الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
121. باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ
121. باب: امام جہر سے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Not Reciting Behind The Imam When The Imam Is Reciting Aloud
حدیث نمبر: 313
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن ابي نعيم وهب بن كيسان، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول: " من صلى ركعة لم يقرا فيها بام القرآن فلم يصل إلا ان يكون وراء الإمام ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: " مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر موطا امام مالک/الصلاة 8 (38)، (لم یذکرہ المزی فی مظانہ ج2/ص285-288 من رقم 3125 إلی 3132) (صحیح) (واضح رہے یہ جابر رضی الله عنہ کا قول ہے، اور اس کو اصطلاح میں موقوف کہتے ہیں)»

وضاحت:
۱؎: اس اثر کا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں، امام بیہقی نے کتاب القراءۃ (ص: ۱۱۲) میں جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا یہ اثر نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: اس اثر میں نماز میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دو رکعات میں اس سورۃ کی قرأت کے وجوب کے قائل ہیں، نماز کی تمام رکعتوں کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہونے کی بھی دلیل ہے، اور جہاں تک جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کی: «إلا وَرَائَ الإمَامِ» والی بات کا تعلق ہے تو:
(۱) احتمال ہے کہ یہ آپ رضی الله عنہ کا امام کے پیچھے اس نماز میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کر دینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتا ہے۔
(۲) یہ بھی احتمال ہے کہ: اس سے مراد وہ رکعت ہو کہ کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اور اس کے ساتھ مل جائے تو اس کی یہ رکعت ہو جائے گی، اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے۔
(۳) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثر درج کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما چار رکعات والی نماز پہلی دو رکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دو رکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اور پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی، (تو جابر رضی الله عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہو گئی) اور یہ کہ یہ لفظ عام ہے: اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی۔
(۴) عبیداللہ بن مقسم کی روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما فرماتے تھے: نماز میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ نمازی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے … اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے: «كنا نتَحدث» تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمار کرتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی ۱/۲۶۱)

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف، الإرواء (2 / 273)


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 313  
´امام جہر سے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 313]
اردو حاشہ: 1 ؎:
اس اثرکا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں،
امام بیہقی نے (کتاب القراء ۃ ص: 112) میں جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا یہ اثر نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
اس اثر میں نماز میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دو رکعات میں اس سورہ کی قرأت کے وُجوب کے قائل ہیں،
نماز کی تمام رکعتوں کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہونے کی بھی دلیل ہے،
اور جہاں تک جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی: ((إلَّا وَرَاءَ الإمَامِ)) والی بات کا تعلق ہے تو:

(1)
احتمال ہے کہ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا امام کے پیچھے اُس نماز میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کر دینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتا ہے۔

(2)
یہ بھی احتمال ہے کہ:
اس سے مراد وہ رکعت ہو کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اور اس کے ساتھ مل جائے تو اُس کی یہ رکعت ہو جائے گی،
اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے۔

(3)
ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثر درج کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما چار رکعات والی نماز پہلی دو رکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دو رکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اور پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی،
(تو جابر رضی اللہ عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہو گئی) اور یہ کہ یہ لفظ عام ہے:
اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی۔

(4) عبیداللہ بن مُقسم کی روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے تھے:
نماز میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ مصلًی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے...اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے: ((كؑنَّا نَتَحَدَّثُ)) تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمار کرتے ہیں۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھئے:
تحفۃ الأحوذی 1/261)

نوٹ:
(واضح رہے یہ جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے،
اور اس کو اصطلاح میں موقوف کہتے ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 313   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.