الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب
حدیث نمبر: 268
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن الصباح حدثنا خالد هو ابن عبد الله، عن حميد الطويل، عن انس بن مالك قال‏:‏ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يستحمله، فقال‏:‏ ”انا حاملك على ولد ناقة“، قال‏:‏ يا رسول الله، وما اصنع بولد ناقة‏؟‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”وهل تلد الإبل إلا النوق‏.‏“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ‏:‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ‏:‏ ”أَنَا حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ“، قَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ نَاقَةٍ‏؟‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”وَهَلْ تَلِدُ الإِبِلَ إِلاَّ النُّوقُ‏.‏“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کرا دیتا ہوں۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اونٹوں کو اونٹنیاں ہی جنتی ہیں؟

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب ماجاء فى المزاح: 4998 و الترمذي: 1991»

قال الشيخ الألباني: صحيح


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 268  
1
فوائد ومسائل:
(۱) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اگر آپ کے پاس کوئی چیز ہوتی تو آپ عنایت فرما دیتے بصورت دیگر معذرت کرلیتے یا آئندہ دینے کا وعدہ فرماتے۔ آپ نے کبھی سائل کو جھڑکا نہیں اور نہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ا س سائل سے بھی آپ نے دل لگی اور دینے کا عندیہ اس انداز سے دیا کہ وہ سمجھ نہ سکا لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وہ پریشان ہو رہا ہے تو فوراً وضاحت فرما دی کہ بھائی اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
(۲) اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے ایک عام آدمی سے بھی خوش طبعی سے بات کی اور دنیا داروں کی طرح تکبر اور غرور والا انداز اختیار نہیں کیا۔ نیز امت کے لیے بھی اس مزاح کا ادب بیان کر دیا گیا۔
(۳) اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو دوسرے کی بات پہلے غور سے سن کر پھر اس کا جواب دینا چاہیے کیونکہ بسا اوقات کسی سوال کا جواب خود سوال میں ہوتا ہے۔ جب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں سوار کروں گا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا اونٹ دیں گے جو سواری کے قابل ہو۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث\صفحہ نمبر: 268   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.