ قَوْمٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ - [73] - فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ) ‏‏‏‏إِلَى آخَرِ الْآيَةِ (إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رقيبا) ‏‏‏‏وَالْآيَةُ الَّتِي فِي الْحَشْرِ (اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) ‏‏‏‏تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّى قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجَزُ عَنْهَا بل قد عجزت قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْء» . رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک روز دن کے ابتدائی حصے میں تھے کہ کچھ برہنہ لوگ آئے جو جسم پر کمبل یا عبا ڈالے ہوئے، گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے ان میں سے اکثر بلکہ سب ہی قبیلہ مضر کے لوگ تھے (یہ لوگ بھوکے پیاسے تھے) ان کے فاقے اور محتاجگی اور خستہ حالی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا آپ گھر میں تشریف لے گئے (کہ کچھ کھانے کی لے آیئں مگر غالباً کوئی ایسی چیز نہیں ملی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر آ کر تشریف لا کر بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم اذان دو۔۔۔ چنانچہ اذان ہوئی جب سب جمع ہو گئے تو اقامت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی نماز کے بعد خطبہ دیا اور تقریر فرمائی جس میں ان آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ» اے لوگو! تم اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے۔ (آخر تک کہ اللہ تمہارا نگہبان ہے) اور سورہ حشر کی آیت «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ» اللہ سے ڈرو اور انسان کو دیکھنا چاہئے کل یعنی قیامت کے لیے کیا چیز آگے بھیجی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کو چاہئے اپنے روپے پیسے کپڑے سے اور اپنے گیہوں کے پیمانہ اور جو کا پیمانہ میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ خیرات کرے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ کجھور کے ایک ٹکڑے میں سے ہی ہو۔ (حدیث کے راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر) ایک انصاری روپے پیسے سے بھری ہوئی صدقہ دینے کے لیے ایک تھیلی لے آئے جس کے بھاری وزن سے قریب تھا کہ اس کا ہاتھ تھک جائے بلکہ تھک ہی گیا تھا (پھر اس انصار ی کے دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی لانے لگے لگاتار لوگوں نے لا لا کر دینا شروع کیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ کپڑے اور غلے کی دو ڈھیریاں جمع ہو گئی ہیں (اس داد و دہش کے منظر کو دیکھ کر) آپ بہت خوش ہوئے حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی کی وجہ سے سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں جو شخص اچھا طریقہ ایجاد کر دے تو اس کو بھی ثواب ملے گا اور اس کے بعد جو اس پر عمل کرے گا تو اس کا ثواب بھی اسی ایجاد کرنے والے کو ملے گا، لیکن عمل کر نے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی (اس کو اپنے عمل کا ثواب عمل کرنے کی وجہ سے ملے گا عمل کرنے کی وجہ سے ملے گا لیکن بتانے والے کو بتانے کی وجہ سے ثواب ملے گا۔ تو گویا بتانے والے دوہرا ثواب ملا ایک عمل کی وجہ سے دوسرا اس نیک عمل کے ایجاد اور بتانے کی وجہ سے) اور جو اسلام میں برا راستہ ایجاد کرے اور برے طریقے کو رائج کرے تو اس رائج کرنے کی وجہ سے گناہ ہو گا اور اس کے بعد جو اس کے برے راستے پر چلے گا اس کا گناہ بھی اسی برے راستے کے رواج دینے والے کو ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 210]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 2351]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث میں سنت جاری کرنے سے مراد وہ طریقہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہو، لیکن یاد رہے کہ اس سے مراد بدعت کا ایجاد کرنا نہیں ہے۔
➋ جو کام سنت سے ثابت ہے اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا بڑے ثواب کا کام ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمة للعالمين بنا کر بھیجا۔
➍ اگر شدید ضرورت ہو تو لوگوں کے سامنے تعاون کی اپیل کرنا جائز ہے۔
➎ اگر اسلحہ موجود ہو تو ہر وقت مسلح رہنا مسنون ہے۔
➏ مشکل کشا صرف ایک اللہ ہے۔
➐ خطبے میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے آیات کی تلاوت کرنا سنت ہے۔
➑ کسی پریشان حال مسلمان کو دیکھ کر مضطرب ہونا اور اس کی راحت میں خوشی محسوس کرنا عین ایمان ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 210   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث203  
´(دین میں) اچھے یا برے طریقہ کے موجد کا انجام۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 203]
اردو حاشہ:
(1)
سنت کے لغوی معنی طریقے کے ہیں، اچھا ہو یا برا۔
اس حدیث میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔
علمِ حدیث اور اصولِ حدیث میں سنت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد (قولی حدیث)
ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل (فعلی حدیث)
یا ایسی چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم ہونے کے بعد اس سے منع نہیں فرمایا یا اس کی تردید نہیں فرمائی۔ (تقریری حدیث)
فقہاء سنت سے مراد وہ اچھا کام لیتے ہیں جو فرض و واجب نہ ہو، اسے مستحب بھی کہا جاتا ہے، نیز سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی بولا جاتا ہے، یعنی وہ عقیدہ و عمل جس کا وجوب، استحباب یا جواز شریعت سے ثابت ہو اور بدعت سے مراد وہ عمل ہے جسے ثواب سمجھ کر کیا جائے، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہ ہو۔

(2)
اچھا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اچھے کام کی ضرورت تھی اور کوئی اسے نہیں کر رہا تھا۔
یا کسی سنت پر عمل متروک ہو چکا تھا، اس نے شروع کیا تو اسے دیکھ کر دوسروں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔
یا کسی مشروع کام کو فروغ دینے کے لیے نیا طریقہ اختیار کیا محض اپنی رائے سے کسی کام کو اچھا قرار دے کر ایجاد کرنا بدعت ہے جس پر ثواب کی بجائے گناہ ہو گا۔

(3)
برا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو برائی پہلے کسی معاشرے میں موجود نہیں تھی، ایک آدمی نے وہ کام کیا، اسے دیکھ کر دوسرے بھی وہ کام کرنے لگے۔
ارشاد نبوی ہے:
جو جان بھی ظلم سے قتل کی جاتی ہے، اس کے خون ناحق کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل)
کے سر ہوتا ہے کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل (ناحق)
کا طریقہ جاری کیا۔ (صحيح بخاري، الاعتصام، باب اثم من دعا الي ضلالة، حديث: 7321، وصحيح مسلم، القسامة، باب اثم من سن القتل، حدیث: 1677)

(4)
اس کی وضاحت اس پس منظر سے بھی ہوتی ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:
واقعہ یوں ہے کہ قبیلہ بنو مضر کے افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کی ظاہری حالت قابل رحم تھی، انہیں مناسب لباس بھی دستیاب نہ تھا۔
اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صدقہ دینے کی ترغیب دی، سب سے پہلے ایک انصاری صحابی درہم و دینار سے بھری ہوئی اتنی بھاری تھیلی لے کر حاضر ہوا کہ اس کے ہاتھ سے گری جا رہی تھی۔
اس کے بعد تو اتنی کثرت سے صدقات آئے کہ ایک طرف کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگ گیا، دوسری طرف کپڑوں کا ڈھیر لگ گیا۔
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا:
(صحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة او كلمة طيبة...الخ، حديث: 1016)

(5)
دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ وہ ضعیف اور موضوع احادیث کو دیکھ کر کسی ایسے کام کی دعوت دینا شروع نہ کر دیں جو صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ورنہ نہ صرف محنت ضائع ہو جائے گی بلکہ وہ بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھا لیں گے۔

(6)
جب کسی کو گناہ کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو شیطان عموماً یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ گناہ کر لینے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں، گناہ تو اس کو ہو گا جس نے ہمیں گناہ کی طرف بلایا ہے، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
غلط کام کا ارتکاب کرنے والا اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا، البتہ اسے گناہ کی طرف بلانے والے کا گناہ زیادہ شدید ہے، اس لیے وہ بھی اس مجرم کے جرم میں برابر کا شریک سمجھا جائے گا اور سزا کا مستحق ہو گا۔

(7)
اس حدیث میں نیکی کی تبلیغ کرنے والوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔
ایک آدمی کی محنت سے جتنے آدمی کسی نیکی کو اختیار کریں گے، ان کے ثواب کے برابر اس کے نامہ اعمال میں ثواب خود بخود درج ہوتا چلا جائے گا۔

(8)
ثواب اور گناہ، دعوت دینے والے کے حساب میں جمع ہونا خود بخود ہوتا ہے، اس میں عمل کرنے والے کے قصد یا نیت کا کوئی دخل نہیں، لہذا اس حدیث سے ایصال ثواب کے مروجہ تصور پر استدلال درست نہیں، ورنہ ایصال ثواب کی طرح ایصال گناہ کا تصور بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 203   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2675  
´ہدایت اور گمراہی کی طرف بلانے والوں کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2675]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان،
توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر وثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا،
اسی طرح شروفساد اورقتل وغارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2675   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.