الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
121. باب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ
باب: امام جہر سے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 312
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن ابن اكيمة الليثي، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة، فقال: " هل قرا معي احد منكم آنفا؟ " فقال رجل: نعم يا رسول الله، قال: " إني اقول مالي انازع القرآن "، قال: فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الصلوات بالقراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال: وفي الباب عن ابن مسعود , وعمران بن حصين , وجابر بن عبد الله، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابن اكيمة الليثي اسمه: عمارة، ويقال عمرو بن اكيمة، وروى بعض اصحاب الزهري هذا الحديث وذكروا هذا الحرف، قال: قال الزهري: فانتهى الناس عن القراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وليس في هذا الحديث ما يدخل على من راى القراءة خلف الإمام، لان ابا هريرة هو الذي روى عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث، وروى ابو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج فهي خداج غير تمام " فقال له حامل الحديث: إني اكون احيانا وراء الإمام، قال: اقرا بها في نفسك، وروى ابو عثمان النهدي، عن ابي هريرة، قال: " امرني النبي صلى الله عليه وسلم ان انادي ان لا صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب " واختار اكثر اصحاب الحديث ان لا يقرا الرجل إذا جهر الإمام بالقراءة، وقالوا: يتتبع سكتات الإمام، وقد اختلف اهل العلم في القراءة خلف الإمام، فراى اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم القراءة خلف الإمام، وبه يقول: مالك بن انس , وعبد الله بن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، وروي عن عبد الله بن المبارك، انه قال: انا اقرا خلف الإمام والناس يقرءون، إلا قوما من الكوفيين، وارى ان من لم يقرا، صلاته جائزة، وشدد قوم من اهل العلم في ترك قراءة فاتحة الكتاب، وإن كان خلف الإمام، فقالوا: لا تجزئ صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب وحده كان او خلف الإمام، وذهبوا إلى ما روى عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقرا عبادة بن الصامت بعد النبي صلى الله عليه وسلم خلف الإمام، وتاول قول النبي صلى الله عليه وسلم: " لا صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب " وبه يقول: الشافعي , وإسحاق وغيرهما، واما احمد بن حنبل، فقال: معنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب إذا كان وحده "، واحتج بحديث جابر بن عبد الله، حيث قال: من صلى ركعة لم يقرا فيها بام القرآن، فلم يصل إلا ان يكون وراء الإمام، قال احمد بن حنبل: فهذا رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، تاول قول النبي صلى الله عليه وسلم: " لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب ان هذا إذا كان وحده " واختار احمد مع هذا القراءة خلف الإمام، وان لا يترك الرجل فاتحة الكتاب وإن كان خلف الإمام.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، فَقَالَ: " هَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا؟ " فَقَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ "، قَالَ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَابْنُ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: عُمَارَةُ، وَيُقَالُ عَمْرُو بْنُ أُكَيْمَةَ، وَرَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدْخُلُ عَلَى مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ، لِأَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ هُوَ الَّذِي رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ " فَقَالَ لَهُ حَامِلُ الْحَدِيثِ: إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ، قَالَ: اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ، وَرَوَى أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ " وَاخْتَارَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَقْرَأَ الرَّجُلُ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ، وَقَالُوا: يَتَتَبَّعُ سَكَتَاتِ الْإِمَامِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ، فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمُ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَبِهِ يَقُولُ: مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ يَقْرَءُونَ، إِلَّا قَوْمًا مِنَ الْكُوفِيِّينَ، وَأَرَى أَنَّ مَنْ لَمْ يَقْرَأْ، صَلَاتُهُ جَائِزَةٌ، وَشَدَّدَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْكِ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ، فَقَالُوا: لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَحْدَهُ كَانَ أَوْ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَذَهَبُوا إِلَى مَا رَوَى عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَرَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَتَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ " وَبِهِ يَقُولُ: الشافعي , وَإِسْحَاق وَغَيْرُهُمَا، وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَقَالَ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ "، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حَيْثُ قَالَ: مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَهُ " وَاخْتَارَ أَحْمَدُ مَعَ هَذَا الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ، وَأَنْ لَا يَتْرُكَ الرَّجُلُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس نماز سے فارغ ہونے کے بعد جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا: کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا: جی ہاں اللہ کے رسول! (میں نے کی ہے) آپ نے فرمایا: تبھی تو میں یہ کہہ رہا تھا: آخر کیا بات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جا رہی ہے اور مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے، وہ (زہری) کہتے ہیں: تو جب لوگوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ان نمازوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں آپ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے انہیں عمرو بن اکیمہ بھی کہا جاتا ہے، زہری کے دیگر تلامذہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے «قال الزهري فانتهى الناس عن القراءة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم» زہری نے کہا کہ لوگ قرأت سے رک گئے جس وقت ان لوگوں نے اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا
۳- اس باب میں ابن مسعود، عمران بن حصین اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے لیے رکاوٹ کا سبب بنے جن کی رائے امام کے پیچھے بھی قرأت کی ہے، اس لیے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اور انہوں نے ہی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ ناقص ہے، ناقص ہے، ناتمام ہے تو ان سے ایک شخص نے جس نے ان سے یہ حدیث اخذ کی تھی پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں؟) تو انہوں نے کہا: تم اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی،
۵- اکثر محدثین نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ جب امام بلند آواز سے قرأت کرے تو مقتدی قرأت نہ کرے، اور کہا ہے کہ وہ امام کے سکتوں کا «تتبع» کرتا رہے، یعنی وہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لیا کرے،
۶- امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرأت کرتا ہوں اور لوگ بھی کرتے ہیں سوائے کوفیوں میں سے چند لوگوں کے، اور میرا خیال ہے کہ جو نہ پڑھے اس کی بھی نماز درست ہے،
۷- اور اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس سلسلہ میں سختی برتی ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورۃ فاتحہ کا چھوڑنا جائز نہیں اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہو، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر سورۃ فاتحہ کے نماز کفایت نہیں کرتی، یہ لوگ اس حدیث کی طرف گئے ہیں جسے عبادہ بن صامت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور خود عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد امام کے پیچھے قرأت کی ہے، ان کا عمل نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اسی قول پر رہا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے،
۸- رہے احمد بن حنبل تو وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو تب سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہو گی۔ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جس نے کوئی رکعت پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ میں ایک شخص ہیں اور انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلے پڑھ رہا ہو۔ ان سب کے باوجود احمد بن حنبل نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے ہی کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ آدمی سورۃ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 137 (826)، سنن النسائی/الافتتاح 28 (90)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 13 (848، 849)، (تحفة الأشراف: 14264)، موطا امام مالک/الصلاة 10 (44)، مسند احمد (2/240، 284، 285، 487) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ جابر رضی الله عنہ کا اپنا خیال ہے، اعتبار مرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجود ہیں وہ آراء حدیث کے ظاہر معنی کے مطابق بھی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة // 79 //، صحيح أبي داود (781)
حدیث نمبر: 313
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن ابي نعيم وهب بن كيسان، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول: " من صلى ركعة لم يقرا فيها بام القرآن فلم يصل إلا ان يكون وراء الإمام ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: " مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے نماز ہی نہیں پڑھی، سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر موطا امام مالک/الصلاة 8 (38)، (لم یذکرہ المزی فی مظانہ ج2/ص285-288 من رقم 3125 إلی 3132) (صحیح) (واضح رہے یہ جابر رضی الله عنہ کا قول ہے، اور اس کو اصطلاح میں موقوف کہتے ہیں)»

وضاحت:
۱؎: اس اثر کا پہلی والی صحیح احادیث کے ساتھ کوئی معارضہ نہیں، امام بیہقی نے کتاب القراءۃ (ص: ۱۱۲) میں جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا یہ اثر نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: اس اثر میں نماز میں سورۃ الفاتحۃ کی تعیین قرأت کے لیے دلیل بھی ہے اور یہ کہ ان حضرات کے خلاف جو الفاتحۃ کی نہ تعیین کے قائل ہیں اور نہ ہی وہ آخری دو رکعات میں اس سورۃ کی قرأت کے وجوب کے قائل ہیں، نماز کی تمام رکعتوں کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کی قرأت کے واجب ہونے کی بھی دلیل ہے، اور جہاں تک جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کی: «إلا وَرَائَ الإمَامِ» والی بات کا تعلق ہے تو:
(۱) احتمال ہے کہ یہ آپ رضی الله عنہ کا امام کے پیچھے اس نماز میں سورۃ الفاتحۃ کے ترک کر دینے کے جواز کا مسلک ہو کہ جس میں امام سورۃ الفاتحۃ جہراً پڑھتا ہے۔
(۲) یہ بھی احتمال ہے کہ: اس سے مراد وہ رکعت ہو کہ کہ جس میں مقتدی امام کو رکوع کی حالت میں پائے اور اس کے ساتھ مل جائے تو اس کی یہ رکعت ہو جائے گی، اس تاویل کو اسحاق بن ابراہیم الحنظلی جیسے علماء نے اختیار کیا ہے۔
(۳) ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں یزید الفقیر کی روایت سے ایک اثر درج کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما چار رکعات والی نماز پہلی دو رکعات میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت جب کہ آخری دو رکعت میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کہ ہم یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے ساتھ قرأت سے کچھ اور پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی، (تو جابر رضی الله عنہ کے عمل سے لوگوں کے لیے وضاحت ہو گئی) اور یہ کہ یہ لفظ عام ہے: اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے بھی مقتدی کے بھی اور امام کے لیے بھی۔
(۴) عبیداللہ بن مقسم کی روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما فرماتے تھے: نماز میں قرأت کا سنت عمل یہ ہے کہ نمازی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحۃ اور اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی پڑھے جب کہ آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحۃ پڑھ لے … اور اصول یہ ہے کہ صحابی جب سنت کا کلمہ استعمال کرے اور کہے: «كنا نتَحدث» تو محدثین کرام اسے مرفوع احادیث میں شمار کرتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی ۱/۲۶۱)

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف، الإرواء (2 / 273)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.